ہماری جدوجہد فتح کی جانب بڑھ رہی ہے – ڈاکٹر اللہ نذر کا آڈیو پیغام

2556

بلوچ آزادی پسند رہنما اور بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نےبلوچ قوم کے نام جاری کردہ 20 منٹ 40 سیکنڈ پر مشتمل ایک طویل تازہ ترین آڈیو پیغام میں کہا کہ ہماری جدو جہد کامیابی اور فتح کی طرف بڑھ رہی ہے ۔

بی ایل ایف کی میڈیا سیل “آشوب “کی جانب سے بلوچی زبان میں جاری کردہ میںاس طویل آڈیو پیغام کے حوالے سے کہا جارہا ہے کہ اسے بلوچ وطن میں 7 اپریل 2024 کو ریکارڈ کیا گیاہے۔

ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ اپنے آڈیو پیغام میں کہا ہے کہ بلوچ عوام کو سلام پیش کرتے ہوئے کہتاہے کہ آپ جہاں کہیں بھی ہو، خیریت سے رہو! میں نو جوانوں، بوڑھوں اور بزرگوں کو مخاطب کرنا چاہوں گا کہ ہماری جدو جہد کامیابی کی طرف جا رہی ہے۔ ہم فتح کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ہماری آبادی کو کم کرنے کا دشمن کا منصوبہ نا کام ہو چکا ہے۔ یہ ہمارے قدرتی وسائل کو لوٹ رہا ہے لیکن آپ کی مدد سے اس میں کمی آئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ میری بلوچ عوام سے ایک گزارش ہے چاہے وہ وطن میں رہ رہے ہیں یا بیرون ملک، وہ جہاں کہیں بھی ہوں، بلوچ آزادی کی جدو جہد میں اپنا حصہ ڈالیں۔ بلوچ بحیثیت قوم توقع رکھتی ہے کہ جس طرح سے آپ لوگ اپنے قیمتی بیٹوں کو اس مقصد کے لیے قربان کر رہے ہیں، آپ سب کو سرمچاروں کی مالی مدد بھی کرنی چاہیے۔ جو آپ کے آس پاس ہیں، چاہے آپ انہیں آٹا فراہم کریں یا کسی اور طرح سے ان کی مدد کریں۔ یہ بھی نہایت ضروری ہے۔ آپ کے مالی امداد کے بغیر بھی بلوچ عوام بلوچ کاز کو آگے بڑھائیں گے لیکن انہیں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بلوچ قومی آزادی کی تحریک دم توڑ جائے گی۔ اس لیے ہمیں دشمن کا ساتھ دینا چاہیے۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہیں میں جنگی منافع خور کہتا ہوں۔ وہ پارلیمنٹ میں ہوں یا اس سے باہر۔ جب بھی انہیں ٹھیکے یا ممبر شپ سے محروم کیا جاتا ہے تو وہ شور مچا کر نو آبادی آقاؤں کے سیکٹر کمانڈروں اور کرنلوں کے نام ظاہر کرتے ہیں۔ انہیں چپ رہنے کے لیے سینیٹر مشیر وغیرہ بنا دیا جاتا ہے۔ اور پھر وہ جسے لانا چاہتے ہیں لے آتے ہیں۔

انہوں نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ جیسا کہ آپ نے دیکھا: سب سے پہلے وہ نام نہاد قوم پرستوں کو بلکہ قوم فروشوں کو لائے ۔ آپ لوگوں نے ان سب کو مستر دکر دیا۔ پھر وہ باپ (بلوچستان عوامی پارٹی) پارٹی لے آئے۔ آپ نے انہیں بھی رد کر دیا۔ اب ضرورت کے تحت، انہوں نے سستا ترین سودا کر کے ڈرگ مافیا کے لوگوں ، منشیات فروشوں ، اجرتی قاتلوں کی ایک بڑی تعداد کو لے آئے ہیں۔ یہ لوگ جنگی منافع خور ہیں۔ ان کے پاس خدمات سرانجام دینے کے لیے بہت مختصر مدت ہے۔ اس لیے کہ جہاں کہیں بھی رد انقلابی قوتیں موجود ہوں، وہ ہمیشہ اس تصور کے ساتھ غرور اور تکبر کے نشے میں مست رہتی ہیں کہ ہمارے سر پر آقا کا دست شفقت ہے۔ میں دو دہائیاں قبل کہہ چکا ہوں کہ آزادی کے اعلان کے بعد بھی یہ لوگ کوئی بھی ایسا کام کرنے میں ہچکچائیں گے جس سے انہیں اپنے آقاؤں کے ناراض ہونے کا خدشہ ہو۔

ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ آج آپ نے دنیا کو باور کرایا ہے کہ آپ کی آواز نہیں سنی جاتی حتٰی کہ آپ ان کی پارلیمنٹ کی عمارتوں کے سامنے احتجاج کرتے ہیں اور عدالتوں سے رجوع کرتے ہیں۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ عدالتیں کیسے چلتی ہیں۔ یہ عدالتیں ہمارے خلاف استعمال ہو رہی ہیں ۔ وہ فوج کی حمایت کر رہی ہیں۔ وہ کبھی بھی (پاکستانی) فوج کی خواہشات کے خلاف کوئی بھی فیصلہ نہیں دیتیں۔ آپ واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ ان کی سپریم کورٹ / ہائی کورٹ کے حج کیسے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دوسری طرف ان کی اسمبلیوں کے اراکین ہیں جو قانون سازی کرتے ہیں۔ وہ پنجابی قابضین کے قبضے کو متحکم رکھنے کے لیے قانون سازی کرتے ہیں۔ میں مزید کہنا چاہوں گا کہ چند ( بلوچ) شخصیات کہتے ہیں کہ ہم بلوچستان کے حقوق جمہوری طریقے سے حاصل کریں گے۔ میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں: 1988 سے لے کر آج تک آپ نے کیا حاصل کیا ہے، جو کچھ آپ کے پاس تھا اسے گنوانے کے علاوہ؟ یہ مقننہ ہمارے خلاف قانون بناتی ہے۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ ریکوڈک جیسے منصوبے جن کی مالیت ایک ٹریلین ڈالر بتائی جا رہی ہے، جس سے پاکستان کے تمام قرضے ادا کیے جاسکتے ہیں، انہوں نے اس معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے ایک ایسے شخص کو چنا جس نے اپنے حلقے میں محض 500 ووٹ حاصل کیے اور وہ عوامی نمائندہ بن گیا۔

اللہ نذر بلوچ نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ برطانوی استعمار کی طرح جس نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے خدمات سرانجام دینے والوں کو نواب کے خطاب سے نوازا، انگریزوں کی بنائی ہوئی پاکستان فوج آج بھی برطانوی سامراجی پالیسیوں پر عمل پیرا ہوتے ہوئے تمغہ جرات، ستارہ امتیاز وغیرہ عطاء کر رہی ہے۔ آپ حیران رہ جائیں گے کہ نواب ہونے پر فخر کرنے والے لوگ بھی ان تمغوں سے نوازے جانے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ نوابوں نے برطانوی استعمار کی خدمت کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ انہوں نے برطانوی فوج کی مدد کی اور انہیں نواب کے القابات، زمینوں اور بڑی جائیدادوں سے نوازا گیا۔

انہوں نے کہا ہے کہ آج وہ ہمارے ان لوگوں کو ستارہ امتیا ز دے رہے ہیں جو ان کی خدمت گزاری کر رہے ہیں ۔ وہ ضمیر فروش ہیں ۔ عام بلوچوں کو اس بات کو گہرائی سے دیکھنا چاہیے کہ اس جنگ میں تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے بلوچ سرگرم عمل ہیں۔ چاہے وہ چرواہے ہوں، کسان ہوں ، نوجوان ہوں، طالب علم ہوں ، تاجر ہوں ، ٹرانسپورٹرز ہوں، مختلف مکاتب فکر کے لوگ ہوں ، ان سب کا پسینہ اور خون بلوچ کاز میں شامل ہے۔ بلوچ وطن ہمارا مادروطن ہے۔ اور آپ دیکھیں کہ اسے بیچنے کے لیے کس قسم کی سازشیں رچی جارہی ہیں ۔ میں کہوں گا کہ جو بھی ان کے تمغہ جرات اور وفاداری کے سرٹیفکیٹ قبول کرتا ہے انہیں شرم آنی چاہیے۔

ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ بلوچ قوم کو سلام کہ انہوں نے حال ہی میں ہونے والے نام نہاد انتخابات میں تمام اراکین پارلیمنٹ کو مستر د کر دیا ! خبر یہ ہے کہ انہوں نے تربت سے ایک ایسے شخص کو قومی اسمبلی کا رکن منتخب کرایا جس کے بارے میں ہم نے کبھی نہیں سنا چونکہ میں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ وہیں گزارا ہے۔ امام بھیل بھی ابھرا جو بلوچ عوام کا قاتل اور منشیات فروشوں کا سرغنہ ہے۔ ملک شاہ سمیت دیگر لوگ بھی اسی طرح منتخب ہوئے۔ مختصر یہ کہ ان کی لگام پاکستان آرمی کے سیکٹر کمانڈر، یا کسی کرنل کے ہاتھ میں ہے۔ کرنل بھی نہیں بلکہ کسی کم درجے کا میجر یا کوئی حوالدار ہوتا ہے جو ان سے ڈیل کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مجھے یاد ہے کہ سردار عطاء اللہ کو کسی نے اطلاع دی کہ فلاں صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے کہا: میں جانتا ہوں کہ اس کے پاس کسی حوالدار کی طرف سے بھیجا گیا کوئی پیغام ہوگا، وہ شخص ان کے ہم عصروں میں سے تھا۔ زیادہ تر اسمبلی ممبران میرے ہم عمر ہیں اور ہم ایک دوسرے کو اچھی طرح سے جانتے اور سمجھتے ہیں ۔ ہم جانتے ہیں کہ کون کس کے مفادات کیلئے خدمات سر انجام دے رہا ہے اور کس کی ہدایات پر عمل درآمد کر رہا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ انہیں ان کی “شٹ اپ کال” کون دیتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ بلوچ نسل کشی میں ان کا کیا کردار ہے۔

انہوں نے مزید کہا ہے کہ ایک شخص جو 2013 سے لے کر 2016 تک وزیر اعلیٰ بلوچستان رہا، دعویٰ کرتا ہے کہ فوج نے ان سے مشاورت نہیں کی۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ صرف ایک ہی علاقے میں 700 سے زائد لوگ مارے گئے ، 3500 سے زیادہ گھر جلائے گئے ۔ میں پورے بلوچستان کی بات نہیں کر رہا۔ یہ سب اس آدمی کے کھاتے میں جاتے ہیں۔ مگر پھر بھی اصرار کرتا ہے کہ اگر مجھے وزیر اعلیٰ رہنے دیا جاتا تو میں کیچ کو لاہور بنا دیتا۔

انہوں نے کہا ہے کہ اور کوئی اٹھ کر بلوچوں کے مصائب سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے اور “حق دو تحریک” بناتا ہے۔ بغاوت کا اعلان کرتا ہے، مسلح جدو جہد کی ڈھینگیں مارتا ہے اور آخر کار کور کمانڈر کے بغل گیر ہوتا ہے اور چینی سفیر سے ملتا ہے۔ انہیں اسمبلی کی نشست دی جاتی ہے اور بتایا جاتا کہ آپ کی اوقات بس یہی ہے۔

ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ بات سیدھی سادی سی ہے: تحریک آزادی میں کوئی دوہرا معیار اور فریب نہیں چل سکتا۔ اگر ہماری قوت فیصلہ مضبوط نہ ہوئی، ہماری قربانی دینے کے عزم میں کمی واقع ہوئی تو آج وہ دشمن جو آپ کے ہاتھوں مکمل طور پر پست حوصلہ مستر داور شکست خوردہ ہے، اس کے حامی ہمارے قومی مقصد اور بلوچ وطن کو بیچ ڈالیں گے۔ ایک شخص جو نواز شریف کے ساتھ ملا ہوا ہے، چین کا دورہ کرتا ہے، بلوچستان کی نمائندگی کرتا ہے، پھر بھی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ہمیں معلوم نہیں تھا کہ آیا وہ گوادر شہر کو چاروں اطراف سے باڑ لگا کر سیل کریں گے یا نہیں۔ اول تو پھر آپ نے اس میں شرکت ہی کیوں کی ؟ دوسرا کہتا ہے میں اسمبلی میں ہوں لیکن کوئی کسی معاملے پر ہم سے بات نہیں کرتا۔ پھر آپ ان نام نہاد اسمبلیوں میں کر کیا رہے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ آپ مراعات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، پیسے لے رہے ہیں، ٹھیکے لے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آج بلوچستان میں ایک نئی ایلیٹ کلاس سامنے آئی ہے۔ میں سرداروں کی بات نہیں کر رہا۔ اس ایلیٹ کلاس کو کس نے پیدا کیا ہے؟ رد انقلابی قوتوں نے ۔ انہیں ٹھیکے دیئے جاتے ہیں ، ڈرگ مافیا سے پیسے ملتے ہیں۔ انہیں سب کچھل رہا ہے۔ اور یہ سب کچھ بلوچستان سے بلوچ آزادی کی تحریک کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ وہ ایسے لوگوں کو سامنے لا رہے ہیں جو فصاحت سے بولنا تک نہیں جانتے۔

