پانچ گھنٹوں کی یادیں ۔ دیدگ بلوچ

657

پانچ گھنٹوں کی یادیں
تحریر: دیدگ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

پچھلے تین گھنٹوں سے وہ اپنے تین ساتھیوں کے ہمراہ دشمن کے گھیرے میں تھا ……. وہ مُخابرے پر برائے راست اپنے کمانڈر سے با آواز بلند ہمکلام تھا …… کمانڈر دشمن کی تعداد زیادہ ہے ہمارے پاس اتنی ایمونیشن نہیں کہ آڑ لے کر حملے کو طول دیں اور اندھیرا ہوتے ہی گھیرا توڑ سکیں۔ ہمیں اسی وقت ہی کچھ نہ کچھ کرنا ہے اور وہ یہ کہ حسب ضرورت گولی چلا کے آگے بڑھتے رہیں۔
“سنگت اَخس کہ زُوت مَریک دشمن نا افیکٹو رینج آن کشبو تینے تاکہ نم ولا آسانی اٹ اُوتے مَات تننگ کِیرے”
سنگت جتنا جلدی ممکن ہو دشمن کے افیکٹو رینج سے نکالو خود کو پھر تم جلد ہی باآسانی انہیں شکست دے سکو گے ۔
کمانڈر صورتحال سمجھتے ہی انہیں ہدایت دی ۔

دوران ٹریننگ کمانڈر کے دیئے ہوئے احکامات اس وقت اس کے کانوں میں گونج رہے تھے ۔
“فائر پر سب سے زیادہ اثر رکھنے والی چیز ہوا ہے ۔
اونچاٸی اور نشیب میں فاٸر کرتے وقت کسی بھی ہتھیار کا کارگر(افیکٹو) رینج بڑھ جایا کرتی ہے لیکن یہ حساب ایک گوریلا سپاہی کا طریقہ کار ہے اور یہ حساب ایک کلیے کے تحت کیا جاتا ہے عام آدمی اس سے ناواقف ہوتا ہے۔
داٸیں ہاتھ سے فاٸر کرنے والے فاٸرر کے لیۓ کسی بھی آڑ کی داٸیں طرف کا استعمال ہی مناسب رہتا ہے ، کیونکہ آڑ کی باٸیں جانب کا استعمال کرنے کی صورت میں اُس کا زیادہ جسم دشمن کو نظر آسکتا ہے” ۔

وہ آڑ لے کر اپنے ساتھی کا ٹوپی مانگ کر کلاشن کوف کے بیرل کے ساتھ جیسے ہی آڑ سے ٹوپی کو نکالنے کی کوشش کرتا ہے ٹھیک اسی وقت ایک گولی “شوووں” کرکے ٹوپی سے تین چار انچ کے فیصلے سے گزر جاتا ہے ۔
ڈریگنوو سنائپر ….. وہ پھر اپنے کمانڈر کو صورتحال سے آگا کرتے ہوتے کہتا ہے . ڈریگنوو سنائپر روسی ساختہ سیمی آٹومیٹک رائفل ہے حالانکہ عمومی طور پر سنائپر رایفلز بولٹ ایکشن ہوتے ہیں ، مطلب ہر دفعہ فائر کے بعد رائفل کو کاک کرنا پڑتا ہے ۔ اس کی رینج ہزار میٹر ہے اور میگزین میں دس گولیاں ڈلتا ہے ، اس کا بلٹ سٹائر سنائپر جتنا ہی ہوتا ہے مطلب 17.62 ایم ایم ۔

اس کا مطلب وہ ایک ناتجربہ کار سنائپر ہے لیکن …. وہ اپنے کمانڈر کی بات کو درمیان میں کاٹتے ہو کہتا ہے کاش یہ رائفل اس وقت صرف اور صرف دس اضافی راٶنڈز کے ساتھ میرے پاس ہوتا اور دشمن یوں مجھے گھیر لیا ہوتا …. سنگت آپ پھر سے یہی عمل دہرا دو ۔ جیسے ہی گولی گزرے تین سیکنڈ کے اندر ہی چھلانگ مار کے دوسری آڑ لو اور جیسے ہی وہ دوسرے ہتھیاروں سے آپ پر فائر کھول دے تو باقی سنگت انہیں ٹارگٹ کرے …. پھر سے مخابرے پر کمانڈر کی آواز گونجنے لگتی ہے .

