جنات کیا ہیں؟
تحریر: مولوی اسماعیل حسنی
دی بلوچستان پوسٹ
احکام و اوامر کے اعتبار سے قرآن کریم کی آیتیں دو قسم پر تقسیم کیے گئے ہیں، ایک قسم کو محکم کہا گیا ہے اور دوسرے کو متشابہ۔ یہ تقسیم خود قرآن کریم میں بصراحت ذکر ہے۔ سورہ آل عمران کی ایک طویل آیت (6) میں اس کا مفہوم یوں بنتا ہے کہ:
اللہ نے انسانوں کی رہنمائی کےلیے ضابطہ حیات ”قرآن کریم“’ نازل فرمایا جو مستقل اقدار و قوانین اور احکام پر مشتمل ہے۔ اس ضابطہ کی اصل بنیاد ”ام الکتاب“ ہے۔ ام الکتاب کو یوں بیان کیا گیا ہے کہ ہر لفظ اپنے متعین معانی سامنے لے آتا ہے۔ دوسرا حصہ ”متشبھات“ کہلاتا ہے۔ جو ان حقائق پر مشتمل ہے جو مادی کاینات سے ماوراء ہیں، جن کا تعلق امورِ مغیبہ سے ہے جیسے کہ باری تعالی کی ذات، اخروی زندگی، جنت و جہنم ،روح، موت، جنات وغیرہ۔ کیونکہ یہ تمام اشیاء انسانی احاطہ ادراک سے باہر ہیں۔ اس لیے اللہ انہیں مثالیں دیکر بیان کرتا ہے۔ تاکہ انسان انہیں محسوس شکل میں سمجھ سکے۔ مثال کے طور پر ”دُخان“ کے متعلق انسان نہیں جانتا کہ دھواں کیا چیز ہے؟ اس فیلڈ سے تعلق رکھنے والے سائنسدان ہی یہ بتا سکتے ہیں، جنہوں نے تسخیر کائنات کی قوتوں کا علم حاصل کر رکھا ہے۔ جو نہیں سمجھتے انہیں یہ حق بھی حاصل نہیں کہ وہ خواہ مخواہ ایسی چیزوں میں پڑیں، جن کے وہ سرے مکلف ہی نہیں، کیوں کہ اللہ تعالی کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ کا مکلف بھی تو نہیں بناتا۔ کیا پڑی ہے کہ مولوی حضرات ان سائنسی بحثوں میں پڑ کر بحثیں گرم کریں کہ زمین ساکن ہے یا متحرک؟ گول ہے یا بیضوی وغیرہ۔ یہ تو ان کے دائرہ عقل اور احاطہ فکر سے بھی باہر کی باتیں ہیں۔ یہ صرف متعلقہ شعبہ کے ماہر علماء کرام جنہیں قرآن کریم نے متذکرہ بالا آیت میں ”راسخون فی العلم“ یعنی ریشنلسٹ کہا ہے۔ یہ وہی لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں۔ جنہیں دوسرے مقامات پر او لوالباب، یعنی سمع و بصر اور فُؤاد سے کام لینے والے بھی کہا گیا ہے۔
مُحکم و مُتشابہ آیات کی دوسری تعبیر یہ ہے کہ ہر وہ آیت جس کی تعبیر و تفسیر ایک ہی مفہوم تک محدود ہو وہ مُحکم ہے اور جس میں دو یا دو سے زیادہ مفاہیم کا احتمال پائے جائیں، وہ مُتشابہ ہیں۔ مُحکم آیات سے جو احکام ثابت ہوتے ہیں وہ قطعیات کہلاتے ہیں اور مُتشابہ آیات سے جو معانی مراد لیا جاتا ہے، وہ ظن و تخمین کی اساس پر استنباطی مفاہیم ہوتے ہیں جن میں خطا و صواب (غلط اور درست) دونوں کا احتمال بہرحال رہتا ہے۔ غرض یہ کہ مُحکم آیات میں اختلاف نہیں تو بحث بھی نہیں، مُتشابہ آیات کی مفاہیم میں اختلاف ہیں لیکن اصرار نہیں، کیوں کہ استنباطی و اجتہادی احکام میں خود مجتہد کےلیے بھی یہ ناجائز ہے کہ وہ لوگوں پر اپنی رائے زبردستی تھوپ دے کہ جی میں نے جو سمجھا ہے وہی حرف آخر ہے۔ کثرتِ تعداد بھی دلیل نہیں کہ جی اکثریت کی یہ رائے ہے، لہذا یہی درست ہے اس کے علاوہ آراء غلط ہیں۔ اختلافی احکام میں اپنی رائے پر اصرار ہی فتنہ سازی ہے۔ رائے ہے، دے دیا، کوئی مانے نہ مانے یہ آپ کا مسئلہ نہیں۔ کوئی بھی شخص اپنی فہم کو قرآن قرار دیکر نہ ماننے والوں فتوے نہیں لگا سکتا۔
