“راسکوہ” ۔ نو بہار راسکوئی

280

“راسکوہ”

تحریر: نوبہار راسکوئی
دی بلوچستان پوسٹ

زندگی کے کچھ حسین لمحات ہمیشہ کسی خوبصورت چیز سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ اسی طرح میرے زندگی کے کچھ حسین لمحات بھی ایک ایسے پہاڑ سے جڑے ہوئے ہیں جس سے پوری دنیا خوب واقف ہے۔ میں اپنے زندگی کے کچھ ساعت اپنے سر زمین بلوچستان کے ایک ایسے پہاڑ”راسکوہ”کے دامن میں گزارا جس کو آج بھی یاد کرکے سوائے فریاد کے اور کچھ نہیں کرسکتا۔ ہم راسکوہ کی دامن میں اپنے ایک چھوٹی سی خوبصورت بستی میں رہتے تھے اور اس وقت میں میٹرک کا طالبِ علم تھا سکول سے چھٹی کرنے کے بعد آکر گھر میں کچھ دیر کیلئے آرام کر کے پھر اپنی کتابیں اٹھاکر راسکوہ کی طرف چلا جاتا راسکوہ کی دامن میں اکیلا بیٹھ کر اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ راسکوہ کے ساتھ باتیں کرتا رہتا اور مغرب کے وقت واپس اپنے بستی چلا جاتا اس طرح دن گزرتے گئے میرے اور راسکوہ کی درمیان دوستی بڑھتی گئی۔ جس دن میرا جانا نہیں ہوتا وہ پورا دن مجھے اچھا نہیں لگتا بس یہی انتظار ہوتا کب اپنے عزیز دوست”راسکوہ”کے پاس جاؤنگا مجھے ایسے لگ رہا ہوتا راسکوہ میرا انتظار کررہاہے۔ جب میں مایوسی کا شکار ہوتا تو راسکوہ کی طرف جاتا پتہ نہیں مجھے کیوں ایسا لگتا مجھے حوصلہ صرف وہی راسکوہ ہی دیگا۔ جب میں نے میٹرک پاس کیا سارے دوست خوش تھے اب ہم کالج کیلئے کسی شہر کی طرف جائیں گے لیکن میں اداس بیٹھا سوچوں میں گم تھا۔ اب کالج ہمارے علاقے میں تھا نہیں مجھے اس کیلئے اب اپنے علاقے سے رخصت ہوکر شہر کی طرف جانا تھا اور ادر میرا دل مانتا ہی نہیں تھا راسکوہ کو میں چھوڑ کر کیسے جاسکتا ہوں۔

ان سوچوں میں مبتلا میں گھر پہنچا تو گھر والے سارے خوشی سے جھوم رہے تھے میں ان کے سامنے جھوٹی مسکراہٹ لے کر خوشی کا اظہار کررہا تھا اسی اثناء میں والد نے کہا اگلے ہفتے آپ کو کالج کیلئے فلاں کے ساتھ لاہور جانا ہے مجھے ایسے لگا ابو نے میرے سینے میں خنجر گھونپ دی۔ اسی پریشانی میں میں راسکوہ کی طرف چل دیا وہاں پہنچے ہی بے قابو رونے لگا کچھ دیر بعد مجھے ایسے لگا آج راسکوہ بھی میرے جانے سے پریشان لیکن وہ مجھے حوصلہ دے رہا تھا جب وہ دن بھی آیا مجھے رخصت ہوکر جانا تھا میں سب سے اپنے محبوب دوست کی طرف چل دیا وہاں دیر تک باتیں کرتے رہے اور آخرکار راسکوہ سے روتے ہوئے اجازت لیکر رخصت ہوا۔

