جنگ کیا ہے ؟ ۔ فدائی شہید حمل مومن

672

جنگ کیا ہے ؟

 تحریر: فدائی شہید حمل مومن

دی بلوچستان پوسٹ

ویسے جب آپ کبھی بات کرتے ہیں تو بات کرنے کا مقصد کیا ہوتاہے؟ جب آپ کبھی کہیں بیٹھتے ہیں باتیں کرتے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ ان باتوں کا نتیجہ کیا ہوگا اور دوسری طرف جب آپ اسی بات کو عملاً ثابت بھی کرتے ہیں تو باتوں کا نتیجہ کیا ہوگا؟

جنگ کے دوران میں نے یہ دیکھا ہیکہ جنگ کو ہماری عوام اور لوگ صرف ایک لذت،خواہش اور تمنا سجھتے ہیں۔ اور یہ کہتے ہیں کہ جنگ کو اس طرح ہونا چاہیے جنگ کو ویسے ہونا چاہیے جنگ اس طرح کرنا ہے اس طرح صحیح نہیں ہے یہاں اتنے لوگ مرے ہیں یہاں اتنے لوگوں کو مرنا چاہیے تھا، وہاں اس طرح لڑنا چاہیے تھا۔ان تمام باتوں کا بنیادی مقصد یہ ہیکہ ہماری جو عوام یا برائے نام دانشور ہیں انکا یہ خیال ہیکہ جس طرح فلموں میں کوئی چیز دکھ رہا ہے، تو ان کا خیال ہے کہ جنگ کو بھی فلم کی طرح شوٹ کرنا چاہیے اور ان کو دکھانا ہے کہ جنگ اس طرح لڑتے ہیں اور ان دس اور پندرہ منٹ کوجس طرح دیکھتا ہے انکو صرف ایک اندرونی خوشی و لذت محسوس ہوتی ہے اور کوئی خاص تنقیدی نقطہِ نظر سے نہیں دیکھتے ہیں کہ ان دس یا پندرہ منٹ کی لڑائی کو وہ اس طرح نہیں پرکھ سکتے اور کہتے ہیں کہ آپ نے یہاں یہ غلطیاں کی ہیں اور یہ نہیں کہتے کہ جنگ واقعی ایک تباہی کا عمل ہے اور یہ نہیں چاہتا کہ جنگ میں واقعی اہم دماغوں کی ضرورت ہے وہ تو بس یہی چاہتا ہے کہ جنگ ہو۔

جنگ صرف گولیاں چلانے، بندوق اٹھانے اور دشمن کو مارنے کا عمل نہیں ہے۔ در حقیقت جنگ ایک باطنی عمل ہے جب ایک انسان اپنے باطنی جنگ پر قابو پالے تب دنیا کی کسی بھی جنگ سے اس کا سامنا ہو وہ جنگ اس کیلئے کوئی معنی نہیں رکھتا لیکن ہمارے لوگ باطنی جنگ کو کبھی بھی شعوری سانچے میں نہیں ڈھالتے ہیں۔ بلکہ وہ صرف یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ چار نوجوان چار بلوچ کسی پہاڑ پہ بیٹھے ہیں اور لڑرہے ہیں وہ دشمن کو کس طرح مار رہے ہیں اور کن حالات سے گزر رہے ہیں اور وہاں پہاڑوں پہ کیسے حالات و مشکلات سے نبرد آزما ہیں۔ وہ ان چیزوں کے بارے میں کبھی بھی نہیں سوچتے ہیں بس وہ یہ کہتے نہیں تھکتے کہ یہاں اتنے لوگ شہید ہوئے چار گئے اور شہید ہوگئے یہ سب بے فائدہ ہے نہ جنگ کو کوئی فائدہ پہنچا نہ قوم کو کوئی فائدہ ہوا کچھ بھی نہیں ہوا۔

یہ وہ بے بنیاد منطق و دلیل ہیں جو لوگ خود کو زندہ رکھنے کیلئے کرتے ہیں جو کچھ نہیں کرسکتے وہ اس طرح کی من گھڑت باتوں کا سہارا لیتے ہیں ۔ وہ ایسی باتیں سامنے لاتے ہیں۔ میں اگر آج کچھ نہیں کرپا رہا ہوں لیکن جو انسان زیادہ تو نہیں لیکن جتنا بھی کررہا ہے کم کررہا ہے وہ کیوں کررہا ہے۔ اس کو بھی میری طرح ہونا چاہیے چار بینر ، پمفلٹ اور تصویریں ہاتھوں میں ہوں اور یہ نعرہ لگائے کہ “یہ جو غنڈہ گردی ہے، اس کے پیچھے وردی ہے” نہیں چلے گا نہیں چلے گا غنڈہ گردی نہیں چلے گا وہ اسی طرح کے نعروں میں زندہ رہنا چاہتے ہیں۔