جب وہ یہ عمل پھر سے دہراتا ہے تو سنائپر کی ایک گولی پھر سے دس انچ کے فاصلے سے گزرجاتا ہے اور وہ اپنے ساتھیوں کو پچھلے آڑ میں چھوڑ کے ایک دم چھلانگ مار کے دوسرا آڑ لے لیتا ہے ۔ آڑ لیتے ہی وہ اپنے جانبازوں کی جانب سے دو بار “ٹک ٹک” کی آواز سن کے سمجھ جاتا ہے کہ دشمن کے دو سپاہی اس دنیا کے پریشانی سے آزاد ہوچکے ہونگے ، چند سیکنڈز کی خاموشی کے بعد پھرسے اچانک کلاشن کوف کی تھرتھراہٹ اس کے دوستوں کو مزید پریشان کرتا ہے کہ مخالف طرف سے ایک نے کلاشن کوف کی بیرل آڑ کی طرف کرکے ٹریگر سے اس وقت تک انگلی نہیں ہٹائی جب تک پوری میگزین خالی نہ ہوا ہو …. پہلے آڑ سے ایک سنگت اپنے ساتھی کو سلامت دیکھ کر کچھ مطمئن دکھتا ہے ۔

میرو تم لوگ فلحال ادھر ہی کو سنبھال لو … میرو “ٹھیک ہے” کہہ کر جھکے جھکے انداز میں واپس پھتر کی آڑ لیتے ہوۓ ایک ایک گولی دشمن کی طرف فائر کرتا رہا ۔ اچانک شہیک کو سفید لباس کی جھلک نظر آئی .. وہ اپنی سشت اسی پر مرکوز کردی ۔ وہ اپنا سر باہر نکال کر جھانکتا اور پھر سر چھپا لیتا ۔ دوسری بار اس نے سر باہر نکال کر دیکھنے ہی لگا تھا لیکن شہیک کے کلاشن کوف کی ظالم گولی نے اسے واپس لےجانے کا موقع نہیں دیا تھا …… اسی وقت ایک ساتھ کئی کلاشن کوفیں گرجنے لگیں۔

اچانک ایک شخص چیخ کر کہنے لگتا ہے “تمہارے لیئے بہتر ہے کہ خود کو ہمارے حوالے کردو …. ورنہ اس وقت تم لوگوں کو ہمارے پچاس آدمیوں نے گھیرے میں لیا ہوا ہے ۔
پچاس میں سے چھ نکال لو …..کمانڈر شیہک انہیں غصہ دینے کے لیئے پکارتا ہے …..مرنے والوں میں چھ شامل ہے یا وہ کم کرکے بتارہے ہو …… اس نے دشمن کو سلگانے کی کامیاب کوشش کی ۔
تم ……. اب وہ گالیاں بکنے لگا ۔
دشمن کی لغویات ختم ہوتے ہی وہ اپنے دشمن کو مزید غصہ دلانے کی کوشش کرتا ہے ۔
تم لوگ دیکھنا ہم تمہارے ساتھ کیا کرتے ہیں …. اس نے پھر سے بکواس شروع کی اور شہیک چاہتا ہی یہی تھا کہ انہیں اتنا غصہ دلادوں کہ وہ بہتر کچھ کرنے کے قابل ہی نہ رہے ۔

جلدی سے قصہ ختم کرو حرام خورو پچاس آدمی ہو اور تم لوگ دو آدمی قابو نہیں کرسکتے لعنت ہو تم لوگوں پہ ….. گویا وہ انہیں اس وقت تک دو آدمی ہی سمجھ رہے تھے اور یہ بات ان کے حق میں ہی تھا ۔ انہیں سربراہ کا حکم ملتے ہی ان کی حرکت میں تیزی آگئی اور شہیک اس کے دو ساتھیوں کو بھی گولی چلانے کا زیادہ موقع ملنے لگا ۔ شہیک نے جب پانچ بار لبلبی دبایا تو کلاشن کوف سے “ٹرنچ” کی آواز آئی ، اس کا صاف مطلب تھا کہ یہ اس کے بندوق کی آخری گولی تھی …. وہ مخصوص انداز سے میرو کو اشارہ کرکے صورتحال سے آگاہ کیا ….. “دا اَرف آخری میگزین ئے مونی امر مرو ” ۔
شیہک میرو کی طرف سے پھینکی ہوئی میگزین اٹھا کے کلاشن کوف کو کاک کرنے کے بعد مخابرے پہ کمانڈر کو صورتحال سے آگا کرتا ہے ۔

