21 اپریل کی رات شہدائے گورجک کو سرخ سلام پیش کرتی ہے
تحریر: دودا بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
21 اپریل 2015 کی رات 4 بجے پاکستانی فوج نے مشکے گورجک کے اندر ماسٹر فضل صاحب کے گھر پر حملہ کیا جہاں چار بلوچ جہدکاروں کو شادی کی تقریب سے اغواء کرکے اگلے دن انکو فیک انکاؤنٹر میں شہید کردیا گیا تھا۔ ان جوان بیٹوں میں سے تین کی شادیاں دو دن پہلے ہوچکی تھی اور چوتھے کی 21 اپریل کی رات کو ہونے والا تھا کہ یہ دردناک واقع رونما ہوا.
درحقیقت پاکستان بلوچستان کے اندر خوشیاں نہیں بلکہ خون سے لت پت انسانی جسموں کو پسند کرتی ہے، ہر گھر کو جلا کر راکھ کرنا پسند کرتی ہے۔ آخر قابض پاکستان پچھلے 75 سالوں سے دہشتگردی کی نام سے بلوچ قوم کی نسل کشی تو کررہی ہے۔
پاکستانی فوج ہمیشہ اپنی ظلم اور بربریت کو اپنی نام نہاد میڈیا کی مدد سے پوری دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکتی آرہی ہے۔ کہیں گھروں کو تباہ و برباد کی اور کہیں آبادیوں پر جدید ہتھیاروں، جیٹ طیاروں اور ڈرون سے حملہ کیا۔
اگر شھدائے گورجک کی بات کرو ۔ اس واقعے سے پہلے گھروں پر حملے ہوئے تھے. گھروں کو جلا کر، بلوچ خواتین کو تشدد کرکے، گھریلو سامان کو لوٹتے رہتے۔ اب تو پاکستانی فوج نے ہمارے آنکھوں کے سامنے ان بلوچ مرد حضرات کو شادی کی تقریب سے اٹھا کر لے گئے تھے۔بعد ایک جھوٹی اور من گھڑت بیان جارہا کیا کہ “مشکے کے علاقے گورجک میں پاک فوج اور دہشتگردوں کے درمیان فائرنگ کے نتیجے میں گورجک کے کمانڈر اعجاز بلوچ اپنے تین ساتھیوں سمیت مارا گیا ۔
جن میں آفتاب بلوچ باسط بلوچ اور شاہنواز بلوچ شامل تھے۔” ہمارے لیئے یہ بات نئی نہیں تھی کیونکہ مشکے میں کہیں ایسے نوجوان کو فیک انکاؤنٹرنگ میں قتل کر دیے گئے بلوچ جوانوں کو حملہ آور قرار دیکر پاکسانی میڈیا کی زینت بنا دیئے ہیں۔
(گورجک اور شھدائے گورجک )
(گورجک )
آپ نے شاید گورجک کا بس نام ہی سنا ہے، آپ نے گورجک کے دیواروں پر لکھے الفاظ کو نہیں دیکھا ہے کہ جو شہیدوں کی خون سے لکھے تھے، جو اعجاز جان و آفتاب سمیت کامریڈوں کی کہانیوں کو رقم کرتے،اب وہ الفاظ دیواروں کے ساتھ گرے ہیں، اب وہاں دیوار ہی نہیں بچا بلکہ ہر طرف خشک کھنڈرات کا منظر ہے۔ فوج نے گھروں کو جلا کر راکھ کردیا، گھریلو سامان کو اٹھاکر بڑے بڑے ٹرکوں میں ڈال کر اپنے چھاؤنیوں میں لے گئے، شہیدوں کے قبروں پر بلڈوزر چڑھاکر انہیں مکمل صاف کرچکے ہیں۔ ترنگے جو ان کے قبروں پر بنائے تھے انہیں سیمنٹ سے بنی قبروں سے مٹاکر پھینک دیئے گئے ہیں۔ گورجک کو کس موضوع پر لکھنا ہے: جنگ یا محبت۔ محبت کی بات ہوتی ہے تو جنگ کو نہ بیان کرنا ان شہیدوں کے ساتھ زیادتی ہوگی جنہوں نے اپنے سینوں پر دشمن کے جدید ہتھیاروں کے گولیاں کھائی اور مٹی کیلئے امر ہوئے اور اگر جنگ کی بات ہو محبت پر باتیں نہ کریں تو جنگ کی کہانی ماند پڑ جاتا ہے۔ ویسے گورجک دو وجہ سے بلوچستان کے اندر کافی مشہور تھا۔