قرآن کریم کی 6666 آیات مبارکہ میں سے فقط دو درجن کے قریب آیات کو ہی مُحکمات میں شمار کیا گیا ہے، باقی سب مُتشابہات کہلاتے ہیں۔ مُتشابہات کی معانی میں توسع ہے۔ قرآن کریم میں کہا گیا ہے کہ جن لوگوں کے دل میں ٹھیڑ ہوتا ہے، وہی مُتشابہات کے پیچھے لگے رہتے ہیں اور فتنے برپا کرتے اور من گھڑت تاویلیں کرتے ہیں۔ یہ ایک مستقل بحث ہے، زندگی رہی تو اس بحث کو ایک مستقل مضمون میں دیکھیں گے۔ ان شاءاللہ
گزشتہ روز جنات سے متعلق کچھ لکھا ہے۔ کافی سارے احباب یہ جاننا چاہتے تھے کہ پھر اس مخلوق سے متعلق قطعی رائے کیا ہے؟ چونکہ جن کا لفظ بھی متشابہ لفظ ہے۔ یعنی اس لفظ کے مادہ (ج ن ن) کی بھی متعدد مفاہیم ہیں، سو یہ محکمات کے زمرے میں نہیں آتا کہ جس پر کوئی قطعی رائے قائم کیا جائے۔ ہر شخص اپنی علم کا پابند اور فہم کا مکلف ہے۔ کوئی یہ نہیں کرسکتا کہ اپنی فہم کو عین قرآن قرار دیکر لوگوں کی سر پر تھوپ دے اور اگر کوئی اختلاف کرے تو وہ اسے گمراہ قرار دے۔ تو آئیے اس لفظ کو ذرا دیکھتے ہیں۔
ہمارے ہاں جنات سے متعلق کئی طرح کے تصورات پائے جاتے ہیں، بعض علماء سمجھتے ہیں کہ یہ ایک ایسی مخلوق ہے، جس کی تخلیق آگ سے کی گئی ہے اور بعض علماء کا کہنا یہ ہے کہ یہ انسانوں ہی کی ایک قسم ہے۔ حقیقت خدا جانے کیا ہے۔ عرب لوگ جِنَّةٌ جنون (یعنی پاگل پن) کو کہتے ہیں جو انسانوں کو ہی لاحق رہتا ہے۔ جنون کا مادہ بھی جن ہے، اصل میں عرب مَجْنُوْنٌ کے متعلق یہ سمجھتے تھے کہ اس کے ساتھ جِنّات چمٹ گئے ہیں۔
(بحوالہ تاج العروس)
توہم پرستی کے زمانہ میں تمام وہ قوتیں جو انسان کی نظروں سے پوشیدہ تھیں اور جن کے متعلق اس زمانہ کے انسان کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آسکتا تھا، ظن و تخمین ہی کی اساس پر وہ ہر اس چیز کو دیوی، دیوتا، جن، بھوت و پری وغیرہ سمجھتا تھا، ہندوؤں میں یہ توہم پرستیاں آج بھی بدستور جوں کے توں رائج ہیں۔ ان ہی چیزوں کو عرب (اپنی نگاہوں سے پوشیدہ ہونے کی بنا پر) جِن کہا کرتے تھے۔ فرشتے بھی چونکہ ایک غیر مرئی مخلوق ہے، عرب ان کو بھی جِن کہتے تھے، امام راغب الاصفہانی لغت عرب کے ایک بہت ہی بڑے اور مشہور دانشور ہے، مفردات القرآن کے نام سے انہوں نے ایک شاہکار تفسیر بھی لکھی ہے، انہوں نے لکھا ہے کہ ”اَلْجِنّ“ کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے۔
1) ایک تو ان تمام غیر مرئی قوتوں کےلیے جو حواس سے پوشیدہ ہوتی ہیں۔ اس اعتبار سے جِن میں فرشتے بھی شامل ہیں۔
2) دوم یہ کہ ان غیر مرئی قوتوں میں سے بعض کو جِن کہتے ہیں، اس طرح کہ جو نیک ہوتے ہیں وہ فرشتے کہلاتے ہیں اور جو سرکش ہوتے ہیں،وہ شیاطین کہلاتے ہیں۔
(تاج العروس بحوالہ مفردات امام راغب الاصفہانی)۔