مزید کہا ہے کہ میری بلوچوں سے اپیل ہے کہ ان کی عدالتوں اور اسمبلیوں پر کبھی بھی اعتماد نہ کریں۔ اور نہ ہی یہ لوگ آپ کے بھروسے کے لائق ہیں۔ بلوچ قوم کی منزل آزادی ہے۔ بحیثیت قوم ہمارا ایمان ہے کہ ہم اپنے بچے قربان کر دیں گے لیکن اپنی جد و جہد نسل در نسل جاری رکھیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ایک دانا نے کہا کہ ”آزادی کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو آپ کو پلیٹ میں پیش کی جائے ۔ آزادی کے لیے خون پسینہ بہانے کی ۔“‘ ضرورت ہے۔ آپ کو اپنی آدھی روٹی اپنے بھائی کے ساتھ بانٹنے کی ضرورت ہے۔ بلوچو! چاہے آپ بلوچستان میں ہوں یا بیرون ملک آپ کو اپنی آدھی پونجی اپنے بھائیوں کے ساتھ بانٹنے کی ضرورت ہے۔ کسی کو گولی یا بندوق کی ضرورت ہو سکتی ہے یا کسی اور چیز کی، یہ آدھا انہیں دشمن کو بے قابو ہونے سے روکنے میں مدد دے سکتا ہے۔ اور دشمن بہت ساری جگہوں سے پیچھے ہٹ بھی چکا ہے۔ آج عالمی اداروں کو بھی احساس ہو رہا ہے۔ یہ کہ لاکھوں بلوچ لاپتہ ہیں۔ یہ کہ پاکستان ایک مصنوعی ہستی ہے۔ یہ کہ پاکستان ظلم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ کہ پاکستان انگریزوں کی تخلیق کردہ شے ہے۔

انہوں نے مزید کہا ہے کہ میں افغانوں اور پشتونوں سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کبھی بھی بلوچوں اور پشتونوں کو امن وسکون سے زندہ نہیں رہنے دے گا۔ کیونکہ جس طرح بلوچوں اور پشتونوں نے برطانوی جارحیت کے خلاف مزاحمت کی وہ کسی اور نے نہیں کی۔ اور پنجابیوں نے ان کی تابعداری کی ۔ اسی لیے بلوچوں اور پشتونوں کو اس کی سزادی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ لہٰذا ، بلوچ اور بلوچستان ، جو کہ دیوان خاص اور دیوان عام پر مشتمل تھے، کی اپنی تسلیم شدہ سرحد میں تھیں، بلوچ عوام کو اسی خود مختاری کودوبارہ حاصل کرنے کے لیے کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔

آخری سانس اور لہو کے آخری قطرے تک !
میں پوری قوم سے اپیل کرتا ہوں کہ متحد ہو جاؤ!

انہوں نے کہا ہے کہ جس طرح آپ نے دشمن کے وجود کے مرکزے کو کاری چوٹ پہنچائی ہے اس سے دشمن بھی بھانپ رہا ہے۔ یہاں تک کہ ان کے ڈمی وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے بھی تسلیم کیا کہ یہ ایک آزادی کی تحریک ہے۔ انہوں نے یہ تسلیم کر کے ہمارا بوجھ ہلکا کیا ہے کہ ہم آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں۔ بلا شبہ ہم آزادی کے لیے لڑ رہے تھے اور لڑ رہے ہیں ۔ ہم نے دنیا کو یہ حقیقت تسلیم کروائی ہے کہ ہماری جدوجہد آزادی کے لئے ہے۔ نہ تو چین اور نہ ہی کوئی دوسرا ملک، جہاں بیرک گولڈ کمپنی قائم ہے، کامیاب ہوگا، جب تک کہ بلوچوں کی مرضی ، منشاء اور رضامندی شامل نہیں ہوتی۔

