سی پیک سست روی کا شکار اور خاطر خواہ مقاصد حاصل نا کرنے سے چین پاکستان مایوسی کا شکار ہیں۔ جرمن جریدہ
جرمن جریدہ ڈچ ویلے کے جاری کردہ حالیہ رپورٹ “گوادر بندر گاہ غیر فعال کیوں ہے؟“ کے مطابق گوادر پورٹ کو پاکستان کی خوشحالی، استحکام اور امن کی ایک نوید سے تعبیر کیا جاتا ہے تاہم چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت تعمیر کی جانے والی یہ بندر گاہ اپنے افتتاح کے آٹھ برس بعد بھی ویران ہی پڑی ہے-
شپ ٹریکنگ اور میری ٹائم تجزیات فراہم کرنے والے میرین ٹریفک کے مطابق لیکی بندرگاہ میں سن 2023 میں 26 بحری جہاز لنگر انداز ہوئے، جو اس کے آپریشن کا پہلا سال تھا، یہ بڑی بندرگاہوں کے مقابلے میں ایک معمولی تعداد ہے لیکن گوادر بندرگاہ نے سن 2007 میں فعال ہونے کے باوجود اب تک کے بہترین سال میں صرف 22 جہازوں کو خدمات فراہم کی ہیں۔
یہ باقاعدگی سے طے شدہ گہرے سمندر کی شپنگ لائنوں کو راغب کرنے میں بھی ناکام رہی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ گوادر پورٹ ابھی تک پاکستان یا چینی آپریٹنگ کمپنیوں کے لیے آمدنی پیدا کرنے میں ناکام ہی رہی ہے۔ کامسیٹس یونیورسٹی اسلام آباد میں بین الاقوامی تعلقات کے اسسٹنٹ پروفیسر عظم خالد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اگرچہ گوادر پورٹ بالآخر کراچی کی بندرگاہوں کو پیچھے چھوڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن سرمایہ کاری کی کمی اسے پیچھے دھکیل رہی ہے۔
خالد کا کہنا ہے کہ راز کی بات یہ ہے کہ دراصل پاکستان اور چین دونوں اس منصوبے سے مایوس ہو چکے ہیں،”نوکریوں کے وعدے پورے نہیں کیے گئے۔ صنعتی وعدوں کو پورا نہیں کیا گیا پاکستانیوں کے لیے کاروباری مواقع پورے نہیں کیے گئے۔ انہوں نے (چین نے) خصوصی 9 اقتصادی زونز کا وعدہ کیا تھا آج تک کوئی بھی مکمل طور پر فعال نہیں ہے۔
گوادر میں ہونے والی ترقی چین پاکستان اقتصادی راہداری کے باقی حصوں کی صورت حال کی بھی عکاسی کرتی ہے۔ جرمن تھنک ٹینک میکاٹر انسٹی ٹیوٹ فار چائنہ اسٹڈیز کے سابق تجزیہ نگار اور صحافی جیکب مارڈیل کے بقول، ”سی پیک کو اپنے آغاز سے ہی مسائل کا سامنا رہا ہے۔
ان میں سے کچھ مسائل افغانستان سے متصل بلوچستان کے سرحدی علاقوں سے جڑے ہیں جبکہ کچھ علیحدگی پسند ملیشیا کے ہیں۔ اس علاقے میں چینی شہریوں کو نشانہ بھی بنایا گیا جبکہ دہشت گردانہ حملے بھی کیے گئے۔ ملکی فوج اس غریب ترین پاکستانی علاقے میں فعال ملیشیا گروپوں کے خلاف کارروائی بھی کر رہی ہے۔
مارڈیل نے کہا، ”چونکہ حال ہی میں پاکستان میں سیاسی اور سلامتی کی صورتحال خراب ہوئی ہے، جس کی وجہ سے سی پیک بھی مزید متاثر ہوا۔‘‘
پاکستان جیسے ممالک چینی قرض دہندگان کے چنگل میں پھنس چکے ہیں۔ خالد کے مطابق پاکستانی حکومت اربوں روپے کے ایسے قرضے چکانے کی کوشش میں ہے، جو اس نے سی پیک کے نام پر غیر ذمہ دارانہ سرمایہ کاری کی مد میں لیے تھے۔