بلوچ یکجہتی کمیٹی (کراچی) کی آرگنائزر آمنہ بلوچ نے ایک ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے فورسز کے چھاپوں اور فائرنگ پر تشویش اور برہمی کا اظہار کیا۔
آمنہ بلوچ نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ کل رات 11:30 کے قریب ملیر کے علاقے جلال مراد شرافی گوٹھ میں میں بلوچ یکجہتی کمیٹی (کراچی) کے ممبر کے گھر پر رینجرز ، پولیس نے ایجنسیوں کے ساتھ مل کر چھاپہ مار کر پورے علاقے کو گھیرے میں لے لیا۔ خوش قسمتی سے ہمارے ممبر گھر پر موجود نہیں تھے تو ان کی غیر موجودگی میں ان کے بھائی اور گھر میں موجود بزرگ مرد اور خواتین پر تشدد کر کے انہیں زدوکوب کیا. ان کی بیوی کو نہ صرف مار کر لہولہان کیا بلکہ بچوں کو نیند سے اٹھا کر انہیں بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ان کے بھائی کے سر پر پستول کے بٹ مار کے انہیں شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ علاقہ والوں کی مزاحمت پر فورسز نے نہ صرف عورتوں پر تشدد کیا بلکہ انہیں گھسیٹا بھی گیا۔ اندھا دھند فائرنگ فائرنگ کر کے لوگوں کو ہراساں کیا گیا جو انتہائی تشویشناک عمل ہے۔
انہوں نے کہا کہ بی وائی سی (کراچی) کے ممبران کو پہلے بھی کئی بار ڈرایا دھمکایا گیا ہے، مجھے خود کئی بار دھمکی آمیز کالز موصول ہوتے ہیں لیکن کل رینجرز اور ایجنسیوں نے حد کردی ہے۔ ایسا کر کے ریاستی ادارے اپنا اصل چہرہ عیاں کر رہے ہیں کیوں کہ اس عمل سے نہ ہم ڈریں گے اور نہ ہی چپ بیٹھیں گے۔ ہم بطور اس ملکے کے پر امن شہری اس ملک کے آئین اور قانون مانتے ہیں آئین پر چلنے پر یقین رکھتے ہیں، ہم یقین رکھتے ہیں عدالتوں پر جو انصاف کا کٹہرا ہے اسی لئے اگر ہم پریس کلب کے سامنے کسی بھی اغوا نما گرفتاری کا زکر کرتے ہیں اپیل عدالتوں سے کرتے ہیں کہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں جبری گمشدگیاں اس قدر عام کردی گئی ہے جس کا شکار نہ صرف بلوچ بلکہ تمام مظلوم اقوام ہیں لیکن ایجنسیاں یہ بھول گئے ہیں کہ یہ سنگین جرم ہے اور ہمیں اغوا نما گرفتاریوں کا خوف دے کر ہمیں ڈرایا نہیں جا سکتا ہے ۔
آمنہ بلوچ نے اپنے پریس کانفرنس کے آخر میں کہا کہ ہم صاف لفظوں میں کہتے ہیں کہ ہمارے ممبران سمیت ہم میں سے کسی نے کوئی جرم کیا ہے تو اس کا ایف آئی آر پیش کیا جائے لیکن اس طرح کا برتاؤ نا قابل برداشت ہے۔ عورتوں اور بچوں پر تشدد کمزور کرتے ہیں۔ اگر کراچی میں کسی بھی بلوچ کو کسی بھی قسم کا نقصان ہوا تو ہم بھی اپنے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