بلوچ وسائل کی لوٹ مار اور گوادر فینسنگ کے خلاف 15 مئی کو سوشل میڈیا مہم کا انعقاد کیا جائے گا۔ بلوچ وائس فار جسٹس

256

بلوچ وائس فار جسٹس نے 15 مئی کو سوشل میڈیا پر بلوچ وسائل کی بے دریغ لوٹ مار اور گودار فینسنگ کے خلاف#BalochLandMattersہیش ٹیگ کے ذریعے کمپین چلانے کا اعلان کردیا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ بلوچ انسانی وسائل کو جبری گمشدگیوں اور نسل کشی کے زریعے لوٹنے کے ساتھ ساتھ بلوچ معدنی وسائل و قومی دولت کو بھی بے دردی سے لوٹنے کا سلسلہ جاری ہے۔سی پیک کے نام پر پاکستانی حکمرانوں نے چین سے اربوں ڈالر لئے ہیں لیکن گوادر کے مقامی لوگ آج بھی بنیادی انسانی ضروریات سے مکمل محروم ہیں۔ اس جدید دور میں بھی وہاں کے لوگ پانی کی بوند بوند کو ترستے ہیں جبکہ تعلیم اور صحت کے سہولیات بھی ناپید ہیں۔ گوادر کو دبئی اور سنگاپور سے تشبیہ دیا جاتا تھا لیکن حالیہ بارشوں نے قابض حکمرانوں کے تمام جھوٹے دعوؤں کو بے نقاب کردیا ہے۔ریاستی قابض حکمران اپنی نوآبادیاتی قبضے کو مزید مستحکم کرنے کے لئے اب گوادر کو باڑ لگا کر وہاں کے لوگوں کو ان کے سر زمینِ پر قید کرنے اور باقی بلوچستان سے الگ کرنے کی کوشش کررہے ہیں، لیکن اس ریاستی عمل کے خلاف بلوچ قوم خاموش تماشائی بننے کے بجائے بھر پور مزاحمت کرکے حمل جئیند کی سرزمین پر کسی کو آسانی سے قابض ہونے نہیں دینگے۔

بیان میں کہا گیا ہے ڈیرہ بگٹی میں سوئی کی مقام سے 1952 میں گیس کے قدرتی ذخائر دریافت کئے گئے، سوئی گیس آج ملک کے کونے کونے میں پہنچ چکی ہے، پنجاب کے گھر گھر میں چولہے اس گیس سے جلتے ہیں اس کے علاؤہ صنعتیں اور گاڑیاں بھی گیس سے چلتی ہیں لیکن بلوچستان کے لوگ آج بھی گیس سے محروم ہیں۔سوئی اور ارد گرد کے لوگ جن کے گھروں کے سامنے سے گیس پائپ لائن گزرتی ہیں لیکن وہاں کے لوگ آج بھی لکڑیاں جلا کر کھانا بناتے ہیں یہ ناانصافی گزشتہ کئی دہائیوں سے جارہی ہیں۔ ڈیرہ بگٹی اور سوئی جہاں سے گیس نکلتی ھے وہاں کے لوگ تعلیم و صحت سمیت دیگر تمام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور سہولیات کے فقدان کی وجہ سے خواتین دوران زچگی جان سے ہاتھ دھوبیٹھتی ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ریکوڈک اور سیندک معاہدات بھی بلوچ قوم کی مرضی و منشاء کے برخلاف کئے گئے ہیں، بلوچ قومی دولت کو مال غنیمت سمجھ کر لوٹا جارہا ہے۔ کول مائننگ کے نام پر چمالنگ میں بھی لوٹ مار کا سلسلہ جارہی ہے ایک طرف وسائل کو تو لوٹا جارہا ہے لیکن دوسری طرف مائننگ مزدوروں کو کوئی سہولت فراہم نہیں کی جاتی ہزاروں مزدور دوران مائننگ کانوں میں دب کر لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ بولان مائننگ کمپنی خضدار بھی فیروز آباد کے علاقے سے جس طرح لوٹ مار کررہی ہے اور وہاں کے مقامی لوگوں کو روزگار سمیت دیگر سہولیات سے محروم رکھا ہے معاہدے کے تحت انہیں وہاں مقامی لوگوں کو روزگار دینے کے علاؤہ تعلیم و صحت سمیت دیگر سہولیات فراہم کرنا تھا لیکن اس کے برعکس کمپنی یکطرفہ بلوچ وسائل کی لوٹ مار کررہی ہے۔ اس کے علاؤہ نسل کشی کی باقی کسر کوئٹہ تا کراچی خونی شاہراہ نے پوری کردی ہے اس شاہراہ پر دوران سفر روڈ حادثات میں ہر ماہ درجنوں افراد زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں، ترقی کے دعویدار قابض حکمران ایک شاہراہ نہیں بناسکتے لیکن دعوے دبئی اور سنگاپور کے کرتے ہیں جو بلوچ قوم کے ساتھ مذاق کے علاؤہ اور کچھ نہیں ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان میں تعلیمی اداروں کی ناگفتہ بہ حالات، صحت کی سہولیات کی عدم فراہمی، بے روزگاری سمیت بلوچستان کے دیگر معاملات کے حوالے سے 15 مئی کو سوشل میڈیا پر#BalochLandMattersہیش ٹیگ کے ساتھ کمپین چلا کر بلوچستان کے تمام حالات کو اجاگر کرینگے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ بارہ مئی کو بی وائی سی کی جانب سے گوادر فینسنگ کے خلاف #StopFencingGwadar ریلی کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور بلوچ قوم سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ریلی میں بھر پور شرکت کرکے نوآبادیاتی جبر کے خلاف مزاحمت کریں۔