پیاسِ زیشان
تحریر: میرک مرید
دی بلوچستان پوسٹ
جب کوئی انسان حقیقی عشق میں مبتلا ہوتا ہے تو اس کی ساری کائنات وہی عشق بن جاتی ہے۔ مجھے باقی عاشقوں کی خبر نہیں لیکن زمین کے عاشقوں کو زمین کے مہر میں مر مٹتے دیکھا ہے۔ شاید میری اور آپکی نظر میں یہ مر نا اور مٹنا ہے لیکن اُن عاشقوں کے لئے یہ بقائے زندگی ہے۔ انہی عاشقوں میں شامل ایک زیشان زہری، جو وطن کے عشق میں مست او مگن ہو کر اپنے عشق میں فدا ہوا۔
زیشان سے میری پہلی ملاقات ‘زہری’ کے قریبی پہاڑوں میں ہوا جہاں وہ کام کے سلسلے میں شہر کے نزدیک آیا ہوا تھا۔ زیشان کے ہمراہ دیگر سنگت بھی تھے۔ زیشان اور دوستوں سے سلام دعا ہوا، گپ شپ ہوا اس وقت سب سنگت شاید بہت تھکے ہوئے تھے، اسی وقت زیشان نے چائے کا ایک پیالہ میرے سامنے رکھ کر مسکراتے ہوئے نرم لہجے میں کہا سنگت چائے۔اس وقت تقریباً شام کے چھ بجے تھے، میں نے کہا سنگت بہت تھکا ہوا ہوں۔زیشان پھر سے مسکراتے ہوئے کہنے لگا جی سنگت گذشتہ کچھ دنوں سے ہم مسلسل سفر میں ہیں اسی وجہ سے۔
کچھ دیر بعد زیشان کہنے لگا سنگت آرام کر لو صبح حال حوال کرینگے۔
صبح ساڑے پانچ بجے میری آنکھ کھلی میں نے دیکھا زیشان چائے بنا رہا تھا۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگا اُٹھ گیئے ورنا۔۔۔ اب کچھ دیر میں دوسرے سنگت بھی اُٹھ جائینگے۔ پھر میں اٹھ کر سنگت زیشان کے پاس بیٹھ گیا۔ یہ میری سنگت سے پہلی گفتگو تھی، میں نے زیشان سے کہا ابھی تک سورج میں نکلنے میں بہت وقت ہے تم سو جاتے، سفر کی تھکن ختم ہو جاتی، تو زیشان کے وہ الفاظ مجھے آج بھی یاد ہے، زیشان نے جواب دیا کہ سنگت شاید سونا میرے ذات کو اچھا لگے اور اسے مزید سونے کی تمنا ہو لیکن اس راہ و منزل کا یہی تکاضا ہے کہ ہم پوری طرح اپنی ذات اور ذاتی خواہشات کو قربان کر دے۔ آخر میں مسکراتے ہوئے کہنے لگا آرام کی جگہ تو قبر ہوتی ہے زندگی تو مسلسل جدوجہد کا نام ہے، جمود موت اور حرکت زندگی۔۔۔
کہنے کو تو بس یہ صرف جملے تھے لیکن ان جملوں نے مجھے بہت کچھ سکھا دیا۔ یہ صرف زیشان کی باتیں نہیں تھیں بلکہ میں نے ہر وقت زیشان کو عملاً بھی حرکت میں دیکھا۔ میں اس کیمپ میں بیس دن زیشان کے ساتھ رہا۔ ہر صبح وہ سب سے پہلے اٹتا چائے بنا تھا، ہر وقت اپنا بندوق صاف اور تیار کرتا اور ہر صبح گشت کے لیئے نکلتا اور ہمیشہ الرٹ رہتا، رات کو جب ہم سو رہے تھے میں نے زیشان سے کہا صبح گشت پر مجھے بھی ساتھ لے جانا، زیشان نے کہا سنگت ٹھیک ہے صبح جب زیشان اٹھا تو میری بھی آنکھیں کھلی، زیشان نے چائے بنایا اور کہنے لگا آپ کا بندوق کلیئر ہے۔ میں نے کہا جی سنگت کلیئر ہے، ہم نے چائے پی لی اور گشت پر نکلیں۔
تھوڑی دیر خاموشی کے ساتھ چلتے رہیں اور سنگت زیشان چاروں طرف دوربین کرتا رہا اور میں نے ہنس کر سنگت سے کہا یہ جگہ کلیئر ہے یہاں کوئی نہیں آئے گا۔ سنگت نے مسکراتے ہوئے کہا دشمن ہم پر کہیں بھی وار کرسکتا ہے، چھوٹی سی غلطی کی وجہ سے ہم سے ہمارے عظیم دوست جدا ہوئے ہیں، بولے اگر ہم لاپرواہ رہیں تو ہم میں اور کریہ دار فوجیوں میں فرق نہیں ہوگا وہ بس تنخواہ کے لیے لڑتے ہیں اور ہمارا ایک عظیم مقصد قومی فکر اور نظریہ ہے اور ہماری جان و زندگی اسی نظریہ فکر کی ہے اور ہم پر ہماری یہ زندگی قوم کی امانت ہے، ہم پر اس کا کوئی اختیار نہیں، جب تم اس راہ پر نکلے ہو تو پھر تماری پوری وجود اس مقصد فکر نظریہ اور قوم کی امانت ہے، ہمارے پاس بس ہماری قوم کی آزادی اور اس سے کم تر ہے تو وہ ہماری شہادت ہے۔ بولے؛ سنگت کبھی بھی لاپرواہی سُستی کاہلی مت کرنا کیونکہ جب تم ایسا کروگے تو سمجھ لینا کہ قومی امانت کے ساتھ بے ایمانی کر رہے ہو۔ اسکے بعد ہم مزید گشت کرتے ہوئے آگے نکل گئے۔ ہم چار گھنٹے متواتر گشت کرتے کرتے اپنے کیمپ واپ پہنچ گئے۔ میں تھکن کی وجہ سے آرام کرنے لگا لیکن سنگت اپنے دوسرے کاموں میں مصروف ہوگیا۔
جتنے دن میں سنگت کے ساتھ رہا میں نے سنگت کو حرکت میں دیکھا، بیٹھے ہوئے وقت گزاری کرتے کبھی نہیں دیکھا۔ اب سنگتوں کو سفر کے لئے آگے نکلنا تھا اور میرا سفر ان کے ساتھ یہی ختم ہونے والا تھا۔ سب سنگتوں کو رخصت کر کے زیشان کے پاس چلاگیا اس نے رخصتی کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے مسکراکر کہا یہ تنظیم کبھی مہربان اور کبھی ظالم ہوتی ہے کبھی ان دوستوں سے ملاتی اور پھر ان سے جدا بھی کرواتی ہے اور زور سے ہنستے ہوئے بولے عشق زمین تو یہی ہوتی ہے اور میں نے کہا رخصت اف اوارن سنگتاک اور زیشان نے جواب دیا “اواری ءِ قربان آخری دم اسکان” اور پھر اپنے سفر پر نکل گئے۔
٢٩ جنوری کی رات کو جب سنگت فاروق بارود سے بھری گاڑی کو مچھ کے ایف سی کیمپ سے ٹکراتا ہے تو اس وقت میں شور کے سرد پہاڑوں میں پتہ نہیں کس سوچ او فکر میں گُم تھا تب ہی نیٹ ورک پر موجود سنگت کی جانب مخابرہ کی آواز آئی کہ مچھ بولان میں فدائین کا حملہ شروع ہوا ہے تو میں اپنے سوچ سے نکل کر نیٹورک کی طرف نکل گیا جب میں وہاں پہنچا تو سنگت زرین اور سنگت ریاست بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے پوچھا کیا احوال سنگت، سنگت زرین جوش سے بولا بولان، مچھ شہر کو بی ایل اے فتح اسکواڈ، ایس ٹی او ایس اور مجید بریگیڈ کا مکمل کنٹرول میں لے لیا ہے اور پھر ہکل میڈیا پر سنگتوں کے وائس آتے رہیں، ان آوازوں میں ایک آواز جانا پہچان سنگت زیشان کا تھا، اس وائس کو سن کر میرا دیہان ان لمحو کی طرف گیا جو میں نے زیشان کے ساتھ بتائے تھے۔
زیشان کی ہر وہ بات مجھے یاد آرہی تھی کہ یہ جان ہماری نہیں قوم کی امانت ہے اور آج واقعی مکمل مخلصی اور بہادری کے ساتھ تم قوم کی امانت قوم کے حوالے کر رہے تھے، وہ تین دن متواتر دشمن کے ساتھ بہادری کے ساتھ لڑتے رہیں اس لڑاہی کے دوران سنگت زیشان کا زخیرہ پانی مکمل ختم ہوچکا تھا، شدید پیاس کے باوجود دشمن سے شدت کے ساتھ لڑتا رہا ایک لمحہ ایسا آیا کہ اس نے شدت پیاس کی وجہ سے کمانڈر سے کہا کہ مجھے اجازت دی جائے کہ میں آخری گولی کا فلسفہ کو اپنا کر شہادت قبول کر لوں تاکہ دشمن کے ہاتھوں زندہ نا لگ جاؤ اور کمانڈر نے کہا نہیں ابھی تمہیں اور جنگ لڑنا ہے، اس شدید پیاس اور تشنگی میں سنگت مزید دو گھنٹے دشمن سے بہادری کے ساتھ لڑتا رہا دو گھنٹے کے بعد کمانڈر کو کال کر کے اپنے آخری الفاظ بولتا ہے؛ ‘اوارن سنگت، اپنا اور دوستوں کا بہت بہت خیال رکھنا، اللہ آپ سب دوستوں کو سلامت رکھے۔ میں اب چلا۔۔۔ میں اب چلا؛۔
سنگت زیشان اپنی پیاس لیکر وطن پر قربان ہوا اب سنگت زیشان کے پیاس کو ہر سنگت کو اپنے حلق میں محسوس کر کے اُس پیاس کو چشموں میں بدلنا ہے او ان چشموں کا رخ منزل آجوئی کی طرف ہونا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