بہادر ماں کی نڈر جمال
تحریر۔ اسرار بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
موسم بہار کے آمد کا ایک اپنا الگ اور منفرد مقام ہے۔اس موسم میں قدرت کے عظیم کرشمات اور نشانات ظاہر ہونا شروع ہوتے ہیں کیونکہ اسی موسم میں قدرت کے انگنت نعمتوں کے اثر انسانی روح کو ایک منفرد انداز سے منعکس ہوتے ہیں۔عموما موسم بہار کی آمد خوشحالی اور ترقی کے ثمر و نوید سناتی ہیں ۔اس سیزن کے سب سے خاص خصوصیات یہ ہیں، کہ زمین کے محور سورج کی موڑتی ہیں،دن طویل اور راتیں درمیانی ہوتی ہیں۔مزید، اس سیزن میں پھول کھلتی ہیں،اور پودوں کا اگنا بھی شروع ہوتی ہیں۔سردی ختم ہونے کے ساتھ ساتھ گرمیوں کے شروع ہوتے ہیں۔یقینا سرد ہوائوں سے تکئے جسم و روح کیلئے موسم بہار کی آمد ایک رحمت ثابت ہوتے ہیں۔
سد افسوس اس دفعہ موسم بہار کی آمد ایک قہر و آفت سے کم نہیں تھا۔اسی ہی موسم میں یعنی یکم مارچ دو ہزار چوبیس اور جمعہ مبارک کا دن ہوتا ہے، جب میں حسب معمول بعد نماز عصر چہل قدمی کے لیے واکننگ ٹریک میں ہوتا۔اور میوزک سننے کی نیت سے جب موبائل کو آن کرتا ہوں،تو اسی دوران ایک دوست کی طرف سے ایک مختصر سی میسج کر کہ لکھتے ہیں، “یار ناصر جمال ننے آن ہنا”،جمال ناصر ہم سے بچھڑ گیا۔دل ماننے کو تیار نہیں دل
وہ جمال جو ایک آزاد خیال اور ایک لاجواب شخصیت کے مالک،وہ جمال جسکے پہچان کنا ساہ، کنا پل،اور پھلے جیسے الفاظ سے ہوتا تھا۔وہ جمال جو چاہے جس قسم کے مجلس میں شریک ہوتے تھے،آس کے زیب و زینت ہوتے تھے۔وہ جمال جس کا ایک اپنا ایک قبائلی، سیاسی اور سماجی شناخت ہو تا تھا۔وہ جمال جو احساسات اور جذبات کے تعلقات سے جوڑ ے ہوتے تھے۔وہ جمال (بقول آس کے ایک دوست کے) جو یہ نہیں دیکھتا تھا کہ ابرار اس کے سگےبھائی ہیں، نجیب اس کے دوست اور کلاس فیلو اور زوہب اس کے دوست ہیں۔وہ جمال جو ان سب کیلئے برابری کے بنیاد پر تعلقات قائم کرتا تھا۔ اور نبا بھی تھا۔ وہ جمال جو ہر محفل اور مجلس کو دواہم بخشتے تھے۔
وہ جمال جس کے بچھڑ نے کے خبر کو نہ ہی دل ماننے کو تیار ہے اور نہ ہی ہاتھوں میں کچھ نوٹ کرنے میں طاقت و ہمت ہے، دور سوشل میڈیا اور ایجادات کے ہیں۔ جمال کے رخصتی کی سوگ کو لوگ اپنا نقطہ نظر سے پیش کرتے ہیں۔لیکن پھر بھی آس کے بچھڑ نے کا یقین نہیں آرہا۔ اور گمان اس وقت یقین میں بدل گیا ،اور یقین پختہ ہوا جب جمال کی ماں کی آنکھوں میں ایک سرخ نہر بہتے ہوے دیکھا۔وہ ماں جو جمال کو بچپن سے لیکر جوانی تک ہر قسم کے مشکلات سہنے کے ساتھ پرورش کیا۔اور جمال اپنے ماں کی امیدوں کے آخری کرن تھا۔
یقینا ہم سب انسان واجب الخطا ہیں، ہم اگر
آج نہیں ایک نہ ایک دن ضرور جمال کو اپنے خیالوں کے دریچوں میں بھول سکتے ہیں۔ہمارا روز بے شمار لوگوں کے سا تھ اٹھک و بھیٹک ہوتے ہیں۔ہماری تعلقات فر ضی و نمائشی ہوتے ہیں، ہم عظیم واقعات و ثانیات کو کچھ عرصہ بعد کہانیاں بنا کہ بیاں کرتے ہیں۔ہم اکثر کم و بیش معدی بنیاد پر تعلقات کرتے ہیں۔ہمیں کچھ ہی عرصہ بعد شا ہد جمال کو بھول سکے، لیکن جمال کے ماں تا زند حیات جمال کے کمی کو محسوس کرتی، اور آس کو ہر خوشی و غم میں یاد آتی رہتی ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