بلوچستان سلاٹر ہاؤس بن چکا ہے، مئی میں 68 جبری گمشدگیاں ہوئیں، قومی اجتماع کا انعقاد کیا جائے گا – بی وائی سی

188

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں نے کوئٹہ پریس کلب کے میں پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔

بی وائی سی کے رہنماؤں نے کہا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کل واشک بس ایکسیڈنٹ واقع میں شہید والے افراد کے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کرتی ہے اور مشکل کے اس وقت میں ہم ان کے اہل خانہ کے غم میں برابر کے شریک ہے اور ان کے ساتھ کھڑے ہیں اور اس واقع کو بلوچ نسل کشی کا حصہ اور بدترین واقع قرار دیتی ہے ۔ ہم آپ سب سے درخواست کرتے ہیں اس واقع میں شہید ہونے والے افراد کے لیے دو منٹ کی خاموشی اختیار کی جائے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ایسا کوئی دن یا لمحہ نہیں گزرتا جہاں یہاں کے باشندے کوئی اذیت ناک واقعات کا سامنا نہ کرتے ہو ، رات کا کوئی بھی پہر ہو یا دن دہاڑے آپ کو آپ کے کسی عزیز کی جبری گمشدگی ،ٹارگٹ کلنگ ،مسخ شدہ لاش، روڈ ایکسیڈنٹ کینسر یا کسی اور صورت میں تکلیف دہ خبریں پہنچتی ہیں ۔ ہمارے بلوچ سماج کو اس نہج تک پہنچایا گیا کہ ہم خوشیاں منانا بھول گئے ہیں ، ہمیں یاد بھی نہیں رہتا آخری وقت کب ہمارے سماج نے خوشیاں منائی ہے ، ہمیں اتنی اذیت دی جارہی ہے ، اتنی لاشیں دی جارہی ہے، اتنی تشدد زدہ ماحول میں رکھا گیا ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کے تیس تیس لاشوں کو ایک ساتھ اس طرح نارمل حالت میں کندھا دے رہے ہیں جیسے کوئی اَسّی سال کے بزرگ کو طبعی موت کے بعد کندھا دیا جاتا ہے ، ہمارے آنکھوں کے سامنے ہر روز دس دس نوجوانوں کو ایک ساتھ جبری طور پرگمشدہ کیا جارہا ہے اور اب حالات اس طرح ہوگئے ہیں کہ ہر نوجوان اپنے گھر میں ، ہاسٹل میں یا کلاس روم میں بیٹھ کر اپنی جبری گمشدگی کا انتظار کررہا ہوتا ہے، اب ہمارے خواتین بھی گھر سے نکلتے ہیں تو یہی خوف ان کے ذہینوں میں بھی ہوتا ہے کہ کہی کوئی ویگو ڈالا بیچ شاہراہ سے جبری طور پہ گمشدہ کرکے اپنے ساتھ نہ لے جائے ،پہلے ہم کہتے تھے کہ بلوچوں کا پڑھے لکھے یا سیاسی لوگ کئی محفوظ نہیں ہے اب تو بلوچوں کے مزدور اور ڈرائیور مزدوری کرتے ہوئے بھی محفوظ نہیں ہے ، باڈر پر دو وقت کی عزت کی روٹی کمانے والے ڈرائیوروں کو آئے روز قتل کیا جارہا ہے ، ان کے ہر ایک گاڑی سے روزانہ ہزاروں روپے بھتہ حاصل کرنےکے باجود انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے، تذلیل کی جارہی ہے اور یہی حالات ماہی گیروں اور کسانوں کے بھی ہیں ۔ یہ حالات نہ ہمارے قسمت میں لکھے ہیں اور نہ ہی کسی قدرت کا امتحان ہے بلکہ یہ کالونائزیشن کی بدترین شکل ہے اور یہ تمام عمل بلوچ نسل کشی پالیسی کا حصہ ہے اور بلوچ نسل کشی کا پالیسی اسلام آباد کے اے سی والے کمروں میں بنائے جارہے ہیں جس میں ریاست کے تمام ادارے متفقہ طور پر شامل ہیں ۔

