بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں زرعی زمینوں پر سیکیورٹی کے نام پر باڑ لگا کر مقامی زمینداروں کو نان شبینہ کا محتاج بنایا جا رہا ہے اور بلوچ عوام کو باور کرایا جارہا ہے کہ وہ ایک مقبوضہ علاقے میں رہتے ہیں۔
ان کا کہنا کہ تھا کہ گزشتہ سالوں میں گوادر سیف سٹی کے نام سے ایک منصوبہ شروع کیا گیا جس کا واحد مقصد بلوچ ساحل کی لوٹ مار میں تیزی لانا تھا۔ اس سیف سٹی منصوبے کے تحت گوادر شہر کو چاروں طرف سے باڑ لگا کر بند کرنا تھا لیکن بلوچ سیاسی تنظیموں اور بلوچ عوام کی زبردست مزاحمت کے بعد اس منصوبے کو عملی جامہ پہنایا نہیں جاسکا اور اب ایک مخصوص علاقے جہاں اکثر زرعی اراضی ہے اور مقامی لوگوں کے روزگار کا واحد ذریعہ یہی اراضی ہے کو سیکیورٹی کے نام پر باڑ لگا کر بند کیا جا رہا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ گوادر کے کٹھ پتلی رکن صوبائی اسمبلی باڑ سے متعلق آفیشل میٹنگ میں موجود تھے اور اس گھناؤنے عمل میں وہ براہ راست شریک ہیں۔بی ایس او ریاستی حکام، نام نہاد نمائندوں و کٹھ پتلی صوبائی حکومت کو تنبیہ کرتی ہے کہ اس منصوبے کو فی الفور روکا جائے بصورتِ دیگر شدید عوامی ردعمل کے لیے تیار رہیں۔