شہیک مخالف طرف سے مسلسل خاموشی اور موجودہ صورتحال کو دیکھ کر میرو اور وسیم کو پیچھے بھاگنے کا اشارہ کرتا ہے ……. اشارہ ملتے میرو اور وسیم بجلی کی پھرتی سے کئی میٹر دور نکل جاتے ہیں ۔۔۔۔۔پھر میرو اور وسیم کَور لے کر شیہک کو نکلنے کا اشارہ کرتے ہیں لیکن اسی دوران دشمن کی طرف سے فائر کی ہوئی گولی شیہک کے اوپر سے گزر کر میرو کے کندھے میں پیوست ہوتا ہے ۔

تم اپنے بدن کے جس حصے کو حرکت دوگے وہ عضو تمہارے بدن کا حصہ نہیں رہے گا اگر شک ہے تو اپنا ایک ہاتھ پتھر کی آڑ سے نکال کر دکھاٶ …. شیہک میرو کے کندھے سے خون بہتے دیکھ کر اپنی شست اسی پتھر پر برقرار رکھتے ہوئے دشمن کو للکارنے لگتا ۔ اسی وقت میرو کو زخمی کرنے والا شخص جُھکے جُھکے انداز میں اُس طرف جانے کی کوشش کی جہاں ان کا سربراہ تھا ….. یقینا وہ اپنے سربراہ کی مدد کرنے جارہا تھا ۔ وہ بمشکل اپنے سربراہ تک پہنچ سکا تھا کہ شیہک نے ٹریگر پریس کردیا اور چار سو گز کے فاصلے پر ایک سرمچار کی کلاشن کوف کی گولی ضائع ہوجانا ….. سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔

“میرو کے کندھے پہ ایک گولی لگی ہے اور بدقسمتی سے جسم سے پار نہیں ہوا گوشت کے اندر ہی ہے ” شیہک منہ پہ مایوسی سجائے مخابرے پہ اپنے کمانڈر کو صورتحال سے آگاہ کرنے لگا ۔
“جوان ئے سنگت۔۔۔۔۔ دَا نا مطلب کہ نُم داسا دشمن نا کارگر رینج آن مُر اورے ۔۔۔۔۔۔ داسا کوشش کَبو مونی ہِنسہ کبو ۔۔۔۔ اوتا سُم نومے اِسکا سَر مَفک ۔۔۔۔ مَگہ سنگت سنائپر آن احتیاط کیرے” ۔
بہتر سنگت ۔۔۔اس کا مطلب کہ تم لوگ اب دشمن کے افیکٹو رینج سے نکل چکے ہو ۔۔۔۔۔ اب کوشش کرو کہ آگے چلتے جاٶ ۔۔۔۔لیکن سنگت سنائپر سے محتاط رہنا ۔
شیہک کمانڈر سے خوشخبری سننے کے بعد میرو کو کندھا دے کر وسیم کو تیزی سے آگے بڑھنے کا اشارہ کرتا ہے ۔

“سنگت مَھالو تو خَبر تَمتو مگہ داسا کُوپہ کنا مَچٹ اس درد کیک ”
سنگت پہلے تو پتا نہیں چلا لیکن اب تھوڑا کندھا درد کررہا ہے ۔ کمانڈر شیہک کے پوچھنے پر وسیم نے مختصر سی جواب دی اور پھر اپنے خشک لب سیئے .
مَلاس اُٹ ۔۔۔۔۔پیاس لگی ہے ۔۔۔۔۔میرو آہستہ آہستہ بولا ۔

انہیں دور کئی کلاشن کوفوں کی ایک ساتھ تھرتھراہٹ سنائی دینے لگتا ہے ۔ وسیم پریشانی کی عالم میں کمانڈر شیہک کی طرف دیکھتا ہے ۔۔۔شیہک اس کے نظروں سے اس کے زہن میں گردش کرتے خیالات کو سمجھ جاتا ہے ۔

سنگت ان کے یوں فائرنگ کرنے کا ایک ہی مطلب ہے ۔۔۔وہ اب تک یقین نہیں کررہے کہ یہ گھیرہ توڑنے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔ان کا یہی خیال ہے کہ یہ لوگ ابھی تک ادھر ہی کہیں چھپے ہوں گے ۔ اب یہ لوگ ہمیں نہیں دیکھ رہے لیکن واپس جانے میں بھی خطرہ محسوس کر رہے ہوں گے ۔ اس لیئے وہ برسٹ فائر کررہے ہیں ۔

