مارچ حملے، پاکستان و چین کیلئے ڈراؤنے خواب
تحریر: باہوٹ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
گذشتہ مہینے بلوچستان میں پاکستانی فوج و چینی مفادات سے جڑے علاقوں کو پے درپے حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ سی پیک کے دل گوادر اور پاکستانی فوج کے نیول بیس کو دو بڑے حملوں میں نشانہ بنانے کیساتھ پاکستان فوج کے پیٹرولنگ پارٹی اور فوج سے جڑے کمپنیاں حملوں کی زد میں رہیں۔
مارچ کی بیس تاریخ کو گوادر پورٹ اتھارٹی کمپلیکس اور پانچ روز بعد پچیس تاریخ کو تربت شہر میں پاکستان کے دوسرے بڑے نیول بیس کو بلوچ لبریشن آرمی کی مجید برگیڈ نے شدید نوعیت کے حملوں میں نشانہ بنایا۔ یہ حملے کئی گھنٹوں تک جاری رہے۔
گوکہ گوادر حملے میں پاکستانی خفیہ اداروں آئی ایس آئی اور ایم آئی کے دفاتر کو نشانہ بنایا گیا تاہم انتہائی سخت سیکورٹی زون میں مجید برگیڈ کے ارکان کا پہنچ کر آپریشن کا آغاز کرنا سی پیک پروجیکٹ سے جڑے وہاں پر موجود چینی انجینئرز و ورکرز کی حفاظت کیلئے اٹھائے گئے حفاظتی اقدامات پر سوالات کو جنم دیتی ہیں۔
پاکستان میں سی پیک کے منصوبوں پر کام کرنے والے چینی شہریوں کی حفاظت کیلئے ایک ڈویژن موجود ہے جس کی سربراہی پاکستانی فوج کے ایک میجر جنرل کرتے ہیں۔ سی پیک سے جڑے افراد کی حفاظت کیلئے گوادر میں متعدد چیک پوائنٹس پر سینکڑوں اہلکار تعینات رہتے ہیں جبکہ پورٹ و اطراف میں سرویلنس کیمروں کا جال بچھایا گیا ہے۔
ماضی میں ہونے والے حملوں کے بعد ایک انٹرویو کے دوران چین میں پاکستان کے سابق سفیر معین الحق کا کہنا تھا “ہم نے چینیوں اور سی پیک منصوبوں کے لیے سیکیورٹی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے بہت کوششیں کی ہیں۔ “مثال کے طور پر، ہم نے سی پیک منصوبوں کی حفاظت کے مقصد کے لیے 3000 کی فورس قائم کی، جس میں دو آرمی ڈویژن شامل تھے۔”
گوادر پورٹ اتھارٹی کمپلیکس پر حملے کی ذمہ داری بلوچستان میں متحرک بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی۔ ترجمان جیئند بلوچ نے بیان میں بتایا کہ یہ حملہ بی ایل اے – مجید برگیڈ نے ‘آپریشن زرپہازگ’ کے تحت کی ہے۔
جیئند بلوچ نے کہا کہ “یہ حملہ ان تمام بیرونی سرمایہ کاروں کیلئے ایک پیغام ہے جو پاکستانی ریاست اور فوج کی جھوٹی تسلیوں پریقین کرکے گوادر اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اگر بی ایل اے پاکستانی ریاست کے سب سے زیادہ سکیورٹی میں رہنے والے سب سے اہم خفیہ اداروں کے مرکزی دفتر پر حملہ آور ہو کرکئی گھنٹوں تک دشمن اہلکاروں کو نیست و نابود کرسکتی ہے تو وہ کسی بھی شہر اور علاقے میں باآسانی پہنچ سکتی ہے۔”
