سیٹلررزم، سافٹ کالونائزیشن، اور ہماری انسان دوستی ۔ ہارون بلوچ

418

سیٹلررزم، سافٹ کالونائزیشن، اور ہماری انسان دوستی
تحریر: ہارون بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

حالیہ دنوں پنجابی سیٹلرز کے قتل پر بلوچستان کے انسانی حقوق کے دعویداروں کے مذمتی بیانات دیکھ کر مجھے مظلوم فلسطین یاد آ گئے جب انہوں نے یہودیوں کو اپنے سرزمین پر اس نیت سے جگہ دیا تھا کہ وہ انسان ہیں اور انسانیت کی بنیاد پر اگر وہ فلسطین آ رہے ہیں تو اس میں کوئی دوراہے نہیں ہے۔ ہوا پھر کچھ یوں کہ یہودیوں نے فلسطین کو فلسطینوں کیلئے ہی جہنم بنا دیا اور آج ستر سال سے زائد عرصہ ہو چکا ہے اور فلسطینی دنیا بھر میں دربدر کی زندگی جی رہے ہیں اور دنیا میں بدترین انسانی مظالم کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہودیوں نے مظلوم فلسطینوں کے سرزمین پر اپنی ریاست بنائی اور اب فلسطینی دنیا بھر میں اپنی ریاست کیلئے چیخ و پکار کر رہے ہیں لیکن اب یہودیوں کے دل میں فلسطینیوں کیلئے کوئی بھی محبت نہیں بلکہ وہ ان سے شدت سے نفرت کرتے ہیں اور ان کے قتل پر جشن مناتے ہیں۔

ایسٹ انڈیا میں جب برطانوی بیپوپاری کاروبار کی شکل میں ہندوستان میں اپنی جگہ بنا رہے تھے تو وہاں پر اس وقت کے بادہشتوں کو اسی طرح کی بیوکوفانہ درباریوں نے انسانی دوستی کی بنیاد پر جگہ دی کہ وہ کاروبار کے سلسلے میں اپنے بچوں اور یہاں کے مقامی افراد کو کاروبار دینگے اور پھر یوں ہوا کہ ہندوستان میں ایسٹ اینڈین کمپنی کی وجہ سے ہندوستانی بچہ بچہ مر رہا تھا۔ بھوک افلاس اور لگان نے ہندوستانیوں کی زندگی کو ہیجرن بنا دی تھی اور ایک سو سال تک ہندوستانی برطانیوں کے ہاتھوں ذلیل اور خوار تھے۔

سیٹلر کالونیولزم کی ایک اور بہترین مثال الجیریا میں فرانس کے آبادی کی صورت میں ملتی ہے جب فرانس نے الجیریا کو اپنی Permanent کولونی بنانے کیلئے اپنے لوگوں کو روزگار، کاروبار اور دیگر شعبوں میں کام کرنے کیلئے الجیریا میں بھیجنے کا فیصلہ کیا اور انہوں نے وہاں پر پہلے پہل بطور کاروباری شخص اور اپنی روزی روٹی حاصل کرنے کیلئے الجیریا میں داخل ہوئے لیکن بعدازاں وہ نہ صرف وسیع پیمانے پر مقامی لوگوں کے کلچرل، زبان اور حکومت و دیگر اتنظامی معاملات میں مداخلت کرنے لگے بلکہ انہوں نے الجیریا میں فرانسیسی قتل و غارت گری اور بدترین نسل کشی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور جب الجیریا کی قومی آزادی کی تحریک زور پکڑنے لگی تھی تو فرانس کی مقامی مخبری کا کردار فرانسیسی سیٹلرز نے بخوبی انجام دی اور دیکھتے دیکھتے ان کا کردار الجیریا بھر میں پھیلتا گیا اور مضبوط ہوتا گیا کیونکہ کسی بھی سیٹلر کیلئے مقامی لوگ اہمیت نہیں رکھتے بلکہ وہ فکری اور سوچ کے حوالے سے کالونائزر کا ساتھ دیتا ہے اور کسی بھی کالونائزر کیلئے مقامی افراد پر بھروسہ کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا لیکن جو غیر مقامی سیٹلرز ہوتے ہیں وہ ریاست کے کسی نہ کسی صورت میں وفادار اور ان کے مقامی ایجنٹ کا کردار ادا کرتے ہیں کیونکہ غیر مقامی افراد کسی بھی قومی تحریک یا جدوجہد سے انتہائی زیادہ خوفزدہ ہوتے ہیں اور ان کے سرواول کا مسئلہ ہوتا ہے۔ سیٹلرز کو اس بات کا اچھی طرح علم ہوتا ہے کہ اگر مقامی تحریک زور پکڑتی ہے یا کامیابی حاصل کرتی ہے تو اس صورت میں انہیں اس سرزمین سے نکلنا ہوتا ہے اور وہ جو معاشی فائدے حاصل کر رہا ہوتا ہے وہ اسے کسی بھی صورت چھوڑنا نہیں چاہتا اس لیے وہ فطری طور پر کالونائزر کا ساتھ دیتا ہے اور اس کیلئے مقامی ایجنٹ کے طور پر کام کرتا ہے۔ سیٹلرز فطری طور پر قبضہ گیر کے ساتھی ہوتے ہیں اور کسی مقبوضہ علاقے میں قبضہ گیر کے اہم احساسوں کو انسانی بنیادوں پر رہنے دینا قومی تحریک کے ساتھ جرم ہے۔ الجیریا میں فرانسیسی آبادکاروں نے مقامی افراد کے ساتھ وہی کیا جو دنیا بھر میں سیٹلر کالونائزر کرتے ہیں۔