شام سات بجے کے قریب شہیک اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ایک محفوظ مقام تک پہنچنے میں کامیاب ہوتا ہے ۔
” اَمرے طبیعت نا سنگت ” پہنچتے ہی شہیک میرو کو لٹانے کے فورًا بعد اُس کے طبیعت کے حوالے سے اس سے پوچھتا ہے۔۔۔۔۔جواب میں میرو نے بس اتنا کہہ کر آنکھیں موندھ لیں
“سنگت دیر ہت ” شہیک کندھے سے لٹکتی بوتل وسیم کی جانب بڑھا کے پانی لانے کا کہتا ہے ۔ جھڑپ جتنا سخت اور طویل ہو اور پیاس جتنی زور کی لگی ہو محسوس اس وقت ہوتا ہے جب جنگ ختم ہوتا ہے اور خطرہ مکمل طور پر ٹل جاتا ہے ، وسیم شہیک کے ہاتھ سے بوتل لے کر کہتا ہے ۔

کمانڈر شیہک بھی وسیم کے ساتھ ہی وادی کی طرف نکلتا ہے کچھ دیر بعد کمانڈر شیہک خشک لکڑیوں کا گھٹا لے کر ، چھوٹی چھوٹی لکڑیاں ترتیب سے رکھ کر لکڑیوں کو آگ لگادیتا ہے …… چند لمحوں میں ہی آگ کی روشنی کے ساتھ خوشگوار حدت پھیل جاتی ہے ….موسم آگ جلانے والا نہیں لیکن میرو پر طارہ کپکپی دیکھ کر شیہک نے آگ جلانا ضروری سمجھا تھا ۔

گولی بازو کے اندر ہے اور یہ اچھی بات نہیں ہے ، بہرحال تمہیں تھوڑی تکلیف برداشت کرنا پڑے گا ، عام سے لہجے میں کہتے ہوئے شیہک نے اپنا جھولا کھول کر باریک دھار کا چاکو نکال کے درمیانی جسامت کا پتھر آگ کے قریب رکھ کر اس پر چاقو اس طرح رکھتا ہے کہ اس کی دھار آگ کے شعلے چھونے لگیں ۔ کمانڈر شیہک کا ارادہ جانتے ہی میرو کے بدن میں چیونٹیاں رینگنے لگتے ہیں ۔
بس تھوڑی سی ہمت کرلینا …… کمانڈر شیہک یہ کہتے ہوئےمیرو کے قریب بیٹھتا ہے اور کندھے سے بندھی چارد کو کھولنے لگتا ہے …… چادر کھولنے کے بعد زخم کا جائزہ لیتے ہوئے ، کمانڈر شیہک وسیم کو مَگ میں پانی ڈال کے آگ پر گرم کرنے کا کہتا ہے ….. میرو خاموشی سے کمانڈر شیہک کی اس کاروائی کو دیکھ رہا ہوتا ہے اور آنے والے لمحات کا سوچ کر میرو کا دل دھڑک رہا ہوتا ہے ۔

سنگت ہمارے لیئے نہ تو کوئی ہسپتال موجود ہے اور نہ ہی کوئی ماہر ڈاکٹر اور نہ ہی ہم شہر جاکے ہسپتالوں میں اپنا علاج کرواسکتے ہیں ۔ ہم خود ہی ڈاکٹر ہے اور یہ ہمارا ٹھکانہ ہی ہمارا ہسپتال ۔ اگر میں یہ گولی نہیں نکالوں تو زیادہ دیر رہنے کی وجہ ہوسکتا ہے آپ کے بازو کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائے، اور میں ہرگز ایسا ہونے نہیں دے سکتا۔
خود کو کمانڈر شیہک کے رحم و کرم پر چھوڑنے کا فیصلہ کرکے میرو خاموشی سے اس کاروائی کو دیکھتا رہتا ہے ۔ پانی گرم ہوتے ہی شیہک نے میرو کی قمیص کو کندھے سے پھاڑ کر زخم کو بالکل نننگا کرنے کے بعد ایک صاف کپڑا پانی میں بھگو کر زخم کا منہ صاف کرنے لگتا ہے ، گرم پانی کے لگتے ہی زخم سے خون پھر سے رسنے لگتا ہے اور ساتھ ہی درد میں اضافہ ہونے لگتا ہے ۔
“تیار اُس سنگت ؟” تیار ہو سنگت ؟ کمانڈر شیہک کاروائی کرنے سے پہلے میرو سے مخاطب ہو کے کہنے لگتا ہے ۔
میرو بھی آنکھیں بند کرکے اثبات میں سر ہلادیتا ہے ۔

