تعلیمی اداروں کی حالت – عاجز بلوچ

130

تعلیمی اداروں کی حالت

تحریر: عاجز بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کسی بھی معاشرے میں طالبعلم اگر اپنی زمہ داریوں کا احساس کرے اپنے نفع و نقصان کے بابت انہیں علم ہو، اپنی تاریخ ثقافت قوم کے حالت موجودہ زمانے کے حساب سے قوم کیلئے اُسی طرح کی ذہنی جسمانی غرض ہر طرح کی تیاری ہوں تو اس معاشرے یا قوم کو کوئی بھی اپنے اہداف حاصل کرنے سے نہیں روک سکتا۔

بلوچستان کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو کافی حد تک طلباء کو ان کی زمہ داریوں کا احساس ہے اپنے بساط کے مطابق طالبعلم ہر طریقے سے ہر طرح کے حالات میں کوشش کرتے ہیں کہ وہ مختلف پروگرامز و کتاب کلچر کو فروغ دے اس حوالے سے ہمارے پاس بہت سی مثالیں ہیں کہ سال کے شروعاتی دن سے آخر تک بلوچ طلباء مختلف طلباء سیاسی تنظیموں کے پلیٹ فارم  سے اس طرح کے شعوری کام کرتے ہیں جہاں مختلف لوگ چھوٹے بڑے بزرگ خواتین سمیت ہر طبقے کے لوگ کتاب خرید کے جاتے ہیں جو انہی طلباء کی ایک تو زمہ داری و مرہون منت ہیکہ سماج میں تبدیلیاں نظر آتی ہیں و پڑھنے کا رجحان بھی کافی حد تک بڑھ جاتا ہے۔

جہاں ایک طرف تو ایسے مثبت اقدام ہو رہے ہیں وہیں ایک بات میرے دل کو ہمیشہ سے چھبتا رہا ہے اسلیے آج میں ناقص العقل و عمل کوشش کی ہے کہ کچھ باتیں تحریری صورت میں اپنے قوم کے سامنے رکھوں بلوچستان میں مختلف ریزڈینشل کالجز ہے جنمیں سر فہرست بی آر سی خضدار ہے اسکے علاوہ بھی تربت و اوتھل میں بھی ریزڈینشل کالجز ہے جہاں طلباء  تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

بی آر سی خضدار جہاں تک مجھے اندازہ ہے 2015 تک ایک ایسا ادارہ تھا جہاں طالب علم علم کے پیاس بجھانے کے ساتھ ساتھ سیاسی حوالے سے کافی سوج بوجھ رکھنے والے طالبعلم تھے اس ادارے میں ماضی میں بہت سے طلباء ایسے تھے جنہیں اپنے قوم کیلئے کچھ کر دکھانے کا جذبہ و بلوچستان کیلے کافی ہمدردی رکھنے والے طالبعلم تھے۔

بعض دفعہ کوششیں بھی ہوئی کہ اس کالج کو ایک کیڈٹ کالج میں تبدیل کی جائے جو ناکام ہوئے اسکے بعد اس ادارے پہ کچھ ایسے لوگ مسلط کیے گئے جنکا تعلق اکثر قبائلی اثر رسوخ یا پھر ایسے لوگ تھے جو بلوچ و بلوچستان کے درد سے ناواقف تھے اور انکا کوشش یہ تھا کہ کسی بھی طرح یہاں کے طلباء کو زہنی طور پہ مفلوج کیا جائے اس وقت ہیاں کے طلباء ایسے بن چکے ہے جنکو ٹک ٹوک ، فیسبک یا پھر پب جی گیم کے سوا دنیا کے کسی بھی چیز کے بارے میں کوئی علم نہیں۔

ایک تو یہ کہ اس تعلیمی ادارے میں کتاب و تعلیمی کلچر کے بجائے موبائل فون کا کھلم کھلا اجازت دوسرا نشہ جیسا سماجی برائی ناسور چیز اتنا عام کیا گیا ہے ہفتم و ہشتم جماعت کےطلباء کے طلباء کے سامنے بیئر و سگریٹ کوئی بڑا نشہ نہیں ان طلباء کو ذہنی و سیاسی حوالے سے اس طرح تباہ کیا جاہ رہا ہے تاکہ کل یہ بچے بجائے قوم کی تعمیر و ترقی کے  کسی دیوار کے کونے میں بیٹھ کر نشے کیلیئے بھیک مانگے۔

ایک معاشرے کے فرد کے حیثیت سے ہمیں یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ معاشرے میں کونسی چیزوں کے منفی و مثبت نتائج ہے انہی تعلیمی اداروں سے پڑھ کر ہمارے بچے کل قوم و اپنے والدین کی خدمت کریں گے اگر اس عمل پہ  تمام سیاسی تنظیموں و معاشرے کے تمام اہل فرک لوگوں کو سنجیدگی سے سونا ہوگا و اپنے بچوں کا مستقبل اسی طرح تباہ ہوتے دیکھے تو اسکے زمہدار ان طالب علموں سے زیادہ ہم ہے کیونکہ وہ تو اس وقت عمر کے اس حصے میں ہے جہاں وہ اپنی صحیح و غلط کی پہچان نہیں کر سکتے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