اس کی ایک اور مثال ساوتھ افریقہ لیتے ہیں جہاں Dutch East India Company نے کاروبار کی نیت سے ساوتھ افریقہ کے ساحلی علاقوں میں جگہ بنا لی اور بعدازاں وہاں اپنے لوگوں کیلئے سیٹلمنٹ کا کام کیا اور چلتے چلتے جب انہوں نے وہان کے زمین، لوگوں کی زندگی اور دیگر معاملات کو اچھی طرح اسٹڈی کرنا شروع کیا تو انہوں نے بعدازاں اپنی اثرورسوخ بڑھائے اور بڑھاتے بڑھاتے آخر انہوں نے پورے ساتھ افریقہ میں برطانیہ کے ساتھ مل کر اپنی کالونیز بنائی اور کاروبار کے نام پر آئے ہوئے سیٹلرز نے زمینوں پر اپنی ملکیت کا دعوی کرنا شروع کر دیا اور مقامی لوگوں کیلئے ہی زمین تنگ کر دی۔ مقامی لوگوں کو جاہل سمجھنا اور ان کے کلچر کو تباہ کرتے ہوئے اپنے کلچر کو مسلط کرنا، اپنی گورنمنٹ سسٹم کو مقامی سسٹم کے بجائے سامنے لانا اور مقامی لوگوں سے آہستہ آہستہ تمام اختیارات چھین لینا۔ بلوچستان اس دنیا میں کوئی انوکھا کیس نہیں بلکہ دنیا بھر میں سیٹلرز بطور سافٹ کالونائزر مقبوضہ علاقوں میں داخل ہوتے ہیں اور وہاں ریاستی قبضے کو مستحکم رکھنے کیلئے مختلف سافٹ طریقوں سے کام کرتے ہیں جس میں سب سے اہم کاروبار کی شکل میں مقامی آبادیوں میں داخل ہونا، مقامی افراد کے یہاں قبضہ گیر کے زبان کو متعارف کرانا، قبضہ گیر کے کلچر کو متعارف کرانا، مقامی کلچر کو برا بھلا کہنا، آپ کبھی بھی یہ نہیں دیکھیں گے کہ کسی غیر مقامی سیٹلر نے مقامی کلچر کو اپنایا ہے بلکہ وہ ہمیشہ اپنے کلچر کو آہستہ آہستہ پھیلانے کا کام کرتا ہے اور سب سے اہم جاسوسی کا کام ہے جو سیٹلرز اپنی وفاداری ثابت کرنے کیلئے ریاست کیلئے کرتے ہیں۔ جاسوسی صرف پیسے لیکر نہیں کیا جاتا بلکہ بلوچستان کے ویرانوں میں جب کوئی شوان کسی سرمچار کو دیکھتا ہے اور اگر اسے کسی خطرہ کا معلوم ہے تو وہ اس کو اپنے لیے بطور قومی فرض سمجھ کر سرمچار کو خطرہ سے آگاہ کرتا ہے جس قومی جذبے سے ایک شوان بطور بلوچ ایک سرمچار کو معلومات دیتی ہے اسی نیت سے ایک سیٹلر قابض ریاست سے فطری طور پر جڑا رہتا ہے اور ضرورت پڑنے پر ہر معاملے سے دشمن کو آگاہ کرتا ہے۔