آپ ایک آزاد معاشرے میں نہیں بیٹھے ہیں کہ نعرے لگائیں، کسی آزاد ملک میں نہیں بیٹھے ہیں کہ آپ کو آزادیِ رائے کا حق ہو آپ ایک محکوم بلوچ کے ایک ادنیٰ و عام سا بلوچ ہیں اپنی حیثیت نہیں بھولیں۔ غلامی کی حیثیت کو پہچانیں اور دوسرا آپ جس معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں اور پڑھ رہے ہیں ضروری نہیں ہے کہ آپ کا معاشرہ بھی اسی طرح ہو، آپ کا دشمن اسی طرح کا ہو اور ضروری نہیں ہے کہ جو منفی پروپگینڈہ اور بے بنیاد باتیں ہورہی ہیں آپ ان کا حصہ ہوں۔

ہر زمین کی اپنی مختلف طبیعت، حقیقت اور ماحول ہوتا ہے۔ ان کی رسم و رواج ، سوچنے اور پرکھنے کا انداز اور صلاحیت ہوتی ہے،کچھ کی کم اور کچھ کی زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن ہم ان معاملات پر کبھی بھی غور و فکر نہیں کرتے ہیں بلکہ ہم ان چیزوں پر غور کرتے ہیں کہ اگر کوئی جنگ کا حصہ بن جاتا ہے وہ کیوں اُس بندے کے ساتھ رہا ہے وہ کیوں فلاں پلیٹ فارم سے تعلق رکھتا تھا۔ در حقیقت بات یہ ہے کہ دشمن سے زیادہ آپس میں لڑائی ہورہی ہے ۔فلاں لیڈر بن رہا ہے فلاں پارٹی میں لوگ زیادہ ہیں فلاں میں کم ہیں یہ سب آپس میں ٹکراؤ و بعض کی ناکام کوششیں ہیں در اصل یہ دشمن کی نفسیات و سوچ ہے ۔ جو جدوجہد کرتے ہیں وہ یہ نہیں دیکھتے کس پارٹی میں کتنے لوگ ہیں کون زیادہ قربانی دے رہا ہے وہ صرف یہ دیکھتا ہے کہ اگر کوئی قربانی دے رہا ہے اور قربان ہونے کیلئے تیار ہے اور گلرزمین کیلئے سوچ رہا ہے اور خود کو قربان کررہا ہے قربان ہونے کا وہ سماں کیسا ہے جس وقت وہ قربان ہورہا ہے۔ در حقیقت ہماری باتیں اس طرح کی نہیں ہیں ہم اب تک اپنی دائرے میں زندہ ہیں ہاں یہ سچ ہیکہ ہم بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں ہم قومی بقا کو بچانے کیلئے جدوجہد کررہے ہیں ہم نے یہ یہ کام کیے ہیں اور یہ یہ نعرے لگائے ہیں ۔ لیکن ہم یہ نہیں دیکھتے کہ جو قربان ہورہا ہے وہ کس کیلئے ہورہا ہے آج آپ پرسکون و پرآسائش جگہ پر رہ رہے ہیں اگر آپ کے سامنے زمینی حقائق نہیں ہیں اگر ہوں بھی اور آپ ان کو نہیں دیکھ پارہے ہیں۔ چار نوجوان جب نکلتے ہیں اوراپنی زندگی قربان کردیتے ہیں تو قربانی کی کوئی وجہ تو ہے ؟ لیکن آپ اس اسباب کو نہیں ڈھونڈتے ہیں آپ صرف یہ کہتے ہیں یہ نو جوان اس جگہ اس وقت گئے ہیں غلط ہے۔

