بی ایس او کے مرکزی سیکرٹری جنرل صمند بلوچ اور مرکزی سینئر جوائنٹ سیکرٹری مقبول بلوچ نے آج اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ وطن دہائیوں سے جبر و استبداد کے سائے تلے رہا ہے۔ بلوچ عوام کی نسل کشی، جبری گمشدگیاں، اجتماعی سزاء ساحل و وسائل کی لوٹ مار پچھلے دہائیوں سے تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ ریاستی پالیسی ساز قوتوں نے بلوچ قومی وسائل پر قبضہ جمانے کیلئے مختلف سامراجی حربے آزمائے ہیں اور روز بلوچ وسائل کو لوٹنے کے نت نئے ترکیب بنائے جارہے ہیں۔ سیندک ،ریکوڈک، سوئی گیس سمیت بلوچ وسائل کو لوٹنے کیلئے ہمیشہ ہی سے بلوچستان میں کھٹ پتلی حکومتیں بناکر ان سے دستخط لیے گئے جبکہ ان سوداگروں کو نوالہ دیکر بلوچستان کی معدنیات کو بلوچ قوم کی مرضی و منشاء کے بغیر بیرونی کمپنیوں کے ہاں فروخت کیا گیا ہے۔ بلوچستان کی معدنی دولت سے متعلق اسلام آباد نے استعماری پالیسی اپنا کر ایسے منصوبے بنائے ہیں جن میں بلوچ عوام کی منشا شامل نہیں ہے۔ بی ایس او نے پہلے ہی دن سے ایسے منصوبوں کو یکسر مسترد کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کا ساحلی شہر گوادر ڈیپ سی پورٹ ہونے اور سٹریٹ آف ہارمونز کے قریب واقع ہونے کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر تجارتی و دفاعی نقطہ نظر سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچ دشمن قوتوں اور ان کے عالمی سہولت کاروں کا روز اول سے گوادر کے ساحل پر بری نظر رہی ہے۔ کبھی سی پیک جیسے استحصالی پراجیکٹس کے بہانے بلوچ عوام کو گوادر سے بیدخل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو کبھی گوادر کو دبئی و سینگاپور بنانے کے کھوکھلے دعوے کر کے بلوچ عوام کو بیوقف بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پچھلے چند سالوں میں ریاست نے گوادر میں جاری بلوچ ساحل کی لوٹ مار کو مزید تقویت دینے کے لئے سیف سٹی نامی پراجیکٹ شروع کیا ہے۔ اس پراجیکٹ کے تحت گوادر شہر کو باڑ لگاکر باقی ماندہ بلوچستان سے علیحدہ کرنا اور مستقبل قریب میں وہاں پر موجود مقامی آبادی کو بیدخل کرنا ہے۔ گزشتہ عرصے جب گوادر شہر میں باڑ لگانے کی کوشش کی گئی تو بی ایس او نے بحیثیتِ ایک قومی ادارہ اس پراجیکٹ کے خلاف آواز اٹھائی، بلوچ عوام کو موبیلائز کیا اور سوشل میڈیا سمیت مختلف پلیٹ فارمز پر تحریک چلائی۔بی ایس او اور بلوچ عوام کی شدید مزاحمت کے باعث سرکار کو یہ پراجیکٹ روکنا پڑا۔
انہوں نے مزید کہا کہ آج ایک بار پھر سیکیورٹی کے نام پر اس گھناؤنے پراجیکٹ کا آغاز کردیا گیا ہے۔ اس گھناؤنے پراجیکٹ میں ریاستی ادارے، کٹھ پتھلی بلوچستان حکومت اور گوادر سے سلیکٹ شدہ رکن صوبائی اسمبلی براہ راست شریک ہیں۔ بلوچ عوام کی سخت مزاہمت کے باوجود بھی ایک بار پھر اس منصوبے کو شروع کرنے کا مقصد یہ ہے ریاستی پالیسی ساز عوامی آواز کو جبر سے کچلنے کی ہرممکن کوشش کررہے ہیں۔ گْوادر کو باڑ لگانے کے خلاف مقامی آبادی، بلوچ سیاسی پارٹیوں اور پوری قوم نے اپنا فیصلہ پہلے سے ہی سنا دیا ہے کہ ہم اس منصوبے کو قبول نہیں کرینگے۔
انہوں نے کہا کہ بی ایس او کا روز اول سے یہی بیانیہ رہا ہے کہ بلوچ قوم کی آواز کو جابرانہ پالیسیوں ،تشدد، اور نسل کشی سے ختم نہیں کیا جاسکتا لیکن ریاست بلوچ کی آواز کو سننے کیلئے تیار نہیں ہے۔ آج اس پریس کانفرنس کی توسط سےہم اپنے تحریک “باتیل ءِ پاسبان” کا باقاعدہ آغاز کر رہے ہیں۔ تحریک “باتیل ءِ پاسبان” کا بنیادی مقصد گوادر شہر کو باڑ لگاکر زندان میں تبدیل ہونے سے روکنا ہے۔ اس سلسلے میں ہم بلوچ قوم کو یکجاہ کرکے بھرپور سیاسی موبلائزیشن کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ اگر اس منصوبے کو ختم نہیں کیا گیا تو ہم اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