سیٹلرز میں مختلف اقسام کے افراد
دنیا میں کسی بھی کالونی کی مثال لی جائے وہاں پر سب سیٹلرز بطور وزیر، کمشنر، آفسر اور فوجی بن کر نہیں آئے ہیں بلکہ سیٹلرز کی اکثر آبادی کاروباری افراد کی صورت میں روزگار ڈھونڈنے کے بہانے مقبوضہ علاقے میں داخل ہوتے ہیں جن میں وہ غربت اور کاروبار کو جواز بناکر مقامی علاقوں میں اپنے لیے جگہ بنا لیتے ہیں، زمینیں خریدتے ہیں اور مقامی افراد کے ساتھ گھل ملنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ اکثر کی کوشش ہوتی ہے کہ وہاں پر شادی اور رشتہ داریاں کریں تاکہ وہ مقامی افراد کے ساتھ مزید تعلقات جوڑ سکیں۔ یہاں یہ بھی لازمی نہیں ہوتا کہ کوئی بھی شخص مخبر بن کر ہی مقامی آبادی میں گھس جائیں بلکہ وہ کسی بھی چھوٹے معاملات کی صورت میں داخل ہوتا ہے جیسے کہ تعلیم دینے کی غرض سے، ٹیکنیکل یا فیکٹری کی صورت میں، یا مقبوضے علاقے میں کمزور ترین شعبہ جہاں مقامی افراد زیادہ نہیں وہ وہاں پر داخل ہوتے ہیں اور پھر یہ آبادکاری کا کام سرانجام دیتے ہیں چونکہ مقامی لوگ جنہیں کالونائزر کی زبان میں Native کہا جاتا ہے انہیں قابض کی جانب سے تعلیم، ٹیکنیکل فیلڈ بلکہ ہر شعبے میں پیچھے رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے اور ان خالی جگاہوں کو غیر مقامی افراد سے پر کیا جاتا ہے کیونکہ قبضہ گیر کو اس بات کا اچھی طرح علم ہوتا ہے کہ اگر مقامی افراد ان فیلڈز میں آگے آئے اور تربیت حاصل کی تو اس کو اپنے قبضے کو برقرار رکھنے میں کافی مشکلات کا سامنا ہوگا اس لیے وہ ان جگہوں میں غیر مقامی آبادکاروں کو لاتا ہے اور مقامی افراد کو ان پر ڈیفینڈ کیا جاتا ہے۔

بلوچستان میں تعلیم کو بطور مثال دیکھتے ہیں۔ بلوچستان بھر میں پہلے پہل پنجابیوں کو بطور ٹیچرز بلوچستان بھر میں پھیلایا گیا اور ہمیشہ یہ تاثر پیدا کیا گیا چونکہ بلوچستان میں اعلی تعلیمی لوگ نہیں، تعلیم سے پیچھے ہیں اس لیے پنجابی بلوچستان میں پڑھانے آتے ہیں اور مقامی افراد کی اس حد تک ذہن سازی کی گئی کہ اکثر و بیشتر بلوچ یہی سمجھتے تھے کہ چونکہ بلوچ ان پڑھ ہیں اس لیے پنجابیوں کا یہاں ہونا ضروری ہے اور اس کو جواز بناکر بلوچستان بھر میں پنجابی آبادکاری کی گئی۔ بلوچستان میں حالیہ تحریک کے شروع ہوتے ہی جب بلوچستان بھر میں ان مقامی ایجنٹوں کی حقیقت آشکار ہونا شروع ہوئی اور کئی لوگ یہاں سے چلے گئے تو بلوچستان بھر میں تعلیم کا شعبہ اچانک بڑھنے لگا اور حالیہ دنوں حالت یہ ہے کہ ہر یونیورسٹی سے سالانہ ہزاروں طلبہ صرف ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے فارغ ہوتے ہیں اور پھر بیروزگار ہوتے ہیں۔ اگر بلوچ بے تعلیم تھے اور پنجابی ٹیچرز کا قتل بلوچوں کو تعلیم سے پیچھے رکھنے کا سبب ہوتا تو آج کی بلوچستان اور 2000 کی بلوچستان میں تعلیم کے اس حد تک شرح بڑھنے کی سبب کیا ہے ؟ تحریک کے شروع ہونے کے بعد سے اور پنجابی ٹیچرز کے بلوچستان سے منتقلی کے بعد سے بلوچستان بھر میں تعلیم کا شرح نہ صرف بڑھا ہے بلکہ وسیع پیمانے پر بڑھا ہے اور ریاستی تعلیمی اداروں کی غیر فعالیت کے سبب پرائیوٹ اداروں اور volunteers کی صورت میں لوگوں نے بلوچ بچوں کی تعلیم دی ہے اور جہاں جہاں یہ سیٹلرز نکل رہے ہیں وہاں تعلیم کا شرح بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ مسئلہ مقامی افراد میں صلاحیت یا جاہلیت کا نہیں بلکہ قبضہ گیر کے اس سوچ میں تھا کہ بلوچوں کو تعلیم سے دور رکھنے کیلئے ایسے ٹیچرز لانچ کیے جائیں جنہیں مقامی افراد کی ترقی اور بہتری سے کوئی تعلق نہ ہو اور وہ مقامی افراد کے ذہن میں اسے جاہل دیکھا کر آگے بڑھنے سے روکیں جبکہ ایک بلوچ ٹیچر بچوں کو اپنا سمجھ کر انہیں بہتر تعلیم دے کر آگے بڑھانے کا جذبہ رکھتا ہے کیونکہ اس میں وہ اپنے علاقے اور قوم کی ترقی بھی دیکھتا ہے۔

