جبری گمشدگیوں کی بڑھتی ہوئی گونج – ٹی بی پی اداریہ

144

جبری گمشدگیوں کی بڑھتی ہوئی گونج

ٹی بی پی اداریہ

بلوچستان، جہاں لوگوں کی زندگیوں کی کہانیاں جدوجہد سے وابستہ ہیں اور ایسے دن کم گزرتے ہیں جب سائرہ کی طرح کوئی اپنے بھائی کی بازیابی کے لیے احتجاج نہ کررہا ہو، سائرہ کی کہانی مخصوص اور واحد نہیں ہے بلکہ بلوچستان کا ہر گھر ایسے داستانوں سے بھرا ہوا ہے۔

سائرہ بلوچ آٹھویں جماعت میں پڑھ رہی تھی جب دو ہزار اٹھارہ کو اُن کے بھائیوں کو جبری گمشدہ کردیا گیا، چھوٹی عمر میں ہی انہوں نے بھائیوں کی بازیابی کے لیے احتجاج کا راستہ اپنایا۔ پاکستان کی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے در کھٹکھٹائے، کوئٹہ میں گورنر ہاؤس اور اسلام آباد میں ریڈ زون میں دھرنے دیئے اور کوئٹہ سے اسلام آباد لانگ مارچ کا حصہ بنے لیکن سارے آئینی اور قانونی راستے اپنانے کے باجود بھی اُن کے بھائیوں کی بازیابی ممکن نہیں ہو پائی ہے۔

اسلام آباد پریس کلب پر بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خاتمے کے لئے ہوئے دھرنے میں بلوچ ماؤں کی فریادیں سننے کے بجائے ریاستی اداروں نے فوجی اسٹبلشمنٹ کے قریبی سمجھے جانے والے لوگوں کے ذریعے ریاستی جبر کے خلاف جدوجہد کو بلوچوں کی مسلح جنگ سے جوڑ کر اُن کے لواحقین کی آواز دبانے کی کوششیں کی، لیکن آج اقوام عالم میں بھی جبری گمشدہ افراد کے لواحقین کی آواز سنی جارہی ہے۔

ریاستی ادارے جبری گمشدہ افراد کے لواحقین پر الزامات لگانے سے اس مسئلے کی سنگینی کو جھٹلا نہیں سکتے ہیں۔ بلوچستان میں ریاستی جبر کے خلاف ایک توانا آواز وجود رکھتا ہے اور اگر اُن کی جدوجہد کو دبانے کی کوششیں کی گئیں تو اُن کی تحریک مزید اُبھر کر دنیا کے سامنے آئے گی۔

حال ہی میں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی لاپتہ افراد و ریاستی جبر کیخلاف ناروے میں سنوائی، یہ ظاہر کرتی ہے کہ ریاست اس سنگین مسئلے سے جس قدر چشم پوشی کرے اور حقائق جھٹلائے، لیکن راہ فرار اختیار نہیں کرسکتا اور بالآخر اسے جوابدہ بنایا جائے گا۔