سوراب کے رہائشی سیف اللہ رودینی کی ہمشیرہ فرزانہ رودینی نے کہا ہے کہ آج 24 اپریل کو جبری گمشدگیوں کے کمیشن میں میرے بھائی سیف اللہ رودینی کی جبری گمشدگی کے متعلق کیس کی سماعت تھی۔ میں سوراب سے کوئٹہ کمیشن کے سامنے پیش ہونے کے لیے آئی ہوں لیکن وہ ہم سے وہی سوالات پوچھتے ہیں جو وہ پچھلے 4 سال سے پوچھ رہے ہیں۔ پچھلے 4 سال سے کمیشن میں پیش ہورہی ہوں لیکن کیس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے اور ہمیں سیف اللہ کے متعلق کوئی معلومات فراہم نہیں کی جارہی کہ وہ کہاں ہے اور اس کے علاوہ کمیشن کے سربراہ ہماری بات سننے کے بجائے خود بولتے رہتے ہیں۔
فرزانہ رودینی نے کہا کہ ہم ہر سماعت پر سوراب سے کوئٹہ کا سفر کرتے ہیں اور کمیشن کے سامنے اس امید کے ساتھ پیش ہوتے ہیں کہ ہماری بات سنی جائے گی اور کمیشن ہمارے بھائی کی بازیابی کے لئے اقدامات اٹھائے گی لیکن ہر بار ہماری امیدوں پر پانی پھیر دی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ہم جانتے ہیں کہ ہم کس طرح لوگوں سے قرض لے کر اور کس طرح مشکلات کا سامنا کرکے کوئٹہ تک کمیشن میں پیش ہونے کے لیے آتے ہیں اور اس کے بر عکس کمیشن کے ارکان بھاری ٹی اے، ڈی اے لیتے ہیں، انہیں ہماری مجبوریوں کا کوئی علم نہیں۔
فرزانہ رودینی نے کہا کہ وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی کا یہ دعویٰ زمینی حقائق کے منافی ہے کہ کمیشن نے جبری گمشدگیوں کے 80 فیصد کیسز نمٹائے ہیں۔ مقدمات کو حل کرنے کے بجائے کمیشن نے ریاست کے لیے جبری گمشدگیوں کو جاری رکھنے کا سلسلہ مزید آسان بنا دیا ہے۔
انہوں نے انسانی حقوق کی تنظیموں اور چیف جسٹس آف سپریم کورٹ سے اپیل کی ہے کہ میرے بھائی سیف اللہ رودینی کی باحفاظت بازیابی کے لئے ہماری مدد کریں اور ہمیں انصاف فراہم کرنے کے لئے کردار ادا کریں۔