یہ حملے ایک ایسے موقع پر سامنے آئیں جب ایک مہینے قبل ہی بلوچ لبریشن آرمی نے ایک حملے میں بولان کے شہر مچھ میں پاکستان فوج کے ہیڈکوارٹرز اور دیگر عسکری و سرکاری تنصیبات پر بیک وقت حملہ کرکے شہر کا کنٹرول دو روز تک سنبھالے رکھا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ بی ایل اے – مجید برگیڈ کے حملوں میں روز بروز شدت آرہی ہے، درج بالا تینوں حملوں میں مجموعی طور پر 24 ‘فدائین’ نے حصہ لیا۔ یہ فدائین کوئٹہ سے لیکر کیچ، گوادر، نواب شاہ (سندھ) سمیت دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے ہیں جو واضح کرتی ہے کہ بلوچ نوجوان ‘وطن یا کفن’ کا فیصلہ کرچکے ہیں۔ ان فدائین میں وہ نوجوان بھی شامل ہے جو لکھاری، شاعر، اعلیٰ تعلیمی سند یافتہ تھے۔
بی ایل اے کے آپریشن زرپہازگ (تربت) اور آپریشن درہِ بولان (مچھ) میں بی ایل اے کو بلوچ مسلح تنظیموں کے اتحاد بلوچ راجی آجوئی سنگر (براس) کی مدد حاصل تھی۔ مجید برگیڈ کے بعد ‘براس’ بھی بلوچستان بھر میں پاکستانی فوج پر شدید نوعیت کے حملے کرچکی ہے۔ مذکورہ ‘آپریشنوں’ میں براس کی کمک دیگر آزادی پسند تنظمیوں کیجانب سے ‘فدائین’ حملوں کی واضح حمایت کے طور پر دیکھی جارہی ہے۔
محض ایک ہفتے کے دوران پاکستانی عسکری تنصیبات پر بڑے نوعیت کے دو حملے پاکستانی فوج اور چین کے لیے ایک ڈراؤنے خواب جیسے ہیں۔ یہ حملے ثابت کرتے ہیں کہ بلوچ سرمچار (مسلح آزادی پسند) کبھی بھی اور کہیں پر حساس ترین مقامات کو نشانہ بنانے کی قابلیت رکھتے ہیں۔ یہ حملے نہ صرف چین بلکہ بلوچستان میں سرمایہ کاری کی سوچنے والوں کیلئے واضح پیغام ہے کہ یہاں پر ان کا سرمایہ محفوظ نہیں ہے۔
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواء کے علاقے بشام میں سی پیک سے منسلک چینی انجینئرز پر ہونے والے حملے پر حال میں سینٹ قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے چیئرمین رہنے والے مشاہد حسین نے بی بی سی کو بتایا ‘جب بھی پاکستانی وزیر اعظم اور صدر کی ملاقات چینی رہنماؤں سے ہوتی ہے تو ‘چینی شہریوں کی سکیورٹی کا معاملہ چینی رہنماؤں کی طرف سے ترجیحی بنیاد پر اٹھایا جاتا ہے۔’
یہ حملے یقینی طور پر چینی حکام کیلئے پریشان کن ہیں کہ حساس اداروں کے دفاتر اور نیول بیس محفوظ نہیں تو چینی انجینئرز و ورکرز کے حفاظت کی ضمانت کیسے ممکن ہوسکتی ہے۔
حالیہ گوادر حملے کے بعد حکام چیک پوسٹوں و اہلکاروں کی تعداد میں ممکنہ طور پر مزید اضافہ کرینگے جبکہ شہر میں ‘باڑ’ لگانے کی تجاویز بھی زیرغور ہیں، تاہم مقامی افراد شہر کو دو حصوں میں بانٹنے کی پہلے ہی مخالفت کرچکے ہیں۔
بلوچ آزادی پسندوں کے حملوں میں روز بہ روز شدت ان کی پالیسی و طریقہ کار میں تبدیلی کے باعث دیکھنے میں آرہی ہے۔ بلوچ سرمچار اپنے ‘رینکس’ کو پیشہ ورانہ طور پر تیار کررہے ہیں، جس کے باعث گذشتہ سالوں میں نمایاں حملے دیکھنے میں آئے ہیں جبکہ یہ طریقہ کار آنے والے دنوں میں بلوچستان میں ہونے والی جنگ کی شدت کو بیان کرتی ہے اور پاکستانی عسکری حکام کیلئے یہ ‘ڈراؤنا خواب’ ٹلتے دکھائی نہیں دے رہی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