بتصریح امام راغب الاصفہانی جنات میں نیک و بد دونوں شامل ہوتے ہیں، وہ جِنٌ کہلاتے ہیں۔ چنانچہ اس اعتبار سے قرآن کریم کے کئی مقامات میں جہاں جاہلیت عرب میں جِنّات کی پرستش کا ذکر ملتا ہے، وہاں جِنَّـةٌ سے مراد فرشتے ہی ہیں۔ مثلاََ سورۃ الصافات آیت 158 میں ہے:
وَجَعَلُوۡا بَيۡنَهٗ وَبَيۡنَ الۡجِنَّةِ نَسَبًا ؕ وَلَقَدۡ عَلِمَتِ الۡجِنَّةُ اِنَّهُمۡ لَمُحۡضَرُوۡنَۙ ۞
ترجمہ:
(یہ لوگ خدا اور غیر مرئی قوتوں کے مابین رشتے جوڑتے ہیں، حالانکہ یہ سب جانتے ہیں کہ یہ خدا کے حضور ہر حکم کی تعمیل میں ہر لحظہ حاضر رہتی ہیں۔)
کرہ ارض پر جب ابھی انسانی آبادی قائم نہیں ہوئی تھی، تب یہاں جو مخلوق بستی تھی، اس میں حرارت برداشت کرنے کی قوت اور صلاحیت زیادہ تھی۔ بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ اس کے بعد وہ مخلوق ختم ہو گئی اور اسی کا جانشین ہی انسان بنا۔ چونکہ اس (پہلی ) مخلوق میں حرارت برداشت کرنے کی قوت اور صلاحیت زیادہ تھی اور اب وہ انسانوں کے سامنے نہیں ہے، ان کی نسل بھی مٹ چکی ہے، اس لیے قرآن کریم میں کہا گیا ہے کہ:
”وَالْجَاۗنَّ خَلَقْنٰهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَّارِ السَّمُوْمِ“
انسان سے پہلے ہم نے ایک مخلوق کو جلتی ہوئی ہوا کی حرارت سے پیدا کیا تھا۔ وہ مخلوق اب تمہاری نگاہوں کے سامنے نہیں ہے۔ اس اعتبار سے اسے اَلجَانّ کہا گیا ہے۔
بعض علماء کے نزدیک اس سے یہ مفہوم بھی مراد ہو سکتا ہے کہ اشیائے کائنات مادہ کی مرئی اور محسوس شکل میں آنے سے پہلے، غیر مرئی اور غیر محسوس حالت میں تھیں۔ وہی قوت اب مادہ کے اندر ہے۔ نگاہوں سے پوشیدہ ہونے اور مزاج میں سرکشی کی وجہ سے، ابلیس کے متعلق بھی یہی کہا گیا ہے کہ وہ جنات میں سے تھا۔
قرآن کریم میں جِنٌّ اور اَنْسٌ کے الفاظ متعدد مختلف مقامات پر ایک ساتھ آئے ہیں۔ عربوں میں اَلْاِنْسُ انسانوں کے ان قبائل کو کہا جاتا تھا جو ایک مقام پر مستقل طور پر سکونت پذیر ہوتے تھے اور جِنّ ان قبائل کو کہا جاتا تھا جو جنگلوں اور صحراؤں میں خانہ بدوشی کرتے تھے، یوں وہ شہر والوں کی نگاہوں سے ہمیشہ اوجھل رہتے تھے۔ وہ شہر والوں سے دور جنگلوں اور بیابانوں میں رہا کرتے تھے۔ آج کل دنیا کی آبادی سمٹ چکی ہے، انسانیت نے ترقی کی شاہراہ پر کئی مسافتیں طے کر چکی ہے، جدید ٹیکنالوجی نے تو دنیا کو ایک ہی شہر یا بستی (گلوبل ویلیج) کی شکل میں جمع کیا ہے، انٹرنیٹ نے رہی سہی سرحدات کے فاصلے بھی ختم کر ڈالا ہے، اب دیہی اور شہری لوگوں کی طرز زندگی میں بہت سے امور مشترک ہوچکے ہیں، اس لیے اِن میں کوئی بنیادی بُعد محسوس نہیں ہوتا۔ لیکن جس زمانے میں ملنے جلنے کے وسائل اور نشر و اشاعت کے طریق عام نہیں تھے، شہر والوں اور اِن خانہ بدوش، صحرا نشینوں کے تمدن و معاشرت، عادات و اطوار، خصائص و خصائل اور ذہنی اور نفسیاتی کیفیات وغیرہ میں اس قدر فرق تھا کہ یہ دونوں ایک نوع کے افراد نظر نہیں آتے تھے۔
