بی وائی سی ڈیرہ بگٹی کے ترجمان نے اپنے حالیہ بیان میں کہا کہ ڈیرہ بگٹی اور ملحقہ بلوچ علاقوں میں اس سال کینسر کے پھیلاؤ میں شدت دیکھنے کو نظر آئی ہے جو کہ نہایت تشویشناک ہے ، ڈیرہ غازیخان کئ عرصے سے اس مرض کی زد میں تھا مگر اب ڈیرہ بگٹی بھی اسکے زد میں آچکا ہے۔ گو کہ ہر جگہ امراض کا وجود ہوتا ہے مگر اس ریجن میں آبادی کے تناسب سے بڑھ کر کینسر کا پائے جانا باعث تشویش ہے ۔ تشخیصی مراکز نہ ہونے کی وجہ سے اول تو کسی بھی جگہ اس مرض کی تشخیص نہیں ہوتی جب معلوم پڑتا ہے کہ ایک فرد کو کینسر ہو چکا ہے تو وہ آخری سٹیج پر پہنچ چکا ہوتا ہے جس کا بچنا محال ہوتا ہے۔ 70- 85٪ لوگ جو کینسر کا شکار ہوتے ہیں وہ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں جبکہ 15٪ بڑی مشکل سے سانسیں بچانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور یہ وہ افراد ہوتے ہیں جن کے پاس مالی وسائل وافر مقدار میں موجود ہوتے ہیں اور بیرون ملک اپنا علاج کروا پاتے ہیں ۔
ترجمان نے کہا کہ کم آبادی پر مشتمل ضلع ڈیرہ بگٹی کے ہر یونین میں تقریباً 9-13 افراد کو کینسر ہور رہا ہے جبکہ 3 سال پہلے شاز و نادر ہی پورے ضلع میں کینسر کا کوئی کیس سامنے آتا تھا۔ اس ریجن میں زیادہ آبادی والے علاقوں میں یہ ریشو کافی آگے بڑھ چکا ہے جو کہ قیمتی جانوں کی ضیاء کا باعث بن رہا ہے۔ کینسر کے آخری سٹیج پر پہنچنے سے پہلے مریض کو بخار اور سر درد کی گولیاں دے کر تسلی دی جاتی ہے یہ ڈاکٹرز کی سنجیدگی کا حال ہے۔ پورے ضلع میں پبلک کیلئے ایک ہی ہسپتال ہے اور وہ بھی سہولیات مہیاء نہیں کر پا رہا۔ مقامی سطح پر ہسپتالوں کا کوئی وجود ہی نہیں ہے اگر کہیں ہیں بھی تو ان پر ایک خاص طبقے کی اجارہ داری ہے اور غریبوں کی پہنچ سے ادویات دور ہی رہتی ہیں ۔
ترجمان نے مزید کہا کہ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ڈیموگرافک تبدیلیوں کے خطرے سے دو چار بلوچ قوم کینسر جیسی خطرناک مرض کے ہاتھوں اپنی جانیں گنوا رہی ہے جس کی روک تھام کیلئے کوئی بھی عملی اقدام نہیں اٹھایا جا رہا۔ ریاست ہماری زمینوں پر ایٹمی تجربے کرنے کے درپے ہے جبکہ اس عمل کہ وجہ سے کئی بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں ۔ انہی کیمیکلز اور ایٹمز کی وجہ سے جلد، گلے کی، معدے کی آنکھوں کی بیماریاں ہیدا ہو رہی ہیں اور انسان کی نفسیات پر کئی طرح کے نفی اثرات پڑ رہی ہیں۔
بیان کے آخر میں ترجمان نے کہا کہ ریاست کھلے عام آبادیوں میزائل تجربے کر چکی ہے اور اسکی وجہ اسے کئ بیماریاں جنم لے رہی خصوصاً کینسر سے ہماری زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ ہم یہ گزارش کرتے ہیں کہ اسے روکنے کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں۔ ساتھ ہی ہم بین الاقوامی صحت کے اداروں سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ اس سے پہلے یہ سنگین شکل اختیار کر جائے، تشخیصی مراکز کھولے جائیں اور تمام مکتبہ فکر کے لوگوں سے یہ گزارش کرتے ہیں کہ یہ مرض ہماری نسل کشی کا باعث بنتا جا رہا ہے، خدشہ یہ ہے کہ آہستہ آہستہ یہ آگے کے علاقوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا، لہذا اس کے خلاف آواز اٹھانے میں ہمارا ساتھ دیں۔