پہلا۔۔۔ گورجک ایک زمانے میں ایک خوش حال سرسبز شہر کے ناطے جسکے دو طرفہ پہاڑی سلسلے اور بیچ سے گزرتا ہوا صاف شفاف پانی کی ندیاں اور چاروں طرف سے کھجوروں کی درختوں سے بھرا ہوا تھا۔
دوسرا ۔ گورجک مشکے کے اندر ایک دور میں بی ایل ایف کا آماجگاہ تھا۔میں گورجک کو بی ایل ایف کا کیمپ ہی کہوں تو بہتر رہے گا کیونکہ گورجک بلوچ آزادی پسند رہنما اختر ندیم بلوچ کا علاقہ ہے جہاں ہمارے بلوچ کامریڈوں کی بندوقوں کا نمائش ہوتا اور وہ مرد مجاہد کلاشنکوف دیگر جدید ہتھیاروں کو تھام کر گھومتے رہتے۔ پورے مشکے میں سرمچاروں کی آمد و رفت تھا۔ گورجک سے ابھرنے والا اختر ندیم بلوچ آج بلوچستان لبریشن فرنٹ (BLF) کے سکینڈ کمانڈر ہیں ۔ وہ گزشتہ بیس سال سے بلوچستان پر پاکستانی قبضے کے خلاف لڑ رہے ہیں۔
آج گوارجک کا نام اختر ندیم بلوچ کے نام پر رکھا گیا ہے اور جانا جاتا هے جو اپنی ذہانت، ہمت اور قربانیوں کی وجہ سے قیادت کی علامت اور ایک زندہ لیجنڈ ہیں۔
جب ہم بلوچستان کی بات کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں لفظ “جنگ” آتا ہے۔ جنگی جرائم جو ہورہے ہیں۔ جنگی جرائم کا ارتکاب جبری گمشدگیوں، بمباری، قتل اور ڈمپنگ وغیرہ کی صورت میں کیا جا رہا ہے۔ لیکن غلام کیلئے جنگ کا مقصد ہر گند کو صاف کرنے کا ہوتا ہے کہ وہ گوریلہ جنگ شروع کرکے دشمن کا تختہ الٹ دیتے ہیں۔ اس گوریلہ جنگ میں شامل جوان اپنی لہو سے وطن کیلئے شہید ہوتے ہیں اور سینوں کو تان کر مرد مجاہد آزادی کا نعرہ لگاتے ہیں۔ ان مرد مجاہد میں سے ایک شہید اعجاز بلوچ بھی تھے۔
(شہید اعجاز بلوچ کون تھے؟ )
بلوچ قوم روز اول سے پاکستانی قبضہ گیریت کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں ۔ اور اس جدوجہد میں ہم جانتے ہیں کہ ہمارے بہادر سپاہی کس طرح لڑ رہے ہیں، بلوچ قوم کے لیے اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں۔ ہم تو بہت سے ایسے بہادر بلوچ جنگجوؤں کو جانتے ہیں جنہوں نے بلوچستان کے لوگوں کی آزادی کے لیے خود کو قربان کیا ۔ اعجاز بلوچ کا شمار بلوچستان کے ان بہادر شہداء میں ہوتا ہے۔
اعجاز اپنے مادر وطن پر مر مٹ نے والا ایک جنونی عاشق جو بابا خیر بخش کا شاگرد اور بلوچستان کا ایک بہادر سپاہی تھے جس نے بی ایس او آزاد کو اپنا قبلہ اور ڈاکٹر اللہ نذر کو اپنا رهشوں سمجھا ۔