بلوچ یکجہتی رہنماؤں نے کہا کہ بلوچستان میں اس وقت ریاستی جبر اپنے انتہاء پر ہے اور بلوچستان اس وقت ایک سلاٹر ہاؤس بن چکا ہے ۔ صرف مئی کے مہینے میں 68جبری گمشدگی کے واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں اور ایسے متعدد جبری گمشدگیوں کے کیس مختلف وجوہات کے بنا ء پر رپورٹ نہیں ہوئے یا میڈیا پر نہیں آئے ہیں ۔ جبری گمشدگیوں کے وہ اعداد و شمار جومیڈیا میں رپورٹ ہوئے ان کے مطابق اوسطاً دو بلوچوں کو روزانہ کے بنیاد پرجبری گمشدگی کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ دو مئی 2024کو نوانو زامران سے دو بچے داوٴد ولد عبدلوہاب اور شہزاد ولد عبید بلوچ کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا ۔ 4مئی کو گیشکور سے دو نوجوان مسلم راشد اور شاہ نواز کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا ۔ 6مئی کو کسانو پل آباد تمپ سے تین نوجوان محسن عبدالصمد ، عادل عبدلصمد اور سہیل بلوچ کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا ۔ 9مئی کو سربندر گوار سے چھ افراد سمیر ، بلال، در محمد ، امیر اسلم، نظام قیوم اور امان کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا ، اسی طرح ڈیرہ بگٹی سے چھ افراد جس میں ظہور، دلاور، احمد علی، نواز علی، خالق گل اور زاہد بگٹی کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا جبکہ پنجگور چتکان سے زاہد حسین کو جبری گمشدگی کا نشانا بنایا گیا ۔ 11مئی کو آبسر تربت سے حیات بلوچ ولد جمہ کو جبری گمشدگی کا نشانا بنایا گیا۔12مئی کو آدم سومار کو کیچ کے علاقے جوسک سے جبری گمشدہ کیا گیا ۔13 مئی کو سربندر گوادر سے ماہی گیر محسن بلوچ اور طالب علم نیاز بلوچ کو جبری گمشدگی کا نشانا بنایا گیا اور کیچ کے علاقے ہوشاپ سے خاطر نوکاپ کو جبری طو پر گمشدہ کیا گیا ۔14مئی کو ڈیرہ بگٹی سے سات افراد دوست علی بگٹی ، بالاچ بگٹی، دلشاد بگٹی، یاسین بگٹی ، صالح بگٹی ، یوسف بگٹی اور یاسین غلام مصطفی بگٹی کو جبری طور پر گمشدہ کیا گیا۔15مئی کو کیچ کے علاقے میری بگ سے اقبال اللہ داد ک جبری گمشدگی کا نشانا بنایاگیا ۔ 17مئی کو دس افراد اعجاز احمد ، محمد صالح ، عبدالرحیم ، وسیم حسن، امتیاز اقبال، صغیر سجاد کیچ کے علاقوں سے ، کامران بلوچ اور سنگت ثنا ء کچی کے علاقے سے، عبدالاللہ آواران سے اور رسول بخش ماری پوری کراچی سے جبری طور پر گمشدہ کیے گئے ہیں ۔ 20مئی کو ڈیرہ بگٹی سے تین افراد عبدالحق بگٹی، عبدالکریم بگٹی اور گلشیر بگٹی کو سوئی ڈیرہ بگٹی سے جبری طور پر گمشدہ کیا گیا ۔ 22مئی کو محمد وحید اور نصرت بلوچ کو ان کے ڈیزل کے ڈپو سے جبری گمشدگی کا نشانا بنایا گیا۔23مئی کو گوادر سے طارق ولد مراد جان اور حکیم ولد مجید کو کلانچ گواد ر سے جبری گمشدگی کا نشانا بنایا گیا ۔ 