بلوچستان اور جنگ
تحریر: مہروش بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
یہ سچ ہے کہ جب کسی فرد یا قوم کو اسکی بنیادی حقوق میسر نہ ہوں تو پھر وہ قوم کے لئے مزاحمتی راستہ اپنائے گا۔ اسی طرح میں نے ظلم اور جبر بلوچستان میں دیکھا اور سنا بھی ہے۔ میں اسلئے ضرور کچھ کہنا چاہتا ہوں کہ میں ایک بلوچ ہوں جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے تب سے بلوچستان کے ہر کونے سے ظلم دیکھی ہے اور میں جب بھی کسی جگہ جاتی تھی مجھے بس یہ سُننے کو ملتی تھی کہ بلوچستان ایک مظلوم قوم ہے اگر میں کہوں کہ بلوچستان ایک مظلوم قوم ہرگز نہیں ہے کیونکہ میرے خیال سے مظلوم قوم وہ ہے جہاں رہنے والے اندھے،بہرے اور گونگے ہوں لیکن بلوچستان کے اندر رہنے والے اندھے،بہرے اور گونگوں کے بجائے جوانمردی سے لڑ رہے ہیں۔ بے شک ریاست بلوچستان کو دنیا کے سامنے مظلوم پیش کررہی ہے اور بلوچستان کے ساتھ وہ ظلم ہورہا ہے شاید میں اُس ظلم کو بیان نہ کر پاؤں اور ریاست کے لوگ یہ کہتے ہیں کہ بلوچستان میں ہم امن چاہتے ہیں اور ریاست کا امن یہ ہے کہ بلوچستان کے اندر بلوچ بھائیوں کو اُن کے ماؤں اور بہنوں کے سامنے اٹھاکر زندانوں میں بند کر کے دہشتگرد کا نام دیا جاتا ہے اور پھر ان کی لاشیں ماؤں اور بہنوں کے سامنے پھینکتے ہیں۔
بلوچ بھائیوں کو ٹارچر سیل میں پندرہ پندرہ سال مقید رکھتے ہے ۔ جب بلوچ قوم ان جبری گمشدگیوں کیلئے آواز اٹھاتے ہیں تو پھر یہی لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں ان کا پتا نہیں کہ وہ کہاں ہیں ۔ یہ وہ بلوچ بھائی ہیں جنہوں نے بلوچستان کے حق کیلۓ بات کی ہے اس لئے وہ زندانوں میں ہیں۔
بانُک کریمہ بلوچ جیسی سیاسی لیڈر جو بیرون ملک بیٹھ کر بلوچستان کے ظلم کے خلاف آواز اٹھاتی ہے تو اُسے کینیڈا کے اندر اٹھا کر لاش پھینک دیتے ہیں اور اسی بلوچ نسل کشی کے پالیسی کو آگے بڑھاتے ہوئے گوادر کو غیروں کے ہاتھ دے کر کہتے ہیں کہ بلوچستان میں ترقی لائیں گے ۔ اسی پیک کے نام پر ہمارے ہزاروں نوجوان مارے جا رہے ہیں آج میں ریاست سے سوال کرتی ہوں کہ یہ ہے بلوچستان میں امن؟ اور یہ ہے بلوچستان کی ترقی؟ میں کہتی ہوں کہ ہمیں آپ سے نہ ترقی چاہیے اور نہ ہی امن ہمیں بس اپنا مادرِ وطن چاہیے۔
جہاں پہ صرف اور صرف بلوچستان ہو میں جتنا بھی بلوچستان کیلئے لکھوں شاید وہ الفاظ بہت کم ہوں گے میں اُن عظیم لوگوں کیلۓ لکھنا چاہوں گی جو بلوچستان کیلئے لڑ رہے ہیں اور اپنی جان کی پروا نہ کرکے قربان ہو رہے ہیں۔ بلوچستان میں تین طریقے کی جنگ ہو رہی ہیں دو جنگیں جو لڑی جارہی ہیں وہ بلوچستان کی دفاع کیلئے( سیاسی اور عسکری ) اور ایک جنگ بس لوگ اپنی مفاد کیلئے دنیا میں لڑ رہے ہیں۔ اُس جنگ کے لوگ ریاست کے اسمبلیوں میں بیٹھ کر یہ کہتے ہیں کہ ہمیں بلوچستان کیلۓ ٪20 چاہیے میں حیران ہوں کہ یہ ہمارا بلوچستان ہے اور ہم بلوچ صرف ان کے وارث ہیں اور بلوچستان کا ہر وہ چیز ہمارا ہے جو ہمارے بلوچستان میں موجود ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ پورا بلوچستان ہمارا ہے پھر میں اس ریاست سے کیوں اپنی ہی چیز کا بھیک مانگوں، جو ہمارا ہے پھر ہم اُس کو بھیک کے بجائے چھینیں۔
آج ہمارے بلوچ بھائی مسلح جد وجہد کرکے ہمارے بلوچستان کے حق کیلئے لڑرہے ہیں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جو لوگ پہاڑوں میں رہ رہے ہیں وہ ہمارے لۓ کیا کر رہے ہیں؟ میں کہتی ہوں جا کر اُن کے آنکھوں میں دیکھو کہ ہمارے لئے کیا کر رہے ہیں ۔
جب ایک انسان اپنی جان قربان کرنے کی پروا نہیں کرتے اور وہ انسان جو دشمن کے سامنے بیٹھ کر لڑتا ہے جب اُس کی بندوق میں آخری گولی اور جس میں اُس کی موت لکھی ہے ذرا سوچو وہ منظر کیسا ہو گا جب وہ انسان بندوق کو اپنے سر پر رکھ کر آخری سانس جی رہا ہوتا ہے. شاید میں اُس وقت کو بیان نہ کر پاؤں کہ وہ وقت اُس کیلئے قیامت سے کم نہ ہوگا۔ یہ وہ وقت ہو گا جو اُس کو اپنی بچپن سے لیکر اپنی جوانی کی یاد آئیگی اور انہیں گزرا ہوا ہر پل یاد آئے گا اور اُس وقت اُس کے دل میں کیا گزر رہا ہوگا کہ لیکن وہ ان سب کے باوجود اپنی قربانی دے رہے اور دینگے ۔ ریاست کہتا ہے کہ یہ دہشتگرد ہیں میں یہ کہتی ہوں کہ یہ دہشتگرد نہیں ہیں یہی ہیں اصلی گوریلہ جنگجو اور یہی ہیں بلوچستان کے ہیرو اور مجھے یقین ہے کہ میرے بلوچ بھائی ایسے ہی جنگ لڑتے رہیں گے اور ضرور اپنی راہ میں کامیاب ہوں گے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