وہ سیاست اور گوریلا جنگ میں ایک نامور و قوائد سے لیس کامریڈ تھا جس کی قلم کی نوک اور بندوق کی آواز آج بھی مشکے کی پہاڑوں میں سلگتے بلوچستان کی داستان سناتے ہیں۔
اعجاز بلوچ کو سیاسی اور قوم دوستی کی جدوجہد کا تربیت بچپن اپنے انقلابی خاندان کے ہاں ملا تھا ۔ آپ کے والد ماسٹر فضل صاحب خود ایک قوم دوست اور بلوچستان نیشنل موومنٹ کا سینئر ممبر بھی رہے تھے۔
فضل صاحب نے 1980 کی دہائی میں بی ایس او میں کافی سرگرم کارکن رہا اور 1980 سے لے کر اپنی آخری سانس تک جدوجہد پر تھے۔ لیکن دستبردار نہیں ہوا۔ دو بیٹوں کی شہادت اور کئی دفعہ پاکستانی فوج کی طرف سے گھروں کو جلانے کے باوجود آپ ہمیشہ کہتے تھے کہ میرے دو اور بیٹے بھی ہیں اپنی مادر وطن پر قربان ہونے کیلئے۔
اس کا دلعزیز بیٹا اعجاز بلوچ نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی شہر میں حاصل کی اور میٹرک کے بعد کوئٹہ میں تعلیم جاری رکھا۔۔
وہاں سے اس نے بی ایس او آزاد میں شمولیت اختیار کی
تھی۔ کچھ عرصے تک کوئٹہ کے اندر جدوجہد میں سرگرم رہنے کے بعد اس نے سوچا تھا کہ اب انہیں اپنے علاقے گورجک میں سرگرم رہنا ہوگا تو انہوں نے اپنی پڑھائی چھوڑ کر واپس گاؤں آیا۔مشکے کے اندر بی ایس آو آزاد کی پلیٹ فارم سے جدوجہد شروع کیا اور مشکے کے اندر بی ایس آو آزاد کو فعل کرنے میں بہت بڑا کردار ادا کرکے گورجک شہر کو بی ایس آو آزاد کیلئے ایک مرکز بنا دیا۔ آپ کم عمری میں (ہی ایس آو آزاد) میں شامل ہوا تھا لیکن مشکے کے اندر سینکڑوں نوجوانوں کو بلوچ وطن کی آزادی کے لیے بلوچ جدوجہد میں شامل کرنے کے لیے متحرک کیا۔
جب 2012 میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کا 19th کونسل سیشن ہوا تو سنگت اعجاز نے بلوچ کونسل سیشن کو کامیاب بنانے کیلئے بہت بڑا کردار ادا کرچکے تھے۔2012 میں بلوچستان کے اندر حالات کافی بگڑ گئے تو روزانہ بی ایس آو آزاد کے لاپتہ ممبروں کا ایک ایک مسخ شدہ لاش گرتا رہتا ۔ تو اس وقت بی ایس آو آزاد کی قیادت کیلئے اپنی کونسل سیشن کو کامیابی سے بنانا ایک بہت بڑی چیلنج تھی۔
بالآخر جون کے مہینے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے قیادت نے اپنا 19th کونسل سیشن مشکے گورجک ہائی اسکول میں بنانے کا فیصلہ کیا۔
اور کونسل سیشن کی ذمہ داری اس وقت مشکے زونل صدر عزت بلوچ اور اعجاز بلوچ کو دی گئی تھی۔