25مئی کو ڈیرہ مراد جمالی نصیر آباد سے دو افراد یا رمحمد بلوچ اور اختر بلوچ کو جبری گمشدگی کا نشانا بنایا گیا ہے ۔ 26مئی کی رات کو تربت زیارت کے علاقے سے فیصل صوالی اور رفیق صوالی کو جبری گمشدگی کا نشانا بنایا گیا ۔ 27اور 28مئی کے درمیان 14افرادفاروق داد، شہیک کہور اور وزیر احمد کو کوئٹہ سے، ستار اعجاز اور احسان کو ڈیرہ بگٹی سے ، عزیر احمد ، نعمت اور مجید بلوچ کو کیچ دشت سے،ایک خاتون ناز بی بی اور امیر بخش کو مشکے آواران سے ، صاحب خان اور نور احمد کو نوشکی سے جبری گمشدگی کا نشانا بنایا گیا ۔جبکہ ابھی تک مئی کو مہینہ پورا نہیں ہوا ہے، آج تیس اور کل اکتیس کو معلوم نہیں مزیدکتنے بلوچ جبری گمشدگی کا نشانہ بنائے جائے گے ۔ ہم اس بات کو مکمل ثبوت اور ڈیٹا کے ساتھ کہتے ہیں کہ بلوچستان اس وقت پوری دنیا میں جبری گمشدگیوں کے حوالے سے نمبر ایک پر ہے اور بدترین خطہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ بلوچستان میں مئی کےمہینے میں متعدد افراد ماروائے عدالت قتل کیے گئے ہیں ۔ جس میں3مئی کو خضدار سٹی میں خضدار پریس کلب کے صدر صدیق مینگل کو بمب حملے میں قتل کیا گیا ۔ 6مئی کو پاکستانی فوج نے چاغی کے سرحدی علاقے میں ایک نوجوان بلوچ ڈرائیور طہٰ شاہ نوازئی ولد رحیم کو براہراست سر پر گولی مار کر قتل کردیا ۔14مئی کو خضدار میں قبائلی شخصیت مولانا عبدالحکیم مینگل کو ٹارگیٹ کلنگ کے ذریعے قتل کیا گیا ۔ 17مئی کو پنجگور سے لاپتہ شخص ارسلان اولد اسلام کی لاش واشک سے برآمد ہوئی ۔ 27مئی کو ڈیرہ مراد جمالی سے پاکستانی فوج کے ہاتھوں جبری گمشدگی کا شکار یار محمد ولد جلال کی مسخ شدہ لاش چھتر کی علاقے سے برآمد ہوئی ۔28مئی کو ماشکیل باڈر میں ایرانی فورسز نے بلوچ ڈرائیوروں پر فائرنگ کیا جس سے تین بلوچ اصغر ساسولی ولد محمد اکبر ساسولی، شکراللہ ولد قادر بخش اور عبدالواسع ولد ملا سلیمان کو قتل کیا گیا جبکہ چھ ڈرائیور زخمی ہوئے ، دو کو گرفتار کرکے اپنے ساتھ لئے گئے اور ایک لاش کو بھی اپنے ساتھ لئے گے۔ 29مئی کو نوشکی میں بالاچ بلوچ نامی جونوان کو ٹارگیٹ کلنگ کے ذریعے قتل کیا گیا اس سے قبل بالاچ کو جبری طور پر گمشدہ بھی کیا گیا تھا ۔

وی وائی سی رہنماؤں نے کہا کہ کل 29مئی کو تربت سے کوئٹہ آتے ہوئے واشک کے مقام پر ایک مسافر بس کی ایکسیڈنٹ کی صورت میں 28لوگ قتل ہوئے اور ایک میڈیا ادارے کی رپورٹ کے مطابق رواں سال جنوری سے اب تک بلوچستان میں سات ہزار سے زاہد روڈ ایکسیڈنٹ کے حادثات ہوچکے ہیں ، ان حادثات میں نو ہزار سے زاہد افراد زخمی اور 187قتل ہوچکے ہیں ۔