یہاں یہ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ سوچ قبضہ گیر کی جانب سے پیدا کی جاتی ہے کہ مقامی افراد میں اہلیت نہیں ہے اور وہ جاہل ہیں، یہ تعلیم اور کسی بھی شعبے میں پیچھے ہیں اس لیے قابض کے لوگ یہاں آکر منتقل ہو جائیں اور آبادکاری کریں۔ افریکین کالونائزیشن میں ہمیں اس کی مثالیں بہتر انداز میں ملتی ہیں کہ کس طرح مقامی افراد کو جاہل دیکھا کر قبضہ گیر کو آباد کیا گیا۔ اب کہا جائیں تو یہ ٹیچرز بھی ایجنٹ نہیں تھے لیکن وہ ایجنٹ سے زیادہ کام سرانجام دے رہے ہیں۔ کوئی بھی ایجنٹ صرف فوج کو انیٹلیجنس معلومات فراہم کرتی ہے لیکن سیٹلررزم صرف انفامیشن اور انٹیلیجنس کا کام سرانجام نہیں دیتی بلکہ وہ مقامی افراد کے کلچر، ان کی ویلیوز، ان کے رہن سہن، زندگی کے طرز و طور، ان کے جذبے، مقامی افراد کے کاروبار بلکہ زندگی کے کئی اثار چھین لیتی ہے اور سافٹ کالونائزیشن کا کام سرانجام دیتی ہے۔
سافٹ کالونائزیشن کیا ہے ؟

