بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں جبری گمشدگیوں کیخلاف احتجاجی دھرنا دینے والے خواتین مظاہرین پر پولیس کی تشدد، مزید تین نوجوان حراست بعد لاپتہ
گوادر کے علاقے شنکانی در میں جاری دھرنے پر پولیس نے ہلہ بول دیا ہے، دھرنے پر موجود خواتین کو گھسیٹا گیا جبکہ وہاں موجود تین نوجوانوں کو بھی حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا ہے۔
احتجاجی دھرنا گذشتہ سال دسمبر میں جبری لاپتہ لالا رفیق کی عدم بازیابی کیخلاف دیا جارہا تھا۔ لالا رفیق کو گوادر جاوید کمپلیکس سے بچوں سمیت اغواء کیا گیا تھا جبکہ بعدازاں بچوں کو چھوڑ دیا گیا تاہم تین مہینے گذرنے کے بعد بھی وہ بازیاب نہیں ہوسکے۔
مظاہرین خواتین کا کہنا ہے کہ اپنی پیاروں کی عدم بازیابی کیخلاف دھرنا دے رہے تھے کہ پولیس کی متعدد گاڑیوں پر مشتمل نفری یہاں پہنچی جن کے ہمراہ خواتین اہلکار بھی شامل تھے۔
ان کا کہنا ہے پولیس اہلکاروں نے خواتین و بچوں سمیت دیگر کو تشدد کا نشانہ بنایا، ہمارے دوپٹے کھینچ کر ہمیں سڑک پر گھسیٹا گیا جبکہ تین نوجوانوں وہاب، اصغر اور وحید کو پولیس اپنے ہمراہ لے گئی۔
خواتین مظاہرین نے کہا کہ اس دوران پولیس نے ‘یاسین شریف’ کو بھی شہید کیا۔
ضلعی حکام نے تاحال اس حوالے سے کوئی موقف پیش نہیں کیا ہے۔
خیال رہے اس سے قبل بھی بلوچستان کے مختلف علاقوں میں جبری گمشدگیوں کیخلاف ہونے والے مظاہروں میں شریک خواتین و دیگر کو فورسز کی جانب سے تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
رواں سال اسلام آباد میں جبری گمشدگیوں و بلوچ نسل کشی کیخلاف لانگ مارچ کے شرکاء جب اسلام آباد پہنچے تو انہیں آدھی رات کو پولیس نے موٹر وے پر تشدد کا نشانہ بنایا جبکہ ڈاکٹر ماہ رنگ سمیت متعدد کارکنان و لواحقین کو حراست میں لیا گیا تھا۔