قومی مفادات اور جذباتیت
عبدالہادی
دی بلوچستان پوسٹ
ہم اکثر سوچتے ہونگے کہ امریکہ کے پاس ایسا کیا تھا جس نے اتنی ترقی کی اور ہم تیسری دنیا اس کے مقابلے میں اتنے پیچھے کیوں رہ گئے ہیں! انسانی عقل و دماغ تو تقریبا سب ہی انسانوں کو میسر ہے۔ چنانچہ ایسا کیوں ہے کہ وہ سماجی اور معاشی، نیز ہر حوالے سے ہم سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔ آج کی دنیا میں قوموں کے فلاح اور ترقی و خوشحالی غالبا موثر سیاسی تدبیر اور اعلی صلاحیتوں سے مشروط ہوتی ہیں اور یہ عوامل امریکی معاشرے میں پائے گئے اور جاتے ہیں جبکہ ہمارے معاشروں میں نہ ہونے کے برابر نظر آتے ہیں۔
آج کی دنیا میں ایک ریاست کو قائم کرنا اور اسے موثر اور موزوں انداز میں چلانے کیلئے بہت سے طفیلی عناصر اور اصول درکار ہوتے ہیں۔ انسانی تحقیق اور سائنسی تقاضوں کے مطابق کچھ ایسے عوامل ہیں جو ریاست کو غیر فعال اور ناکام کرنے کی وجہ بنتے ہیں۔ ترقی یافتہ اقوام، خاص طور پر امریکیوں نے ان رویوں اور رجحانات سے گریز کیا جو ان کی ترقی و خوشحالی کی راہ میں رکاوٹ تھیں۔ سب سے بڑھ کر انہوں نے جزباتی فیصلوں سے اجتناب کیا جو ہمارے معاشرے کا شاید اب تک کا سب سے بڑا المیہ ہے۔
اس حقیقت سے کوئی بھی آج کی دنیا میں انکاری نہیں کہ سائنسی رویہ اپنانے سے قومیں ترقی کرتی ہیں۔ جذبات سے قوموں کے فیصلے اور ان کےلئے منصوبہ بندی کرنا ہمیشہ ان کی ترقی میں رکاوٹ رہی ہیں۔ یہاں ایک واقعے کا ذکر کرنا ضروری ہے کیونکہ وہ اس مضمون کی اصل موضوع کو سمجھنے میں آسانی پیدا کرے گی۔
ہمارے (تیسری دنیا کے) لوگوں میں اکثر ایک رویہ و ذہنیت پایا جاتا ہے کہ جب ان ریاستوں میں کوئی شہری یا ریاستی اہلکار اپنی قوم یا ملک کیلئے کوئی کارنامہ انجام دیتا ہے، مثال کے طور پر کوئی فوجی یا شہری اپنی قوم یا ملک کیلئے اپنی جان نثار کرتا ہے تو اس قربانی کےلئے طرح طرح کے جذباتی عنوانات لگائے جاتے ہیں اور اسے بہت بڑے ہیرو کے طور پر پیش کرتے ہیں، گرچہ وہ عمل اس قوم و ریاست کے قومی مفاد کے منافی ہی کیوں نہ ہو، یعنی کہ قومی مفادات کے قطع نظر اس عمل کو ظاہر کرنے اور دنیا کے سامنے لانے میں تاخیر نہیں کرتے۔ اس جیسے ذہنیت کے مالک انسانوں کےلئے قومی مفادات سے زیادہ ان کے ایک شخص کی قربانی و کارنامہ زیادہ اہم اور عزیز ہوتی ہے جو کہ ایک جذباتی رویہ کی عکاس ہوتا ہے۔ اس جیسے رویے اور ذہنیت ہی تیسری دنیا کی اور خاص طور پر ہمارے معاشرے کی پسماندگی کے اسباب میں سے ایک ہے۔
امریکہ کی بات کروں تو امریکی قوم کی رویوں یا پالیسیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کئی دہائیوں سے امریکی انٹیلیجنس (سی آئی اے CIA) کے کچھ اہلکاروں نے سرد جنگ، ویتنام وار، اور کئی واقعات یا جنگوں میں ایسے کارنامے اپنے ملک و قوم کی حفاظت اور مفاد و مقصد کیلئے انجان دیں ہیں جن پر امریکی عوام کو اگر معلوم پڑ جائے تو وہ اپنے ان ہیروز کے مدح و ثناء اور خیراج عقیدت کیلئے کیا کچھ نہیں کریں گے! لیکن ابھی تک امریکی حکمرانوں اور زمہ دار اداروں نے اپنے عوام اور دنیا کو اپنے ان ہیروز کے عظیم کارناموں سے بے خبر رکھا ہوا ہے اس لیے کہ یہ عمل ان کے قومی مفاد کے حق میں ہے، ان کے اداروں کی حفاظت اور سلامتی کےلئے ہے، یا ان کے ملک کی مثبت تصویر کو سبوتاژ کرنے سے روکتا ہے۔ امریکہ کیلئے اس کی قومی مفاد و سلامتی اور امیج ان کے شہریوں کے قربانیوں کے خیراج عقیدت سے زیادہ اہم ہیں، جبکہ ہمارے معاشروں میں اس کے برعکس حقائق ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ان امریکی پوشیدہ ہیروز کے نام CIA ہیڈکوارٹر میں کسی خفیہ کمرے کے دیواروں پہ لکھے گئے ہیں۔ ان کے نام اور کارناموں کے تشہیر سے غالبا ملک و قوم کی سالمیت میں بگاڑ آ سکتی ہے اور اس پر امریکی حکمران سمجھوتا کرنے کیلئے کبھی تیار نہیں ہوا اور نہ ہے۔ شاید وقت آنے پر یا جب یہ اس کے مفاد میں ہوگا، یا ان ہیروز کی تشہیر سے ان کے قومی مفاد میں بگاڑ نہیں آ سکے گا تو انہیں ان کی تحسین و آفرین کیلئے اپنے قوم اور عوام کے سامنے لایا جائے گا۔
تاہم ایسے کئی لانگ ٹرم پالیسیز امریکی ریاست نے اختیار کیے ہونگے جو اس کی ترقی اور فلاح کی وجہ بنے ہوئے ہیں۔ امریکہ کی سیاسی تدبیر statecraft میں اس کی جاسوسی تدبیر spycraft ایک بہت مظبوط حکمت عملی ہے جس نے اب تک شاید ہی کوئی غلطی کی گنجائش چھوڑی ہو۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