ہم سمجھتے ہیں کہ یہ روڈ حادثات باقاعدہ بلوچ نسل کشی کا حصہ ہے کیونکہ ریاست کو بلوچستان کے وسائل عزیز ہے اور بلوچستان کے وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہا ہے لیکن بلوچستان میں نہ ڈبل روڈ تعمیر کرسکتا ہے اور نہ ہی ٹریفک اور ٹرانسپورٹ کے بہتر نظام بناسکتا ہے اور گزشتہ کئی سالوں میں ہزاروں افراد روڈ حادثات کے سبب قتل ہوئے اور ان روڈ حادثات کے خلاف مسلسل احتجاج بھی کیا گیا ، آواز بھی اٹھائی گئی لیکن ریاست اس مسئلے پر ٹس سے مس بھی نہیں ہورہی ہے ، ایسا لگتا ہے کہ ریاست اس مسئلے کو دانستہ طور پر نظر انداز کررہا ہے ، اگر وہی ریاست پنجاب کے ہر ڈسڑکٹ میں موٹر وے بناسکتی ہے لیکن بلوچستان میں ڈبل روڈ بھی نہیں سکتی ہے تو ہم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہے کہ یہ حادثا ت نہیں قتل ہیں اور ان قتل کے پیچھے ریاست کا براہراست ہاتھ ہے ۔ جبکہ اسی طرح ڈیرہ غازی خان میں صرف رواں سال متعدد افراد کینسر کی وجہ سے ہلاک ہوچکے ہیں ، نہ کینسر کے مریضوں کے ٹیسٹ سینٹر بنائے گئے اور نہ ہی ہسپتال ، ڈیرہ غازی خان میں کینسر کے مریض گھروں میں تڑپ تڑپ کر مررہے ہیں ۔

انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کارکنان اور ہمدردوں کو بلوچ نسل کشی کے خلاف ہونے والے لانگ مارچ اور احتجاجی مظاہروں کے شرکت کرنے کے پاداش میں پاکستان کے افواج فرنٹیئر کور (ایف سی )، آرمی اور خفیہ ادارے اپنے دفاتر میں طلب کرکے دھمکیاں دے رہے ہیں اور تشدد کا نشانہ بنارہے ہیں ۔ اس طرح کے واقعات بلخصوص کوہلو ، مشکے ، دالبندین ، آواران ، کیچ، پنجگور اور کراچی میں پیش آرہے ہیں ۔ ایف سی اور آرمی کے کیمپوں میں لوگوں کو بلا کر سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جاتی ہے اور گھر والوں کو نقصان پہنچانے کی بھی دھمکیاں دی جاتی ہے اور یہ سلسلہ تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ کسی بھی علاقے میں احتجاج یا سیاسی سرگرمیاں سرانجام دیے جائے اس کے بعد ایف سی اور آرمی کے کیمپوں سے کال آنا شروع ہوجاتے ہیں ۔ ہم ریاست کے تمام اداروں پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اب عوام کے اندر سے خوف ختم ہوچکا ہے اور عوام آپ کے بربریت اور جبر سے تنگ آچکا ہے اس لیے اب لوگوں کو کیمپوں میں بلاکر ڈرانے اور دھمکانے سے کچھ نہیں ہوگا اور ہم لوگوں کو کیمپوں میں بلانے کے خلاف کسی بھی صورت خاموش نہیں رہے گے ۔اب آج کے بعد کسی بلوچ کو کیمپ میں بلایا جائے گا ہم اس عمل کو میڈیا میں لائے گےاور اس کے خلاف احتجاج کریں گے اور اس پریس کانفرنس کے توسط سے بلوچ عوام کو بھی پیغام دیتے ہیں کسی بھی حوالے سے آپ کو ایف سی کیمپ جانے کی ضرورت نہیں ہے، یہ عمل از خود پاکستان کے آئین و قانون کے خلاف عمل ہے اور انسانی آزادی کی بدترین خلاف ورزی ہے ، چاہیے آپ کا تعلق کسی شعبہ یا طبقے سے ہو اگر آپ کو دھمکی دیکر کیمپ میں آنے کے لیے کہا جائےتو آپ فوراً بلوچ یکجہتی کمیٹی کے دوستوں سے رابطہ کریں اور اس مسئلے کو میڈیا میں لائے ، بلوچ یکجہتی کمیٹی ہر طرح کے مشکل حالات میں آپ کے ساتھ کھڑا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ بلوچستان میں ماہی گیروں ، مزدوروں کسانوں پر شدید معاشی قدغن عائد ہے ۔ کراچی کے علاقے بنگلو سے لیکر گوادر کے علاقے گنز تک بحر بلوچ میں بلوچ ماہی گیر شدید معاشی استحصال کا سامنا کررہے ہیں اور گوادر میں میگاپروجیکٹ اور سیکورٹی کے نام پر ماہی گیروں کو مسلسل تنگ کرکے سمندر میں جانے سے روک دیا جاتا ہے، تشدد کا نشانہ بنایا جاتا اور ان کی تذلیل کی جاتی ہے اور جب سمندر میں جاتے ہیں تو ریاست کے پشت پناہی پر چلنے والے ٹرالے بلوچ ماہی گیروں پر تشدد کرتے ہیں ۔جبکہ بلوچستان میں روزگار کے دیگر ذرائع نہ ہونے کے سبب بلوچستان کے مزدور ڈرائیوری کرکے باڈر میں گاڑیاں چلاتے ہیں لیکن ریاست کو بلوچ کی مزدوری بھی برداشت نہیں ہوتی ہے ۔ ایک جانب ریاستی فوج بلوچ ڈرائیوروں سے ہر دن ہر ایک ٹرپ میں ہزاروں روپے کی مد میں بھتہ طلب کرتی ہے جبکہ بھتہ لینے کے بعد آئے روز بلوچ ڈرائیوروں کو تشدد کیا جاتا ہے ، ان کی تذلیل کی جاتی ہے،گاڑیوں کے انجن میں مٹی ڈالا جاتا ہے، ان کے تپتی ریت میں ننگے پاوٴں چھوڑ دیا جاتا ہے اور متعدد دفعہ ان پر براہراست فائرنگ کیا جا تا ہے جس کے سبب اب تک درجنوں ڈرائیور اپنے جان کی بازی ہار چکے ہیں ۔ اسی طرح نصیر آباد ریجن سمیت پورے بلوچستان میں بلوچ کسان بدترین استحصال کا سامنا کررہے ہیں ، نصیر آباد ریجن ریجن بلوچ کسانوں کو مختلف بہانے تنگ کیا جاتا ہے اور ان کی شدید معاشی استحصال کیا جارہا ہے ۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی رہنماؤں نے کہا کہ ہم اس پریس کانفرنس کے توسط سے اعلان کرتے ہیں کہ ہم بلوچستان میں ریاستی مظالم کے خلاف کسی بھی صورت خاموش نہیں رہے گے ، جس طرح ریاستی بربریت میں تیزی آرہی ہے ہم ان مظالم کے خلاف اپنے جدوجہد میں بھی تیزی لائے گے ۔بلوچ یکجہتی کمیٹی جولائی کے مہینے میں بلوچ نسل کشی کے خلاف ایک تاریخی قومی اجتماع کا انعقاد کرے گی جس میں پورے بلوچستان سے مارچ کی صورت میں بلوچ عوام کو ایک مرکزی مقام پر جمع کرکے ایک بہت بڑی قومی اجتماع کیا جائے گا ۔بلوچستان بھر میں موجود بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کارکنان ، ہمدرد اور بلوچ قوم بھر پور طریقے سے قومی اجتماع کی تیاری شروع کریں ۔ قومی اجتماع کی تاریخ، مقام اور طریقے کار کو بعد میں میڈیا کے ذریعے اعلان کیا جائے گا۔ بلوچ قومی اجتماع ، بلوچ یکجہتی کمیٹی کی بلوچ نسل کشی کے خلاف تحریک کا حصہ ہے۔

جبکہ ہم اس پریس کانفرنس کے توسط سے ریاست پر بھی واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہم ریاستی جبر ، دھمکیاں اور تشدد سے کسی بھی صورت خاموش نہیں رہے گے ، ریاستی جبر کے خلاف ہم مزید شدت سے ابھرے گے اور بلوچ عوام کو بھرپور انداز سے منظم کرکے مزاحمتی جدوجہد کے میدان میں اتارا جائے گا۔