سنگت زاہد جان کی قیادت سے ۔۔ عزت جان اور اعجاز جان نے اپنے سیاسی پختہ قابلیت اور دن رات کی محنت سے کونسل سیشن کی چھوٹی سے بڑی چیز کو دن رات محنت کر کے پورا کیا اور اس مہینے میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد نے اپنا 19 کونسل سیشن کامیابی سے سر انجام دیکر 19th کونسل سیشن میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے سربراہ سابقہ جنرل سیکرٹری سنگت زاہد بلوچ منتخب ہوگئے۔ اعجاز ایک مہا انسان، ایک بہترین دوست، اپنے مستقبل کے لئے جدوجہد کرنے والا جہدکار، گورجک شہر کے اندر بچوں بڑوں سب کا لیڈر اور وہاں کے طلباء کی مستقبل کے لئے ایک امید بن کر کوئٹہ سے آئے تھے۔ آپ گورجک میں ہر پفتے کے ایک دن گورجک ہائی اسکول میں طلباء و طالبات کو بلوچ ثقافت، زبان اور بلوچ جنگ ازادی کے حوالے لکچر دیتے رپتے۔ آج اس کے دیئے ہوئے تربیتی لکچرز اور تعلیم کی وجہ سے پاکستان فوج کی بربریت اور ہر طرح کی ظلم اور جبر کرنے کے باوجود گورجک کے اندر اس کے کسی ایک شاگرد نے بھی پاکستانی فوج کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالا ہے اور آج بھی اس نرم لہجے والے انسان کے شاگرد سراپا جدوجہد پر ہیں۔
(شھید اعجاز کی مسلح جدوجہد )
اعجاز بلوچ نے بی ایس او آزاد میں کافی فرائض سرانجام دینے کے بعد وہ یہ بات اچھی طرح سمجھ چکا تھا کہ پاکستانی فوج پرامن سیاسی طریقے سے ہماری آواز کو سننے کیلئے تیار نہیں۔ بعد ازاں اس نے بلوچستان لبریشن فرنٹ کی پلیٹ فارم سے مسلح جدوجہد کا آغاز کیا اور اپنے علاقے میں مسلح جدوجہد کا معیار سپاہی بنا۔ وہ پہاڑوں سے زیادہ علاقے کے اندر ہی دشمن کو نفسیاتی مرض بنانے میں ماہر گوریلا حکمت عملیوں سے لیس ایک سرمچار تھا
اس کی سیاسی پختی اور قابلیت کی وجہ سے علاقائی محاذ پر کافی عرصہ کامیابی حاصل کرنے کے ساتھ کئی کارروائیوں کو سر انجام دینے کے بعد اس کو گورجک کا کمانڈر بنا دیا گیا تھا۔
جہاں وہ بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سیکنڈ کمانڈر اختر ندیم بلوچ کے گھر میں بیٹھ کر پورے علاقے کی قیادت کر رہا تھا۔ اعجاز بلوچ نرم لہجے والے ایک دلکش نوجوان تھا جو اس بات سے واقف تھا کہ شہر کی قیادت کیسے کی جاتی ہے وہ اپنے شہر کے اندر ہر چھوٹی اور بڑی مسئلہ کو اپنی نرم لہجے اور اپنی سیاسی پختہ سے حل کرتا تھا
اس کی معصومیت اور نرم لہجے ہر وقت چہرے پر مسکراہٹ کی وجہ سے پورا علاقہ والا اس سے بے پناہ محبت کرتے تھے بلکہ گورجک کے اندر ہر ماں اور بزرگ باپ اس کو اپنا بیٹا سمجھتے تھے۔
مشکے زلزلے کے بعد(2013) پاکستانی فوج کافی حد تک مشکے کے اندر گھس کر پہاڑوں، اسکلوں اور لوگوں کے گھروں پر اپنے مورچے بناکر وہاں مقیم تھا۔ اور روزانہ آپریشن ہوتے رہے۔کئی دفعہ گورجک پر حملہ کیا تاکہ گوریلہ لیڈر اختر ندیم اور اعجاز بلوچ سمیت ساتھیوں کو پکڑ سکیں لیکن ہر دفعہ وہ ناکام ہوکر گھروں کے ساتھ وہاں کھڑے گاڑیوں کو جلاتے، مال مویشی کو لوٹ مار کرتے۔ یہ سلسلہ کی سالوں تک چلتا رہا۔
