امریکی جامعات میں فلسطینیوں کے حق میں احتجاج، گرفتاریوں کی تعداد 2100 سے تجاوز

56

امریکہ کے تعلیمی اداروں میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے کرنے والے طلبہ کی گرفتاریوں کی تعداد 2100 سے تجاوز کر گئی ہے۔

خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ نے یہ اعداد و شمار دیتے ہوئے رپورٹ کیا ہے کہ 18 اپریل کے بعد سے امریکہ کے 40 مختلف کالجوں یا یونیورسٹیوں میں گرفتاریوں کے کم از کم 50 واقعات ہوئے ہیں۔

تازہ ترین پولیس کارروائیوں میں مظاہروں کے گڑھ نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی سے 100 گرفتاریاں ہوئیں۔ اسی طرح ریاست کیلی فورنیا کے شہر لاس اینجلس کی کیلی فورنیا یونیورسٹی میں پولیس نے جعمرات کو کارروائی کرتے ہوئے 210 افراد کو گرفتار کیا ہے۔

پولیس نے مظاہرین کو یونیورسٹی خالی کرنے کی ہدایت کی تھی۔ تاہم مظاہرین نے پولیس کی ہدایات کو نظر انداز کر دیا تھا۔

واضح رہے کہ نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی امریکہ کی وہ پہلی درس گاہ ہے جہاں فلسطینیوں کے حق میں طالب علموں کے مظاہرے شروع ہوئے تھے اور اب یہ سلسلہ ملک کی بہت سی یونیورسٹیوں تک پھیل چکا ہے۔

امریکی جامعات میں خیمہ زن مظاہرین غزہ جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ طلبہ کے مطالبات میں یونیورسٹیوں کے اسرائیل سے مالی تعلقات کا خاتمہ، مالی معاملات میں شفافیت اور احتجاج کرنے والے طلبہ و اساتذہ کے لیے عام معافی بھی شامل ہے۔

اے پی’ کے مطابق جامعات میں ہنگاموں سے نمٹنے والے ساز و سامان سے لیس پولیس نے مختلف کییمپسوں میں ٹیکٹیکل گاڑیوں اور فلیش بینگ ڈیوائسز کا بعض اوقات استعمال بھی کیا اور مقبوضہ عمارتوں کو خالی کرالیا۔

نیویارک پولیس نے انکشاف کیا ہے کہ جمعرات کو کولمبیا یونیورسٹی کی عمارت کے اندر ایک افسر سے غلطی سے گولی بھی چلی۔

حکام کے بقول گولی چلنے کا واقعہ کولمبیا کیمپس کے ہیملٹن ہال میں اس وقت پیش آیا جب پولیس افسر اپنی بندوق کے ساتھ لگی ٹارچ کو استعمال کرنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن اس کے بجائے اس سے گولی چل گئی جو دیوار پر لگے ایک فریم سے ٹکرائی۔

حکام نے بتایا کہ گولی چلنے کے وقت اس موقع پر دیگر پولیس اہلکار موجود تھے۔ البتہ ڈسٹرکٹ اٹارنی کا دفتر اس واقعے کا جائزہ لے رہا ہے۔

پولیس کو بلانے پر یونیورسٹی انتظامیہ پر تنقید

طلبہ کے احتجاج سے نمٹنے کے لیے پولیس کو بلانے کے فیصلے پر یونیورسٹیوں کی انتظامیہ کو تنقید کا سامنا ہے۔

دوسری جانب اسرائیل نے مظاہروں کو یہود دشمنی قرار دیا ہے جب کہ اسرائیل کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اسرائیل اپنے خلاف الزامات کو خاموش کرنے کے لیے ان الزامات کو استعمال کرتا ہے۔

احتجاج کے منتظمین میں کچھ یہودی طلبہ بھی شامل ہیں جو احتجاج کو فلسطینیوں کے حقوق کے دفاع اور جنگ کے خلاف احتجاج کے لیے ایک پرامن تحریک قرار دیتے ہیں۔

دوسری جانب صدر جو بائیڈن نے جمعرات کو طلبہ کے پرامن احتجاج کے حق کا دفاع کیا لیکن ساتھ ہی انہوں نے ہنگامہ آرائی کی مذمت بھی کی۔

امریکہ کی مختلف جامعات میں طلبہ کے احتجاج کے بعد حکومت پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔

دوسری جانب غزہ جنگ بندی کے لیے کوششیں جاری ہیں اور فریقین کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے لیے تجاویز کا تبادلہ بھی ہو چکا ہے۔

واضح رہے کہ فلسطینی عسکری تنظیم حماس کی جانب سے گزشتہ برس سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملے کے بعد سے شروع ہونے والی جنگ میں غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق اب تک 34 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔

حماس کے اسرائیل پر حملے میں 1,200 افراد ہلاک اور لگ بھگ 250 کو یرغمال بنایا گیا تھا۔