غزہ میں لڑائی کے چھ ماہ؛ کیا فوری جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی ممکن ہے؟

244

اسرائیل حماس کی جنگ کو چھ ماہ مکمل ہوگئے ہیں۔ اس جنگ میں مرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے جہاں غزہ کا ہنستا بستا شہر کھنڈر بن چکا ہے۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ وہیں حماس کی جانب سے یرغمال بنائے گئے لوگوں کا مستقبل غیر یقینی ہے۔

خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کی رپورٹ کے مطابق حماس کے ہاتھوں سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملے میں یرغمال بنائے گئے 250 افراد میں سے کچھ تو نومبر 2023 میں عارضی جنگ بندی کے معاہدے کے نتیجے میں رہا کر دیا گیا تھا البتہ باقی افراد کا کیا ہوگا؟ کیا ایک اور جنگ بندی کے معاہدے کے نتیجے میں وہ رہا ہو سکیں گے؟ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے۔

حماس کی تحویل میں ایک یرغمالی نوا ارگمانی ہیں۔ ان کی والدہ لیورا ارگمانی کی اپنی بیٹی سے ملاقات اب ان کی آخری خواہش ہے۔ لیکن حماس کے خلاف اسرائیل کی جنگ کے چھ ماہ گزرنے کے بعد لیورا ارگمانی کو وقت ختم ہوتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔

اکسٹھ سالہ لیورا ارگمانی دماغ کے کینسر کے چوتھے اسٹیج پر ہیں۔ وہ بڑی حسرت سے کہتی ہیں کہ ان کے پاس اب زیادہ وقت نہیں ہے اور جانے سے پہلے وہ ایک بار اپنی بیٹی کو دیکھنا چاہتی ہیں اور اس سے باتیں کرنا چاہتی ہیں۔

نوا ارگمانی کو سات اکتوبر 2023 کو جب حماس نے جنوبی اسرائیل پر حملے میں یرغمال بنایا تھا۔

نوا ارگمانی اس میوزک فیسٹیول میں موجود تھیں جو غزہ کی سرحد کے قریب ہو رہا تھا۔

حماس کے سات اکتوبر کے حملے میں اسرائیل میں 1200 لوگ مارے گئے تھے جب کہ ڈھائی سو لوگوں کو یرغمال بنالیا گیا تھا۔

حماس نے یرغمال افراد میں سے کئی کی ویڈیوز جاری کی تھیں۔ نوا ارگمانی کے اغوا کی ویڈیو سب سے پہلے منظر عام پر آنے والی ویڈیوز میں شامل تھی۔

ان کے انتہائی خوف زدہ چہرے کی تصاویر سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر کی گئی تھیں۔

نوا ارگمانی کو ایک موٹر سائیکل پر دو مردوں کے درمیان اس عالم میں بیٹھے ہوئے دیکھا گیا تھا کہ ان کا ایک بازو پھیلا ہوا تھا اور دوسرا نیچے تھا اور وہ چیخ رہی تھیں کہ انہیں ہلاک نہ کیا جائے۔

چھبیس سالہ نوا ارگمانی کے بارے میں کم ہی خبریں سامنے آئی ہیں۔ لیکن وسط جنوری میں حماس نے ان کی قید میں ایک ویڈیو جاری کی تھی جس میں وہ کمزور لیکن غصے اور دباؤ میں لگتی ہیں اور ان دوسرے یرغمالوں کے بارے میں بات کر رہی تھیں جو فضائی حملوں میں مارے گئے تھے۔

اس ویڈیو میں انہوں نے انتہائی جزباتی انداز میں اسرائیل سے انہیں اور دوسروں کو گھر واپس لانے کا مطالبہ کیا تھا۔

نصف برس سے جنگ جاری ہے اور ارگمانی جیسے خاندانوں کے لیے وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔

جنگ طول پکڑتی جا رہی ہے اور بظاہر اس کا کوئی اختتام نظر نہیں آتا۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ 130 سے زائد یرغمال اب بھی حماس کی تحویل میں ہیں جب کہ ایک چوتھائی یرغمالوں کے بارے میں باور کیا جاتا ہے کہ وہ ہلاک ہو چکے ہیں۔

اسرائیل میں یرغمال افراد کی رہائی کے بارے میں اختلاف بڑھتا جا رہا ہے کہ انہیں واپس لانے کا بہترین راستہ کون سا ہے؟

اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو حماس کو ختم کرنے اور یرغمالوں کو گھر لانے کا عزم ظاہر کرتے رہے ہیں۔ لیکن وہ تھوڑی ہی پیش رفت کر سکے ہیں ان پر استعفے کے لیے دباؤ ہے جب کہ دوسری جانب امریکہ نے غزہ میں بگڑتی ہوئی انسانی صورتِ حال پر اسرائیل کے لیے اپنی حمایت واپس لینے کی دھمکی دی ہے۔

’اے پی‘ کے مطابق اسرائیل کے شہری دو حصوں میں بٹ چکے ہیں۔ ایک وہ ہیں جو چاہتے ہیں کہ جنگ کو روکا جائے اور یرغمالوں کو آزاد کرایا جائے جب کہ دوسرے وہ اسرائیلی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ یرغمال ایک ایسی تکلیف دہ قیمت ہیں جو حماس کو ختم کرنے کے لیے ادا کرنی ہے۔

قطر، امریکہ اور مصر کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات میں بھی خاص پیش رفت نہیں ہوئی۔ یہ مذاکرات کبھی شروع ہو جاتے ہیں جب کہ کبھی رک جاتے ہیں۔

اسرائیلی پارلیمان کی ایک کمیٹی کی حالیہ میٹنگ میں شرکا ایسے پوسٹرز اٹھائے ہوئے تھے جن پر یرغمالوں کی تصاویر تھیں۔

یارڈن گونین کی 23 سالہ بہن رومی کو بھی سات اکتوبر کے میوزک فیسٹیول سے اغوا کیا گیا تھا۔ انہوں نے بھی اس میٹنگ کے دوران اسکے لئے حکومت پر تنقید کی جسے انہوں نے حکومت کی بےعملی کہا۔

یرغمالوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم کس کے لیے لڑ رہے ہیں؟ اس سے زیادہ اہم اور کیا ہے؟

یرغمالوں کے اہلِ خانہ کے ایک فورم کی جانب سے جاری کردہ ویڈیو کے مطابق لیورا ارگمانی کے کینسر کی حالت اور بھی بگڑ چکی ہے۔

اپنے پیاروں کے لاپتا ہونے کا دباؤ لیورا ارگمانی جیسے افراد کے ساتھ ساتھ صحت مند لوگوں کے لیے بھی برداشت کرنا مشکل ہے۔

’اے پی‘ کے مطابق ایک سائیکو انالسٹ آفرٹ شپیرا برمن کے مطابق یہ صورتِ حال کینسر جیسے مرض کو اور بھی بدتر بنا دیتی ہے۔

اور ویڈیو میں نوا کے والد یاکوو ارگمانی اپنے آنسو پیتے ہوئے کہتے نظر آتے ہیں کہ وہ اپنی بیٹی کے حوالے سے ہر چیز کے لئے ترس رہے ہیں

وہ اپنی بات شدت غم کے سبب پوری نہیں کرپاتے۔ بس سر ہلاتے ہیں اور کیمرہ بند ہو جاتا ہے۔