سافٹ کالونائزیشن قبضہ کا سب سے غیر فطری اور خطرناک شکل ہوتی ہے۔ اس میں طاقت ور یعنی قابض طاقت جبر اور وحشت کے بجائے مختلف طریقوں کو اپناتے ہوئے قبضہ کو مستحکم کرتی ہے اور اس کا اندازہ بھی مقامی افراد کو نہیں ہوتا کیونکہ یہ فوجی شکل میں نہیں بلکہ مختلف ٹول یعنی کاروبار، آبادکاری، تبلیغی جماعتوں، کیڈٹ کالجز، نام نہاد میگاپروجیکٹس کی صورت میں پھیلتی ہے جس میں نعرہ مقامی افراد کی ترقی اور خوشحالی ہوتا ہے لیکن اصل کام قبضے کو مستحکم کرناہوتا ہے۔ مثال کے طور پر بلوچستان میں پنجاب سے آتے ہوئے تبلیغی جماعت ہیں، اب کہنے کو تو وہ بلوچستان میں مذہب کی قدمت کرنے آئے ہیں لیکن تبلیغی جماعتوں کی صورت میں ہزاروں کلومیٹر دور بلوچستان میں آنے کا مقصد صرف اسلامی تعلیم کی ترویج نہیں کیونکہ یہ کام تو مقامی اسلامک اسکالرز خود کر سکتے ہیں لیکن مقامی افراد اصل کام نہیں کر سکتے اس لیے یہاں درجنوں غیر مقامی تبلیغی لائے جاتے ہیں یعنی نوجوانوں کی ذہن سازی کا کام۔ کسی بھی قوم کی اکثریتی آبادی نوجوانوں اور بچوں پر مشتعمل ہوتی ہے اور یہی بچے بڑھے ہوکر پھر قوم کی خدمت کا کام سرانجام دیتے ہیں لیکن تبلیغی جماعت جنہیں اکثر قبضہ گیر لانچ کرتا ہے ان کا بنیادی مقصد مقبوضہ علاقوں میں نوجوانوں کو ذہنی طور پر کھوکھلا کرنا ہوتا ہے۔ وہ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں بچوں کو مدرسوں میں رکھ کر انہیں دنیا کے دیگر علم و عمل سے دور رکھتے ہیں اور ان کی اس طرح ذہن سازی کی جاتی ہے کہ وہ اپنے rebellion age میں بھی ایک ذہنی بیمار کی طرح ہوتا ہے۔ وہ سیاست، قبضہ گیریت، سماج میں ہونے والے دیگر معاملات حتی کہ قتل و غارت سے بھی لاتعلق ہوتا ہے۔ کسی بھی انسان کیلئے اس کا rebellion age بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے جہاں اس وقت اسے میں کچھ کرنے کا جذبہ رہتا ہے لیکن تبلیغی جماعتوں کی صورت میں مقبوضہ علاقوں میں نوجوانوں کے rebellion ageمیں اہیں ذہنی بیمار بنایا جاتا ہے۔ اسی طرح بلوچستان بھر میں غیر مقامی افراد کا بطور کاروبار پھیلانا ہے چونکہ پہلے کہا گیا تھا کہ غیر مقامی افراد کا فطری طور پر ریاست کے ساتھ وفاداری رہتا ہے اس لیے وہ مختلف سافٹ شکل میں ریاست کیلئے کام کرتے ہیں مثال کے طور پر کسی علاقے کے میں گھس کر اس کے کاروبار کو قبضے میں رکھتے ہوئے مقامی افراد کو اپنے ماتحت کرنا، جب آپ کسی کے کاروبار پر قبضہ کرتے ہیں تو اس کی آدھی زندگی کو بھی قبضے میں رکھتے ہیں۔ قبضہ گیر بلوچستان میں ہمیشہ سے آزانہ کاروبار سے پریشان رہا ہے اور اس کو غیر مقامی افراد کے ہاتھوں میں رکھنے کی کوشش کرتا رہا ہے اس لیے آج بلوچستان میں ہزاروں بے روزگاروں کے باوجود یہاں کے Bureaucrats, Commissioners, officials, state departments, حتی کہ یونیورسٹیوں کی جبراسی کی نوکریاں بھی پنجابی یا دیگر غیر مقامی افراد کو دیا گیا ہے اور اگر اس میں دس یا پندرہ فیصد مقامی افراد کو جگہ دی بھی جاتی ہے تو یہ بھی rebellion کو روکنے اور اس پندرہ فیصد کیلئے مقامی افراد کو لڑنے اور کمپیٹیشن میں دھکیلنے کیلئے دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ہزاروں طلباء میڈیکل کے کچھ سیٹس کیلئے سالا سال competition کرتے ہیں لیکن انہیں اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ بلوچستان میں سیندک، ریکوڑک، درجن بھر سی پیک کے پروجیکٹس، گڈانی جیسے شف یارڈرز، ساحلی ادارے، مقامی بزنس کا کام بھی ہوتا ہے یعنی ہزاروں کی تعداد میں بلوچ ایک دوسرے سے محض 100 سیٹوں کیلئے مقابلہ کرتے ہیں جبکہ لاکھوں کی تعدادمیں غیر مقامی افراد کو بلوچستان میں پوسٹنگ پر لگایا جاتا ہے۔ اسی طرح بلوچ نوجوانوں کو 20 پی سی ایس، سی ایس ایس جیسےcompetitive پوسٹ کیلئے engage کرکے کروڑوں کے بلوچستان میں جاری بزنس کو غیر مقامی افراد کے ہاتھوں میں دی جاتی ہے۔ اسی طرح بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں بلوچ ماہیگروں کو دس کلومیٹر تک چھوٹے کائکوں پر مچھلی پکڑنے دیا جاتا ہے جبکہ غیر مقامی افراد ٹرالرز کے صورت میں اور غیر مقامی ایجنٹ کروڑوں کے کمیشنز کی صورت میں بلوچستان کے ساحلوں بزنس کو لوٹتے ہیں۔ سیندک سے صرف ایک چینی کمپنی بلین آف ڈالرز لے جاتی ہے مگر مقامی افراد کو روزانہ 700 مزدوری رکھ کر اس کے rebellion سوچ کا خاتمہ کیا جاتا ہے۔ سافٹ کالونائزیشن کا کام یہی ہوتا ہے کہ فوجی طاقت کا استعمال کیے بغیر مقامی لوگوں کے rebellion سوچ کا خاتمہ کیا جائے، ان کے کاروبار کو لوٹا جائے، مقامی مڈل کلاس طبقے کو عیاشیوں میں engageکیا جائے، مقامی افراد میں غیر مقامی زبان اور اس کے کلچر کو پھیلایا جائے، مقامی افراد کے ویلیوز اور نارمز کا خاتمہ کیا جائے، ان کے تعلیم، آرٹ، میوزک اور تمام تعلیمی سرگرمیوں کو مکس کرکے غیر موثر کیا جائے۔ غیر مقامیوں کو مقامی افراد کے ساتھ گھل مھلا کر ان کے سوچ کو ایک کیا جائے، ان میں رشتہ داریاں کی جائے، انہیں مقامی افراد کے یہاں زمینیں دی جائے، انہیں کاروبار کیلئے جگہ دی جائے وغیرہ وغیرہ۔ قبضہ گیریت کے فوجی طاقت کو کمزور کرنے کیلئے اس کے سافٹ کالونیل حکمت عملیوں کو غیر موثر بنانا بنیادی ضرورت ہے اور جب تک ان کا خاتمہ نہیں کیا جاتا انقلاب کے آخری فیز میں پہنچنا انہتائی مشکل ہو جاتا ہے۔ اسی وقت جب بلوچستان میں کوئی پنجابی سیندک، ریکوڈک، سی پیک، حب چوکی کے فیکٹریز، آرمی، ایف سی کی شکل میں آ رہی ہوتی ہے اور اپنا دبدبا برقرار رکھتی ہے اسی لحمے ایک نائی، ایک دوکاندار، ایک مزدور، ایک کپڑے بھیچنے والے کی صورت میں داخل ہوکر سافٹ پاور کی شکل میں قبضے کو مستحکم رکھنے کا کام کرتی ہے۔

