صدف کی تکلیف دہ عید: والد کی جبری گمشدگی کی کہانی ۔ لطیف بلوچ

192

صدف کی تکلیف دہ عید: والد کی جبری گمشدگی کی کہانی
تحریر: لطیف بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

صدف کھڑکی کے پاس بیٹھی چاندنی آسمان کو دیکھ رہی تھی جب نیچے گلیوں میں عید کی خوشیاں گونج رہی تھیں۔ جب ہوا خوشی کے قہقہوں اور پکوانوں کی خوشبو سے بھری ہوئی تھی، اس کا دل والد کی جدائی کے غم کے بوجھ سے بوجھل تھا۔

ان کے والد امیر بخش کو جبری طور پر ان کی زندگیوں سے اٹھائے جانے کو دس سال گزر چکے تھے اور والد کی اچانک جبری گمشدگی نے اپنے پیچھے ایک ایسا خلا چھوڑ گئے جسے پُر کرنا ناممکن نظر آتا تھا۔ اس کی گمشدگی نے ان کے ہنستا، بستا خوش رہنے والے گھر پر غم و انتظار کا ایک سیاہ سایہ ڈال دیا، جس نے ہر خوشی کو والد کی غیر موجودگی میں دردناک تکلیف و اذیت میں بدل دیا۔

صدف جب 5 یا 6 کے تھے ان کے والد کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا تھا، صدف کے ساتھ شاید اپنے والد کے تصویر کے علاؤہ اور کوئی خاص یادیں نہ ہوں اور صدف کو بھی والد کے تصویر کا سہارا ہے، اگر یہ تصویر نہ ہوتی تو صدف کو اپنے وڈ والد کا خد و خال اور چہرہ تک بھی یاد نہیں ہوتی۔

جب دوسرے خاندان اور صدف کی سہیلی تحائف کے تبادلے اور خوشیاں بانٹنے کے لئے اکٹھے ہونگے، صدف بے سہارا ہونے کے درد کے ساتھ تنہائی میں بیٹھے اپنے والد کو یاد کرینگے، ایک بوجھ جو وہ خاموشی سے اپنے جوان کندھوں پر ایک پوشیدہ بوجھ کی طرح اٹھا رہی ہے۔ جب کہ دوسروں نے پدرانہ محبت کی گرمجوشی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے۔

امیر بخش صرف صدف کے باپ نہیں تھے۔ وہ اس کی رہنمائی کی روشنی، اس کی طاقت اور سکون کا ذریعہ تھا۔ اس کی ہنسی ہالوں میں گونجتی تھی، پریشانی کے وقت اس کی تسلی ایک پناہ گاہ کو گلے لگاتی تھی۔ لیکن اب، اس کے پاس جو کچھ تھا وہ دھندلی یادیں تھیں، ماضی کے نازک ٹکڑے جن سے وہ شدت سے لپٹی ہوئی تھی۔

اس خلا کو پُر کرنے کے لیے اس کی والدہ کی بہترین کوششوں کے باوجود، کوئی بھی چیز ناقابل تلافی اس نقصان کی جگہ نہیں لے سکی۔ صدف اپنے والد کی موجودگی، ان کی حوصلہ افزائی کے الفاظ، اس کے ساتھ گلے ملنے کی گرمجوشی کے لئے پچھلے دس سال سے تڑپ رہی ہے۔ ایسی بہت سے کہانیاں ہیں، ایسی بہت سے بیٹیاں اپنے والد اور بہنیں اپنے بھائیوں اور مائیں اپنے بیٹوں کی جبری گمشدگیوں کی درد ناک کہانیوں کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں اور بہت سی مائیں انتظار کرتے، کرتے اس فانی دنیا سے رخصت کرگئیں ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