سنگت بالکل بھی گھبرانے کی ضرورت نہیں ، اتنی زیاد تکلیف ہونے نہیں دونگا …. شیہک کی باتیں سن کے میرو کے لبوں پر دل آویز مسکراہٹ ابھری ۔
کپڑے کا ایک ٹکڑا کاٹ کر شیہک نے اس کا ایک گولا سا بنا کر میرو کے منہ میں دیتا ہے تاکہ چیخ روک سکے ۔
وسیم کو ٹارچ پکڑنے کا کہہ کر شیہک نے چاقو آگ سے اٹھا کر اپنے بائیں ہاتھ سے میرو کا کندھا پکڑ کر چاقو کی گرم نوک زخم پر رکھ دیتا ہے اور میرو درد کی شدت سے کانپ جاتا ہے ۔ دانت سختی سے بھینچ کر میرو نے آنکھیں بند کر لی تھیں ۔
شیہک نے ماہرانہ انداز میں چاقو کی نوک زخم کے اندر گھومایا اور کندھے میں موجود بُلٹ کو محسوس کرتے ہی ایک دم مخصوص انداز میں جھٹکا دیتا ہے ۔

میرو میں برداشت کا مادہ کافی مقدار میں موجود تھا لیکن درد کی شدید لہر سے اچھل پڑتے ہی نیم بےہوش ہوجاتا ہے ۔
بس …… بس س س س “سنگت سُم پیشتما ”
گولی نکالتے ہی شیہک میرو کے منہ سے کپڑے کا گولا نکال کر اسے دلاسہ دے کے کہتا ہے ۔
میرو کے چہرے کو دیکھتے ہوئے شیہک پھر سے زخم کی طرف متوجہ ہوتا ہے ۔ زخم کو ایک مرتبہ پھر گرم پانی سے دھو کر نیم کپڑے کی چادر سے لمبی لمبی دو تین پٹیاں پھاڑ کر کَس کے باندھنے لگتا ہے ۔
ان سنگلاخ پہاڑوں میں ہمیں دوائی وغیرہ تو کہیں سے بھی نہیں ملے گا ….. اس لیئے مزید تین چار گھنٹے یہاں آرام کرنے کے بعد ہم نکل جائیں گے ….تاکہ جلد از جلد ہم کیمپ پہنچ جائے ….. مخابرے کی بھی بیٹری زیرو ہوگئی ہے ورنہ کچھ نہ کچھ کمک مل ہی جاتا ……. کیا تم چل سکوگے …… ؟ کمانڈر شیہک یہ کہہ کر میرو کی طرف دیکھنے لگتا ہے ۔

بہت باہمت لڑکا ہے میرو اتنے تکلیف اور درد سہنے کے باوجود اُف تک نہیں کیا ۔۔۔۔۔۔ اگلے دن دوپہر کو کیمپ پہنچتے ہی شیہک کیمپ کمانڈر کو صورتحال سے تفصیلی آگاہی دیتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔ کیمپ کمانڈر میرو کے سرہانے بیٹھ کر ، کچھ دیر میرو کے چہرے پر نظر گھاڑتے ہوئے کہتا ہے ۔ مجھےیقین ہے میرو ایک نہیں دس گولی سہنے کی استطاعت رکھ سکتا ہے لیکن ……لیکن …..لے کن …..کمانڈر شیہک سمیت میرو اور وسیم بھی فکرمندی سے کیمپ کمانڈر کی طرف دیکھنے لگتے ہیں ۔
میں یہ سوچ رہا ہوں میرو گولی لگنے کی درد کو تو بہت آسانی سے سہہ سکتا ہے …… مگر حیران ہو اتنے دن چائے نہ پینے کی وجہ سے سردرد کو کیسے برداشت کیا ہے ۔
کیمپ کمانڈر کی بات سن کے میرو سمیت پورا کیمپ ہنسی سے گونج اٹھتا ہے ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