آرمی میں شامل ایک پنجابی اہلکار کا کام جس طرح بلوچوں کی نشل کشی، ان کی مسخ شدہ لاشیں پھیکنا، انہیں سرے عام شوٹ کرنا، جبری طور پر گمشدگی کا نشانہ بناکر انہیں کرنٹ دینا، انہیں فیک انکاؤنٹر میں قتل کرنا ہوتا ہے اسی طرح ایک نائی کا کام بطور سافٹ اہلکار مقامی افراد کے دل میں اپنے لیے جگہ بنانا، کاروبار کے شعبے کو قبضے میں رکھنا، انٹیلی جنس کا کام سرانجام دینا، مقامی افراد کے خیالات سے دشمن کو آگاہ کرنا، جہدکاروں کے موومنٹس سے دشمن کو آگاہ کرنا، کیونکہ کوئی بھی سرمچار کسی بھی سیٹلر کیلئے خوف کی علامت ہوتی ہے اور وہ اس کی موجودگی کو اپنی جان کیلئے خطرہ محسوس کرتا ہے اور ایجنٹ نہ ہوکر بھی وہ ریاست کو اس کی اطلاعات دیتا ہے کیونکہ اس کی موجودگی کو وہ اپنی وجود کیلئے خطرہ محسوس کرتی ہے۔