عربوں میں صحرا نشین قبائل بہت زیادہ تھے، انہیں بّدو یا اَعَرَاب بھی کہا جاتا تھا، چونکہ قرآن کریم کا پیغام شہریوں اور صحرائیوں سب کی طرف تھا، اس لیے اس نے جِنّ و اِنْس دونوں گروہوں کو مخاطب کیا ہے۔ ان مقامات پر اس مفہوم کے لحاظ سے غور کرنے والے علماء کی رائے یہی ہے کہ جِنّات مراد انسان ہی ہیں۔ یعنی وہ وحشی قبائل جو جنگلوں اور صحرائوں میں رہا کرتے تھے۔ مثلاً سورۃ انعام میں ہے:
يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اَلَمْ يَاْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ
(اے گروہ جن و انس! کیا تمہارے پاس تم میں سے رسول نہیں آئے تھے؟)
قرآن نے کسی رسول کا ذکر نہیں کیا جو جن تھا۔ سورۃ اعراف میں تو اس کی تصریح بھی فرمائی گئی ہے کہ رسول، بنی آدم میں سے ہی ان کی طرف بھیجے گئے تھے۔
سورۃ الجِن اور سورۃ احقاف میں ہے کہ جِنّات کی ایک جماعت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قرآن سننے کےلیے آئی، جو علماء جنات سے متذکرہ بالا مفہوم مراد لیتے ہیں، وہ ان مقامات سے یوں استدلال کرتے ہیں کہ ”جنات“ کی طرف رسول انسانوں میں سے ہی ہوتے تھے۔ ان ہی سورتوں (یعنی سورۃ الجن اور سورۃ احقاف) سے یہ حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ جو جن رسول کریم صلی الله عليه وسلم کے پاس قرآن سننے کےلیے آئے تھے، وہ انسان ہی تھے۔ (کیوں کہ وحشی قبائل میں عیسائی، یہودی اور مشرک سبھی شامل تھے)
سورۃ بنی اسرائیل میں ہے کہ اگر ”جن و انس“ اکٹھے ہو جائیں تو بھی اس قرآن کریم کی مثل نہ بنا سکیں۔
سورۃ انعام میں ہے کہ ”انس و جن“ کے سرکش لوگ انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کی مخالفت کیا کرتے تھے۔
سورۃ اعراف میں ہے کہ ”جن و انس“ میں اکثریت ان کی ہے جو عقل و فکر سے کام نہیں لیتے، اس لیے وہ اہل جہنم ہیں۔
سورۃ حم سجدہ میں ہے کہ اہل جہنم کہیں گے کہ ہمیں ”جن و انس“ میں سے بعض نے گمراہ کیا تھا۔
سورۃ انعام میں ہے کہ اِنْس کہیں گے کہ ہم جنوں سے استفادہ کرتے تھے اور جِنّ کہیں گے کہ ہم اِنْسانوں سے فائدے حاصل کرتے تھے۔
سورۃ نمل میں ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس ”جن و انس“ کے لشکر تھے۔
ان جنوں کے متعلق سورۃ سباء میں بتفصیل ہے کہ وہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کا کام کرتے تھے۔ محرابیں اور تماثیل بناتے تھے اور مجسمے تراشتے تھے۔ لگن اور دیگیں بناتے تھے۔ یہی جنات سمندروں میں غوطہ خوری سے موتی نکالتے تھے۔ انہیں زنجیروں میں جکڑ کر رکھا جاتا تھا۔
تورات شریف میں اس کی صراحت یوں بیان کی گئی ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے صور کے بادشاہ سے صیدونی قوم کے آدمی جنگل سے لکڑیاں کاٹنے کےلیے مانگے تھے۔ چنانچہ یہ قبائل اور ”جبلیم“ (پہاڑی قبائل) ان کےلیے لکڑیاں کاٹتے اور پتھر تراشا کرتے تھے۔ ان کے علاوہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ف-لسطین کے پہاڑی اور جنگلی (غیر بنی اسرائیل) قبائل میں سے 70000 آدمیوں کو بطور مزدور اور 10000 کو درخت کاٹنے اور پتھر تراشنے پر متعین کیا تھا۔
حقیقت واللہ اعلم
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