آیا اپنی زمین کیلئے قربان ہونا اور قہر مچانا غلط ہے؟ اس سوچ کے مالک آپ بھی نہیں ہیں اور آپ بھی ایسا نہیں چاہتے ، لیکن اصل بغض وکینہ یہ نہیں ہے کہ وہ جو چار نوجوان شہید ہوئے بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ فلاں ادارے کی توسط سے ہوئے ہیں میرے پاس کیوں نہیں تھے۔ مسئلہ ہیکہ جب کبھی اس ادارے کا اپنا کارکن ایسا کام سر انجام دیتا ہے تو آپ اس کو اور اس کی عمل کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ شہید سارے برابر ہیں اور ایک جیسے ہیں ان میں فرق و تفریق نہیں ہوسکتا آپ جتنا بھی تفریق کرلیں زمین فرق نہیں کرتا اور ہمارے لوگ یہ تفریق پیدا کرتے ہیں۔ ہمارے لوگ جنگ کے دوران جنگ کیلئے سوچنے سے زیادہ خود کیلئے سوچتے ہیں جب خود کیلئے سوچتے ہیں تو جنگ کیلئے نہیں سوچا جاسکتا جب جنگ کو نہیں سوچیں گے تو ظاہر سی بات ہے پھر احساسِ کمتری ، مایوسی اور ایک دوسرے سے بدظن ہونے کی حالات و کیفیت پیدا ہونگے اور یہ کیفیات بہت دردناک ہیں۔ ایک زمین قوم اور ایک زمین کے باسی کیلئے ، تب جب اس وقت اس کیلئے ضروری یہ ہے کہ وہ جنگ کرے اور اس کو کامیابی کی جانب جانب گامزن کریں اور یہ رسمِ دنیا ہے کہ اگر کوئی کتاب پڑھتا ہے یا کسی آزاد سماج میں رہ رہا ہے اور کسی اور ملک کواس نے دیکھا ہے کہ لوگ ایک ساتھ ہیں اور وہ یہ کہتے ہیں ایسا نہیں ہونا چاہیے تو نہیں چاہیے ۔ بدبخت اپنی حیثیت کو پہچانیں کہ آپ غلام ہیں اور غلام کی حیثیت کو سمجھیں کہ غلام کی اوقات کتنی ہے۔

ابھی تک مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنی حیثیت کو نہیں سمجھے ہیں ۔ یہ وہی صورتحال ہیکہ آنکھیں بند ہیں اور ہر چیز کو دیکھنا چاہتے ہیں آنکھیں کھولنی چاہئیں جب آنکھیں نہیں کھولوگے تو کیا دیکھ سکوگےاگر دیکھ لیں بھی تو ایک خیالی عکس یا منظر اپنے ذہن میں بناکر اسی کو ہی دیکھنا چاہیں گے اور اسی کو برقرار رکھیں گے۔ کچھ جگہوں پر آنکھوں کی بصیرت بہت ماند پڑجاتی ہے ظاہر سی بات ہے جب اندھیرا ہوگا تو آپ صرف اسی اندھیرے کو ہی دیکھیں گے اور اندھیرے کے علاوہ اور کچھ دکھائی بھی نہیں دے گا۔ جب کچھ دکھائی نہیں دے گا تو پھر وہی جبری گمشدگی کی کہانی ، جبری گمشدگی سے مجھے یاد آیا کہ ہمارے لوگ بلوچ جنگ اور تحریک کو صرف یہی سمجھتے ہیں جب آپ نے کسی جبری گمشدہ افراد کیلئے چار چارٹ اٹھائے ہیں اور نعرے لگائے ہیں بس ابھی آپ زمین کیلئے لڑ رہے ہیں ۔ لیکن زمین کیلئے جنگ یہ نہیں ہے زمین کیلئے جنگ یہ ہیکہ ویسے آپ جنگ لڑ رہے ہیں اپنی لوگوں کی حفاظت کر رہے ہیں۔ اگر یہ لوگ جبراً گمشدہ کیے جارہے ہیں آپ پچتر،چہتر اور ستتر سالوں کے سفرمیں آپ نے کتنے لوگ بچائے ہیں۔ جب بندوق ہوگی تو بندوق آپکی حفاظت بھی کرسکے گی۔وقتی طورپر ہوسکتا ہے کہ ایسا نقصان دے جس سے کمزور دل اور جس میں حوصلے اور ہمت کمی ہو تو اس کیلئے یہ حیران کن و انوکھی باتیں ہوں۔

یہیں سے کہانی کی شروعات ہوگی اگر آپ بڑی قربانی دیں اور قربانی کا ایک سلسلہ شروع ہوجائے اور ہر ذہن اس بات کو تسلیم کرنے کیلئے تیار رہے کہ آج اگر ہم قربان ہورہے ہیں چار نوجوان اور آئیں گے ،قربان ہوں گے جنگ کریں گے اور زمین کی حفاظت کریں گے۔ جب یہ سوچ بڑھے گی تو دشمن کہیں نہ کہیں کمزور ہوگا ۔ ان احتجاج اور پمفلٹ ہاتھ میں تھامنے سے دشمن کو کچھ بھی نہیں ہوگا دشمن کو پانچ ٹکے کا نقصان بھی نہیں ہوگا اگر آپ دشمن کو پانچ ٹکے کا نقصان نہیں دے سکتے ہیں تو دشمن کے سپاہی ، جنرل، کرنل اور اس کی فوج کو کس طرح اپنی زمین سے نکالیں گے ۔ سوچنا ہے اتنا سوچنا ہیکہ سوچنے کا کوئی نتیجہ نکلے۔

نوٹ: یہ تحریر فدائی حمل مومن کے آڈیو پیغام سے ترجمہ کیا گیا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