سیٹلرز کا کام ہارڈ فاور سے نہیں ہوتا مطلب وہ بندوق لیکر کسی بھی شخص کو قتل نہیں کرتے لیکن وہ بندوق رکھنے والے شخص جو مقامی افراد کو قتل کر رہا ہے اس کے ساتھ وفادار رہتا ہے۔ کوئی بھی پنجابی بلوچستان میں اپنی تحفظ کی ضمانت آرمی اور آئی ایس آئی کو سمجھتی ہے اور یہاں سے contradiction کا آغاز ہوتا ہے۔ اس لیے سیٹلرز جہاں زمینیں خریدتی ہے، مقامی افراد کے دل میں دشمن کیلئے محبت جنم دینے کی کوشش کرتی ہے وہی طاقت کا استعمال دوسرے سیٹلرز جو فوج کی شکل میں ہوتے ہیں وہ استعمال کرتے ہیں۔
اس کی ایک اور مثال لیتے ہیں۔ جیسے کہ کوئی بھی مقبوضہ علاقے سے تعلق رکھنے والا ٹیچر اپنے طلبہ کو اپنے علاقے میں موجود دشمن کے حوالے سے آگاہ کرتی ہے، انہیں قبضہ گیریت کے حوالے سے آگاہ کرتی ہے ان کی ذہن سازی کرتی ہے۔ انہیں قبضے کے حوالے سے پڑھاتی ہے اور آگاہ کرتی ہے جبکہ غیر مقامی ٹیچر یعنی قابض سے تعلق رکھنے والا استاد وہ مقامی طلبہ کو ہمیشہ misguide کرتی ہے اور انہیں دشمن کیلئے نفرت کے بجائے محبت دلانے کی کوشش کرتی ہے۔ وہ ہمیشہ مقامی طلبہ کو قابض کے حوالے سے غلط معلومات مہیا کرتی ہے اور سب کا زمہ دار مقامی افراد کو گردانتی ہے اور natives کے دل میں مقامی افراد یعنی اپنے رہبر اور رہنماوں کیلئے نفرت جنم دینے کا کام کرتی ہے۔ اس تحریر کو پڑھنے والا کوئی بھی بلوچ طلباء بلوچستان میں موجود کسی پنجابی ٹیچر کا حوالہ دے کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ انہوں نے زندگی میں کبھی بھی بلوچستان مسئلے کو کالونائزیشن سے جوڑ ا ہے یا بلوچستان کے مسئلے کو مقامی رہنماؤں کا مسئلہ نہ کہا ہو لیکن ایک مقامی استاد کا حوالہ ہر طلباء کے ذہن میں ہو سکتا ہے جنہوں نے بلوچستان پر پاکستانی قبضے کے خلاف شہید ماسٹر بیت اللہ یا پروفیسر رزاق اور زاہد آسکانی کی صورت میں مقابلہ کیا ہے یا انہیں بنیادی اور حقیقی مسئلہ سمجھایا ہے۔ یہی فرق ایک بلوچ استاد اور پنجابی ٹیچر میں ہوتاہے، ایک بلوچ ٹیچر بلوچوں کو پڑھاتے ہوئے شہادت قبول کرتی ہے جبکہ غیر مقامی ٹیچر نوجوانوں کی ذہن سازی کرتے ہوئے انہیں بلوچ تحریک اور یا بلوچوں سے نفرت سکھاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ قبضہ گیر کے زبان کی hegemony بھی قائم کرتی ہے جس طرح ایک بلوچ استاد اپنے طلبہ کو بلوچی میں پڑھا اور سمجھاتی ہے اور اس سے طلبہ کی ذہن سازی اس کے اپنے زبان میں ہوتی ہے جبکہ غیر مقامی شخص اردو کا سہارہ لیتے ہوئے طلبہ کو اردو زدہ کر دیتی ہے یعنی وہ طلبہ کو قبضہ گیر کے زبان میں سوچنے کے مقام پر لاکھڑا کر دیتی ہے اور ان کا قبضے کو منظم کرنے میں بطور سافٹ کالونائزر انتہائی اہم رول ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر آج جہاں جہاں اردو نہیں پڑھائی جاتی یا اس کا استعمال انتہائی کم ہے تو وہاں مقامی افراد بلوچی میوزک، بلوچی شاعری اور بلوچ زندگی کے طور و طریقوں سے تعلق رکھتا ہے اور نسبتا دیگر علاقوں کے وہاں بلوچ نیشنلزم کا عنصر مزید رہتا ہے جبکہ جہاں طلبہ کو اردو میں پڑھایا یا لکھایا جاتا ہے وہاں اپنی مادری زبان جو براہوئی کی صورت میں ہو یا بلوچی کی وہاں اپنے میوزک کو کمتر، اپنے کلچر کو غیر مہذب، اپنے زبان کو کمتر سمجھا جاتا ہے اور یہ سب کام کون سرانجام دیتا ہے وہ غیر مقامی نام نہاد ٹیچر، یا وہ غیر مقامی کاروباری افراد جو اپنے ساتھ بندوق نہیں رکھتے لیکن جو کام وہ سرانجام دیتی ہے وہ بندوق سے بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ یعنی اگر اس کے ہاتھ میں بندوق نہیں بھی وہ وہی کام سرانجام دے رہی ہے بلکہ بہتر انداز میں سرانجام دے رہی ہے جو قابض فوج کر رہی ہوتی ہے فرق صرف مختلف محاذوں کا ہوتا ہے۔ موجودہ دنیا میں سافٹ کالونائزیشن خطرناک ترین صورتحال اختیار کر چکی ہے جو براہ راست فوجی شکل میں نہیں ہے لیکن آبادکاری، کاروباری، کلچر اور مختلف شکل میں پایا جاتا ہے اور ایک Native کو جس نفرت اور عقارت سے ایک فوجی کو دیکھنا چاہیے اسی نفرت اور عقارت سے ایک غیر مقامی شخص کو بھی دیکھنا چاہیے جو اس کے زمین پر غیر مقامی کلچر، زبان اور ان کے زمین پر موجود وسائل کو لوٹنے کیلئے آیا ہوا ہے۔

چین کی مثال لیتے ہیں۔ اب تک چین کی فوج بلوچستان میں موجود نہیں ہے لیکن کیا اس چیز کو بالائے طاق رکھ کر کہ چین کی فوج بلوچستان میں موجود نہیں اس لیے ان کے معصوم شہریوں کو نشانہ نہیں بنایا جائے جو مستقبل میں چین کی فوج کو بلوچستان میں لانے کی راہیں ہموار کر رہی ہیں۔ بلوچستان میں اب تک تو چین کی فوج آنے کی خواہش کا اظہار نہیں کر رہا بلکہ وہ ٹیچرز آنا چاہتے ہیں جو بلوچستان میں Confucian academies میں پڑھانا چاہتے یا ان کا قیام کرنا چاہتے ہیں یا وہ مزدور آنا چاہتے ہیں جو سی پیک کی شکل میں مختلف پروجیکٹس پر کام کر رہے ہیں اگر اس لحاظ سے کہ کوئی آبادکار جو نائی کی صورت میں بلوچستان میں موجود ہے جب تک بندوق لیکر آپ کے زمین میں موجود نہیں اس کا قتل غلط ہے تو پھر اس چینی کا بھی قتل غلط بن جاتا ہے جو بلوچستان میں کاروبار کے سلسلے میں آنے کی بات کر رہا ہے۔ دنیا میں کوئی بھی کالونائزر صرف بندوق کے نوک پر قبضہ نہیں کرتا بلکہ قبضے کو مضبوط کرنے کی مختلف شکلیں ہوتی ہیں اور ایک غلام کو قبضے کی تمام شکلیں تباہ کرنی چاہیے اور قابض کے تمام اثاثوں کے خاتمے کے ساتھ ہی ایک غلام آزادی کی طرف جلدی سفر کر سکتا ہے۔