اور ایک دن مشکے گجر پاکستانی فوج کی کینٹ سے اعجاز جان کیلئے ایک پیغام بھیجا کہ ہتیھیار ڈالنے کیلئے آپ کے پاس صرف چار مہینے ہیں ہتھیار ڈال دو۔ بدلے میں جو چاہئے وہ اپ کو ملے گا۔ لیکن اعجاز بلوچ نے پہلے اپنی مادر وطن کا سوگند کھا کر وہ وطن پر فدا ہونا چاہتا تھا اور آرمی کی بیجی ہوئی پیغام کو رد کرکے یہ کہا” میں اپنی آخری سانس تک اپنی وطن اور قوم کی دفاع کرونگی اگر وہ مجھے مارنا ہی چاہتے ہیں تو آئے میں تیار ہوں۔”
یہ خانثار اعجاز جان مشکے کے اندر پاکستانی فوج کیلئے ایک سر درد بنا ہوا تھا ۔ کیونکہ پاکستانی فوج نے پورا مشکے کو اپنی کنٹرول میں رکھا تھا لیکن گورجک میں بلوچ فرزند بندوقوں اور ازادی کے ترنگے کو ہاتھوں سے لہرا کر بغیر کسی خوف گھوم رہے تھے۔
اور یہ بات قابض فوج کو پتہ تھا کہ اعجاز بلوچ بلوچستان لبریشن فرنٹ کیلئے کتنا اہم ہے کیونکہ پورے مشکے کے اندر اعجاز ہی وہ شخص تھا جو اتنی سخت اور مشکل وقت میں بلوچستان لبریشن فرنٹ کی کیمپ کا خوراک ور راشن کا بندوبست کرتا رہتا اور پاکستانی فوج ہر وقت اعجاز کے پیچھے پڑ کر اس کو سرنڈر کرنے کی دعوت دیتا۔ کئی دفعہ دھمکیاں اور گھروں کو جلانے کے باوجود اعجاز جدوجہد سے دستبردار نہیں ہوا تو وہ اب اعجاز بلوچ کو ہر حال میں مارنے چاہ رہے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر اعجاز کو مارا گیا تو بی ایل ایف کی آمد و رفت تھوڑا کم اور انہیں خوراک کی رسائی میں مشکل ہوگا۔ لیکن انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ اعجاز تو صرف وطن کا ایک فرزند تھا جو وطن سے بے انتہا محبت کرتا وہاں تو اعجاز جیسے ہزاروں نوجوان ہیں جو بلوچستان کی آزادی تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
اعجاز کو سیاست اور مسلح جدوجہد کے ساتھ ساتھ باقی چیزوں میں کافی دلچسپی رکھتا تھا۔جیسا کہ کرکٹ فٹ بال وغیرہ ۔۔۔۔ وہ کرکٹ کھیلنے کا شوقین تھا، وہ ہر روز مغرب کے وقت گورجک ہائی اسکول میں کرکٹ کھلاڑی اور رات میں ایک بلوچ گوریلہ کمانڈر تھا۔
اس کا اپنا ایک کرکٹ ٹیم بھی تھا۔ جو اختر ندیم کے دلہیر بھائی شھید آصف ندیم کے نام سے بنا ہوا تھا۔ اور 2012 میں انہوں نے شہید آصف ندیم کے نام سے ڈسٹرکٹ آواران کے اندر ایک کرکٹ ٹورنمنٹ بھی رکھا۔
(شھید آصف ندیم)