یہ سنہ 1998 کی بات ہے میں لاہور آکر کالج میں اپنا تعلیمی سفر جاری رکھا لیکن بڑی مدت تک میرا دل لائبریری میں نہیں لگتا کیونکہ میرا لائبریری سب کچھ وہی راسکوہ ہی تھا۔ جب کتاب سامنے رکھتا راسکوہ ہی مجھے یاد آجاتا اور آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل جاتے اور انتظار میں ہوتا کب واپس وہاں جاؤنگا. اس وقت پاکستان ایٹمی تجربہ کرکے ایٹمی طاقت بن گیا تھا اور لاہور میں لوگ فخر سے کہتے تھے اب ہمارا ملک انڈیا کا ستیاناس کریگا۔ مجھے یاد ہے ایک دن ہمارے کالج میں پروگرام “یوم ء تکبیر” کے نام سے منعقد ہوا جب ہم ہال پہنچ گئے دیکھا آج بینرز پر راسکوہ کی نام ہے۔ اس کو دیکھ کر پہلے میں خوشی سے جھوم اٹھا اور اپنے دوستوں کو اس کے بارے بتانے لگا لیکن میرے پاس بیٹھا ایک بلوچ طالبِ علم جو ایک بلوچ قوم پرست تھا اس نے کہا آپ کو پتہ ہے راسکوہ کانام کیوں لکھا ہے ؟ میں نے کہا میں خود حیران ہوں۔اس نے کہا پاکستان نے اپنا ایٹمی تجربہ راسکوہ ہی میں کیا ہے۔ یہ اب وہ راسکوہ نہیں رہا آپ جس کے باتیں کررہے ہو۔ اس راسکوہ کے سینے کو چاک کر کے زہریلا بارود ڈال دیا گیا ہے، جو کہ ہمارے کیلئے بہت نقصان دہ ہے۔ اب اس سے آس پاس کے علاقوں میں مختلف بیماری پھیلنے کا خدشہ ہے جس طرح جاپان میں ایٹمی دھماکوں سے آج تک مختلف بیماریاں پھیلی ہوئی ہے۔

پھر میں نے پوچھا یہ لوگ کیوں خوشی منا رہے ہیں۔جزباتی ہوکر بولا یار ان کو کیا فرق پڑیگا ہم لوگ مرے یا جیئے یہ تو ہمارے مارنے پر تلے ہوئے ہیں۔ پھر ہم دونوں باہر کسی ہوٹل پر بیٹھ کر بہت دیر تک باتیں کرتے رہے۔ اور مجھے ایسا لگ رہا تھا یہ مجھ سے زیادہ راسکوہ سے محبت کرتاہے۔ میں پھر سے تذبذب کا شکار ہوکر اپنے دوست سے سوال کیا اب ہم لوگوں کیا بنے گا ؟ آخرکار راسکوہ ہی کیوں ان کو تجربہ کے لیے ملا ؟ اس نے مجھے صرف یہ کہا ہم غلام ہیں طاقت ور جو چاہے کرے کوئی پوچھنے والا نہیں مجھے ایسا لگ رہا تھا مجھ سے سب کچھ چھین لیا گیا ہے میرے ذہن میں راسکوہ اب کھنڈرات بن چُکا تھا۔

خیر کچھ دن بعد چھٹیاں ہوئیں ہم اپنے دوستوں کے ساتھ اپنے لمہ وطن کی طرف رخت سفر باندھ کر روانہ ہوئے، جب اپنی بستی پہنچے سب کچھ مختلف تھا۔ جہاں ہماری بستی تھی وہاں سے ہمارے لوگوں کو نکال دیا گیا تھا اکثریت اس پریشانی میں مبتلا تھے اب ہمارے علاقے میں بیماری پھیلے گی۔اب جو ہونا تھا ہوگیا تھا میرے راسکوہ کو اپنی خوشی کیلئے جلادیا گیا تھااب راسکوہ مجھے وہ راسکوہ نہیں لگ رہا تھا میں اس کو دور سے دیکھ کر اپنی یادیں تازہ کرتا رہتا۔

مجھے دوست کے باتیں یاد آجاتے یار” ان کو کیا فرق پڑے گا ہم مرجائیں”.اسی دن مجھے سمجھ آیا یہ 28 مئی ان کے لیے یوم تکبیر ہے لیکن بلوچوں کیلئے ایک سیاہ دن سے کم نہیں اور یہی دن بلوچوں کیلئے ایک سیاہ دن کہلاتا ہے جس دن پاکستان نے اپنا ایٹم بم بلوچستان کے علاقہ چاغی میں ٹیسٹ کر کے بلوچوں کیلئے تباہی لائی۔

حقیقتاً دیکھا جائے یہی دن بلوچستان کے لوگوں کیلئے ایک سبق سے کم نہیں یہی دن بلوچوں کو سِکھا دیتی ہے کہ بلوچوں کی زندگی کی اہمیت پاکستان کی ہاں کتنا ہے۔ یہی دن بلوچوں کو بتا دیتی ہے کہ آپ غلام ہو اور غلام قوم کی اہمیت قبضہ گیر کی پاس کیا ہے اور قبضہ گیر کِس حد تَک جا سکتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