مزید کہا ہے کہ بلوچ قوم سے ایک اور گزارش ہے کہ دشمن سے کبھی بھی انصاف کی امید نہ رکھیں۔ اگر یہ ایک بہادر اور غیرت مند دشمن ہوتا تو بے شک کوئی اس کی توقع رکھ سکتا ہے۔ لیکن اس دشمن میں ان تمام خصوصیات کا فقدان ہے۔

آخر میں میں تمام بلوچ شہداء کو سلام پیش کرنا چاہتا ہوں ، قوم کے ہر جوان اور بزرگ کو جنہوں نے اس مقصد کے لیے اپنا کردار ادا کیا ہے اور کر رہے ہیں۔ ان کی غالب اکثریت قومی مقصد کے ساتھ ہیں ماسوائے ایک چھوٹی سی اقلیت کے جو 2 سے 3 فیصد ہیں۔ ان میں سے کچھ ٹھیکیدار ہیں، سرکاری ملازمین، اراکین اسمبلی ، یہ محض 2 سے 3 فیصد ہیں۔ اس مقصد کے لیے بلوچ عوام کا تعاون قابل ستائش ہے۔ وہ نہ صرف ہماری بلکہ ہر اس شخص کی حمایت کر رہے ہیں جو آزادی کی جدو جہد میں سرگرم عمل ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ ہم اپنی آزادی دوبارہ حاصل کر لیں گے اور آپ کے تعاون سے ہم اسے جلد حاصل کریں گے۔
کبھی نہ جھکیں!
کبھی پیچھے نہ ہٹیں!

بلوچی کہاوت ہے: ” قومیں کبھی مرنے سے ختم نہیں ہوتیں بلکہ نا اتفاقی سے۔“ یہاں تک کہ ایک قوم کی ساری فوجیں نیست و نابود ہوجائیں ، وہ بار بار ایک نئے ولولے کے ساتھ پھر سے ابھرتی ہیں۔

غدار کو خوشحالی نصیب نہیں ہوتی۔“ جیسا کہ بلوچ کہتے ہیں: کاسہ لیس کبھی نہیں پھلتے پھولتے ۔ برعکس اس کے تباہ شدہ فوجیں پھر سے آباد ہو کر دوبارہ متحرک ہو جاتی ہیں۔

میں آپ سے استدعا کرتا ہوں، متحد ہو جاؤ! اور جد و جہد آزادی کا ساتھ دو! چاہے آپ کہیں بھی ہوں ۔ جو بھی شخص کسی بھی طرح کوئی اقدام اٹھاتا ہے یا پہل کرتا ہے وہ ہماری نظر میں سب سے زیادہ قابل احترام ہے۔

آزادی کی جدوجہد قائم و دائم رہے! بلوچ شہداء کو لاکھوں سلام! ان بلوچ عوام کو لاکھوں سلام جو دل کھول کر ہماری مدد کر رہے۔ مجھے یقین ہے کہ بلوچ عوام مطلوبہ منزل کی طرف گامزن ہوتے ہوئے اپنے اتحاد کو متحکم رکھیں گے۔

جیسا کہ مبارک قاضی صاحب کہتے ہیں : ” جد و جہد آزادی کبھی پرانی نہیں ہوتی ۔ اگر کوئی اس کے برعکس کہے تو سمجھو وہ جھوٹ ہے۔

ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ میں بابا خیر بخش مری کا حوالہ دینا چاہوں گا: ”ہم اپنی آزادی کے حصول میں جتنی تاخیر کریں گے دشمن ہمارے وسائل کو اتنا ہی زیادہ لوٹے گا ۔ اس لیے ہمیں اپنی جنگ کی شدت کو بڑھانا چاہیے اور ساتھ ساتھ بلوچ عوام کو بھی اپنا حصہ بڑھانا چاہیے۔

آخر میں ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچ آزادی کی جدو جہد بلوچ قوم ، بلوچ شہداء، بلوچ سرمچار ، بلوچ کسان ۔۔۔ آپ سب سلامت رہو!