بلوچستان میں اس وقت بلوچ قوم کو صرف طاقت پر مشتمل فوج کے قبضے کا سامنا نہیں ہے بلکہ کاروبار، غیر مقامی آبادی، مختلف نام نہاد میگاپوجیکٹس کی شکل میں بھی قبضے کا سامنا ہے جسے روکنے کیلئے بلوچ مزاحمتی فوج کو بھروپر مدت کرنے کی ضرورت ہے۔ جس طرح بلوچ ساحل میں کسی بھی ٹرالر کو اترتے ہوئے خوف محسوس ہوئی اس دن بلوچ ساحل غیر مقامی اور قابضین کے ٹرالرز سے چھٹکارہ پائے گی اس طرح جس دن بلوچستان میں قابضین کے پروجیکٹس غیر محفوظ ہوئے اس دن بلوچستان کے وسائل پر بلوچ قوم کا اختیار ہوگا اور اسی طرح جس طرح بلوچستان میں قابض کے فوجی قوت کو توڑنے کیلئے کام ہو رہی ہے اس طرح بلوچستان میں قابض کے سافٹ کالونائزیشن کی پالیسیوں کو بھی نشانہ بنانا چاہیے جو غیر مقامی افراد کی صورت میں بلوچستان میں موجود ہیں یا کاروبار کے سلسلے میں بلوچ وسائل کو لوٹ رہی ہے یا بلوچ کلچر اور زبان کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

امریکی پولیٹکل سائنسٹ جوزف نائی جونئیر لکھتے ہیں کہ اس وقت امریکہ کی دنیا بھر میں ڈومیننسی کے پیچھے جس طرح امریکی فوج اور معاشی طاقت کا کردار ہے اسی طرح کے پیچھے امریکی سافٹ طاقت کا بھی کردار ہے جس میں امریکی کلچر کو دنیا بھر میں پھیلانا، اس کے زبان کو دنیا بھر میں رائج کرنا، ہالی ہوڈ کی صورت میں دنیا بھر میں انٹرٹینٹمنٹ کے سورس کو امریکی فلموں کی صورت میں سامنے لانا یا امریکی کلچرل کو دنیا بھر میں پھیلانا بھی شامل ہے اور یہ تمام کام کسی بھی مقبوضہ علاقے میں غیر مقامی سرانجام دیتے ہیں جو قابض کے کلچر کو سماج میں پھیلانے، اس کی زبان کی ترویج یا مختلف شکلوں میں سافٹ انداز میں قابض کیلئے مقامی افراد کے دل میں جھوٹا سوچ پیدا کرنا شامل ہے۔ بلوچ قومی جہد کو اس وقت جہاں آرمی کی صورت میں طاقت کا سامنا ہے وہی غیر مقامی افراد کی شکل میں سافٹ کالونائزیشن پالیسیوں کا سامنا ہے اور قابض کی فوجی طاقت کو غیر مقامی افراد مختلف شکل میں مضبوط کر رہے ہیں اس لیے جس طرح دشمن کے فوج کو ٹریٹ کیا جاتا ہے اس طرح اس کے غیر مقامی سافٹ طاقت کو بھی شدت سے نشانہ بنانا چاہیے۔ کوئی بھی ذی شعور غلام قابض کے ان سافٹ پاورز سے ہمدردی نہیں رکھ سکتا اور جو بھی ان سے ہمدردی رکھتے ہیں یا تو وہ قبضے کی اصل طاقت اور طریقے کا علم نہیں رکھتے، غلامی کے خلاف آزادی کی جنگ کی حقیقیت سے آگاہی نہیں رکھتے یا وہ مایوسی کی کیفیت میں یہ سب کچھ کر رہے ہوتے ہیں یا خود غیر مقامی بن کر ان میں غیر مقامیوں کیلئے محبت جنم لے چکی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