آصف ندیم یعنی کہ بلوچ گوریلہ لیڈر اختر ندیم بلوچ کا چھوٹا بھائی اور گورجک کے اندر پہلا فرزند جو وطن پر فدا ہوکر ایک وطن دوست بن نکلا تھا۔ اس مرد مجاہد نے شاہی محلوں کی زندگی کو چھوڑ کر بلوچستان کی پہاڑوں پر سفر کیلئے نکلا اور جنگ آزادی میں اپنے ایک دوست شھید مختار بلوچ کے ساتھ 30 اپریل 2010 کو شہید ہوئے تھے۔ آپ ایک اچھے اور مخلص بلوچ جنگجو تھے۔ آپ کی پہلی برسی پر والد صاحب نے فخر سے کہا تھا “آصف میرا بیٹا نہیں تھا بلکہ مادر وطن کا بیٹا تھا اور میں اس بات پہ بہت خوش ہوں کہ اس نے اپنا راستہ خود چنا اور وطن پر قربان ہوا۔”
(بساط ندیم بلوچ)
بساط ندیم بلوچ بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سیکنڈ کمانڈر اختر ندیم بلوچ کا چھوٹا بھائی جو اپنی پڑھائی کے زمانے سے بی ایس آو آزاد کا ممبر بننے تھے ۔بعد بلوچستان لبریشن فرنٹ کی پلیٹ فارم سے مسلح جدوجہد کا آغاز کیا اور بلوچستان لبریشن فرنٹ کی پلیٹ فارم سے مشکے کے اندر کافی فرائض سرانجام دیا۔
دردناک 21 آپریل کی رات اپنے شادی کی دوسری دن پاکستانی فوج کے ہاتھوں لاپتہ ہوکر دوسرے دن فیک انکانٹر میں شہید ہوئے تھے۔ آپ کو کبھی نہیں بھولیں گے، اپنی ماں شرجان کی کھوک سے جنم لینا والا بہادر سپاہی۔
( شھید شاہنواز بلوچ )
شاہنواز بلوچ کا تعلق ضلع پنجگور تحصیل گچک سے تھا۔ آپ بی ایس او آزاد کا ایک سینئر ممبر رہے اور چیرمین زاہد بلوچ اور بانک کریمہ کی قریبی دوستوں میں سے ایک تھے۔ وہ اپنے طالب علمی کے زمانے میں اپنے علاقہ کے اندر بی ایس آو آزاد کو فعل کرنے میں بہت بڑا کردار ادا کیا ۔
گیچک اور پنجگور سے ہزاروں نوجوان کو تربیت دے کر بلوچ جدوجہد میں شامل کیے ۔
اس نے بی ایس او آزاد کی پلیٹ فارم سے کافی فرائض سرانجام دیئے۔ بعد ازاں اپنی شادی کی دوسری دن دوسوتوں کے ہمراہ اغواء ہوئے اور دوسرے دن خون سے لت پت گھر پہچ گئے اور اپ کو آپکی گاؤں کے نوجوانوں نے فخر کہ ساتھ زمین کے امانت کردیا ۔ آج گیچک اور پنجگور کی نوجوان آپ کے دیئے ہوئے تعلیم اور تربیت سے بلوچستان میں مختلف پلیٹ فارم سے سراپا جدوجہد پر ہیں۔
( شھید آفتاب بلوچ عرف جلال جان )
آفتاب بلوچ کا تعلق مشکے گورجک اس انقلابی خاندان سے تھا جہاں سے اختر ندیم، شہید اعجاز بلوچ جیسے قوم دوست اور گوریلہ کمانڈوز نکلے۔ آپ اعجاز کا بڑا بھائی تھا۔ وہ بلوچستان لبریشن فرنٹ کے صفحہ اول کے سپاہیوں میں سے ایک تھا ۔۔۔۔ جب بلوچستان لبریشن فرنٹ وجود میں آیا تو وہ اس میں شامل ہوا تھا۔
آفتاب جان نے اپنے شعور اور قابلیت سے مشکے آواران گریشگ، پنجگور، گیچگ اور بالگتر پروم سے ہزاروں نوجوانوں کو تربیت دے کر بلوچستان کی جدوجہد میں شریک کیا۔ آج بھی پروم اور پنجگور کے اندر ہر گھر میں آفتاب بلوچ کو ایک دوست اور بھائی یا بیٹا کی حیثیت سے جانتے ہیں ۔ وہ سیاست اور گوریلا جنگ میں ایک ماہر کامریڈ تھا۔ جس نے بلوچستان نیشنل موومنٹ کی پلیٹ فارم سے سیاست کی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ کی پلیٹ فارم سے آزادی کی جنگیں لڑی۔ دراصل آفتاب جان جیسے گوریلہ کمانڈر کو سمجھنے کیلئے ایک شعور یافتہ ہونے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ معمولی انسان سے اس کی سوچ و فکر اور کردار کو سمجھ پانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس کی کردار کو وہی سمجھ سکتا ہے جو سرزمین سے انتہائی محبت کرتا ہے، جو اپنی سرزمین پر زندگی کی ہر شئے کو قربان کرنے پر تیار ہو تو۔ کیونکہ قابض ریاست کی جانب کئی دفعہ گھر جلائے گئے اور وہاں روزانہ آپریشن کرنے کے باوجود آفتاب جان بلوچ جدوجہد سے دستبردار نہیں ہوا تھا۔ وہ کہتا تھا” اگر ہم آزاد اور ایک خودمختار بلوچستان کی خواب دیکھتے ہیں۔ تو اس کیلئے ہمیں قربانیاں دینا پڑے گا۔”
اس لئے آفتاب جان وطن کیلئے ہر چیز کو قربان کرنے پر تیار رہا تھا۔ اس نے اپنی زندگی کو بلوچستان کی جدوجہد میں ہی قربان کر ڈالا۔ مجھے آج بھی یاد ہے وہ دو دو سال تک گھر نہیں آیا کرتے۔ وہ ہمیشہ سفر پر رہے۔ مشکے سے گیچک، پنجگور سے پروم اور گریشگ سے قلات تک وہ بس مسلح جدوجہد کی سفر میں مصروف قوم کے مستقبل کو سجانے نکلا تھا۔ اور ہر علاقے میں نوجوانوں کو مسلح جدوجہد میں شامل ہونے کیلئے تربیت دیتا رہا وہ اپنی شہادت سے ایک دن پہلے پنجگور کی سفر آکر اعجاز جان کی شادی کے موقعے پر وہ کافی تھا اس کا یہی خیال تھا کہ جلد از جلد شادی ہو اور وہ واپس اپنی سفر پر روانہ ہوجائے لیکن شادی کی پہلی رات گھر پر حملہ ہوا اور 21 اپریل کی رات وہ اپنے دوستوں کے ساتھ گھر سے اغواء ہوئے اور دن کی روشنی میں وطن کی ترنگے سے لپٹے واپس آئے۔ میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ اس ادھورے سفر اور کاروان کو ایک دن اسکا بیٹا صوب جان اور آنے والے بلوچ نسل اپنے منزل تک پہنچاتے ہیں۔
(21 اپریل کی رات)
21 اپریل کی رات درد اور وحشت ناک کی رات ہے۔ اپریل کی مہینے میں اعجاز بساط اور شاہنواز کی شادیوں کی تیاری ختم ہوچکی تھی۔ 17 ا18 اپریل کو بساط اور 19 اور 20 اپریل کو شاہنواز کی شادی ہوچکی تھی 21 اپریل کی رات اعجاز کی شادی کا پہلا رات تھا پوری گاؤں والے خوشیاں منا رہے تھے، ہر طرف آپ کو مسکراہٹ سے بھرے چہرے نظر اتے اور اعجاز آج رات ایک ایسے پرامید گوریلہ کمانڈر بندوق اپنے پاس رلھ کر دشمن کے ساتھ لڑنے والا دلہا دکھ رہا تھا۔
اور آج رات کی اس کی زندگی کہ اندر بہت بڑا اور خوشیوں والا رات تھا کیونکہ کہ وہ اپنی بچپن کی محبوبِ سے ملنے والی تھی وہ ایک دوسرے سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔انکی کئی سالوں کی انتظار آج بلوچی دو چاپ اور پھولوں سے ختم ہونے جارہا تھا کہ لیکن دوسری جانب قابض پاکستانی فوج اپنی کیمپ میں بے چینی سے رات ہونے کا انتظار کررہے تھے اور اسکی مخبر ہر وقت اور ہر پل کا خبر دے رہا تھا کہ وہ کہاں اور کس جگہ پہ سونے والے ہیں۔ یہ مخبر کوہی اور نہیں بلکہ اپنا ایک ہمسایہ تھا کہ جب سارے لوگ سوگئے تب رات کے چار بجے پاکستانی فوج نے اعجاز بلوچ کی گھر کو چاروں طرف سے گیرے میں لیا۔بساط شاہنواز ، افتاب جو اپنے کمرے میں سوئے ہوئے تھے انکو وہاں شدید تشدد اور زخمی کیا۔
لیکن آفتاب جان نے کافی مزاحمت بھی کی یہاں تک کہ اس نے اپنی خالی ہاتھوں سے دو فوجی کمانڈوز کو خوب پیٹا جس کے بدلے میں ظالم پاکستانی فوج نے اسکی ہاتھوں اور پیروں کو خاندان کے سامنے توڑا، وہی اعجاز جان گیرے میں تھے اور دوسری طرف پاکستانی فوج اسکی ماں بہنوں اور خاندان کی باقی لوگوں کو کافی تشدد کا نشانہ بنا رہی تھی۔ اس نے اپنی بہنوں اور مہمانوں کی عزت اور انکی دفاع کیلئے خود کو پاکستانی فوج کے حوالا کر دیا۔ وہ چاہتا تو وہاں سے بھاگ سکتا تھا لیکن وہ اعجاز بلوچ تھا وہ کیسے اپنی بہنوں کی عزت کو پامال کرتا ہوا بھاگ جاتا، وہ کیسے آئے ہوئے دوست اور مہمانوں کو چھوڑ کر بھاگ جات۔ وہ جس نے قسم کھایا تھا کہ وہ ہر حال میں اپنے عوام کی دفاع کرے گا چاہے اس کیلئے خود کو قربان ہی کیوں نہ کرنا پڑے اور وہ اس نے کرکے دکھایا۔ کبھی کسی یہ سوچا نہیں تھا کہ ہاتھوں میں مہندی لگا یہ جوان کبھی گولیوں سے بون ہوکر گھر واپس اپنی محبوبہ سے ملے گی۔ وہ تیاریاں وہ ہاتھوں پہ لگے مہندیاں ہمارے لیے دردناک یادیں بن گئے۔ جس طرح اسکی ماں اور بہنیں چاہتی تھیں وہ اس طرح سے دولہا نہیں بنا سکے لیکن جس طرح اعجاز جان وطن پر فدا ہونا چاہتا تھا اور اسکی خواہش تھا وہ دعا پورا ہوا۔ وہ اپنی محبوب کا نہیں بلکہ وطن کا سالونک بن کر امر ہوا۔
انکی کم عمری میں بلوچ وطن کی آزادی کے لیے دی گئی قربانیوں کو بلوچ تاریخ کے ابواب میں سنہری الفاظ میں یاد رکھا جائے گا۔
اگر اس رات اعجاز جان خود کو پاکستانی فوج کے حوالا نہیں کرتا تو پاکستانی فوج گورجک میں بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ وہی سلوک کرتا جو اس نے بنگلہ دیش میں ڈھاکہ کی گلیوں میں بنگالی بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ کیا تھا۔
یہ 21 اپریل کو ہم ایک دردناک رات اس لیئے کہتے ہیں کہ ہماری بلوچ خواتین کے دوپٹوں کو سرسے اتار کر انہیں تشدد کیا گیا اور ہمارے چار بلوچ سالونک ظالم فوج کے ہاتھوں اغواء ہوئے اور بعد ازاں مسخ شدہ لاشوں کی شکل میں گھر پہنچے تھے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