بلوچستان اسمبلی کے سامنے جبری گمشدگیوں کیخلاف احتجاجی کیمپ قائم کیا جائے گا – وی بی ایم پی

122


وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنما نصر اللہ اور ماما قدیر نے آج کوئٹہ میں قائم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے بھوک ہڑتالی کیمپ سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ حکومت جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو ملکی قوانین کے تحت حل کرانے کے حوالے سے سنجیدہ دیکھائی نہیں دے رہا ہے بلکہ گوادر حملے کے بعد ایک بار پھر بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے حوالے سماجی رابطوں کی سائٹ سمیت میڈیا میں منفی کمپئین دیکھنے میں آئی ہے گوادر پورٹ اتھارٹی کمپلیکس حملے میں مارے جانے والے کریم جان کے حوالے سے کہا گیا کہ انکا نام لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل تھا ہم واضع کرنا چاہتے ہیں کہ کریم جان کا نام وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز سمیت کسی بھی تنظیم کے لاپتہ افراد کے فہرست میں شامل نہیں تھا بلکہ وہ 23 مئی 2022 کو جبری گمشدگی کا شکار ہوا تھا اور 31 جولائی 2022 کو کاونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ ( سی ٹی ڈی) کی طرف سے ان پر دھماکہ خیز مواد رکھنے کا الزام لگا کر انکی گرفتاری ظاہر کی تھی تاہم ان کی جبری گمشدگی کے ناقابل تردید شواہد کی وجہ سے عدالت نے انہیں تمام الزامات سے بجا طور پر بری کردیا اور 17 اگست 2022 کو عدالت کے حکم پر کریم جان کو رہا کیاگیا تھا کریم جان کے رہائی کے بعد انکے اہلخانہ سمیت کسی نے بھی یہ دعوی نہیں کیا کہ وہ لاپتہ ہے اور نہ ہی کسی تنظیم کے لاپتہ افراد کی فہرست میں اسکا نام شامل تھا

انہوں نے کہا کہ جبری گمشدگیوں کے حوالے ریاست اور ریاستی اداروں کی منفی پروپیگنڈے کی حقیقت سرفراز بنگلزئی کے انٹرویو سے بھی عیاں ہوتی ہے سرفراز بنگلزئی 15 سال بلوچ مزاحمتی تنظیموں کے ساتھ منسلک رہا تھا اب اس نے حکومت کے سامنے ہتھیار ڈال دیا ہے سلیم صحافی کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہتا ہے کہ کچھ ایسے لوگ ہے جو فراری کیمپوں اور افغانستان میں ہے انکا نام بھی لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل ہے تو سلیم صحافی اس سے سوال کرتا ہے کہ ایک ایسے شخص کا نام بتا دے جو فراری کیمپ میں ہے یا پھر افغانستان میں ہے تو سرفراز بنگلزئی کہتا ہے کہ سفیر بلوچ افغانستان میں بیھٹا ہوا ہے اسکا نام لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل ہے لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ آج تک کسی نے یہ دعوی نہیں کیا کہ سفیر بلوچ لاپتہ ہے اور نہ ہی اسکا نام لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل ہے بلکہ سفیر بلوچ کا بھائی جمیل سرپرہ لاپتہ ہے اور جمیل سرپرہ کا نام لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل ہے

ترجمان نے کہا کہ سرفراز بنگلزئی 15 سال بلوچ مزاحمتی تنظیموں کے ساتھ منسلک رہا اور افغانستان بھی چلا گیا تھا لیکن دیکھے وہ ایک بھی ایسے شخص کا نام ثابت نہیں کرسکا کہ وہ فراری کیمپ میں ہوں یا پھر وہ افغانستان میں بیٹھا ہوا ہو اور اسکا نام لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل ہو اس یہ ثابت ہوتا ہے کہ ریاست اور ریاستی ادارے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو منفی پروپیگنڈے کے ذریعے خراب اور پیجیدہ بنانے کیلیے سماجی رابطوں کی سائٹ اور میڈیا کو استعمال کرتے آرہے ہیں اس لیے ہم صحافی برادری سے اپیل کرتے ہیں کہ لاپتہ افراد کے مسئلے پر حکومتی موقف کے ساتھ ہمارے موقف کو بھی کوریج دیا جائے تاکہ اصل حقیقت لوگوں کے سامنے عیاں ہو

انہوں نے کہا کہ ہم آپ لوگوں کی توسط سے ریاست اور ریاستی اداروں کے سربراہوں کو کہنا چاہتے ہیں کہ جس گھر سے کوئی بندہ جبری لاپتہ ہو وہ خاندان زندگی بھر اپنے لاپتہ پیارے کو بھول نہیں سکتے یہی وجہ ہے کہ لاپتہ افراد کے اہلخانہ اپنے پیاروں کے لیے کئی سالوں سے متواتر احتجاج کرتے آرہے ہیں اور انکے احتجاجوں میں شدت بھی آرہی ہے اس لیے ریاست اور ریاستی اداروں کے سربراہوں کو اب سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور لاپتہ افراد کے مسئلے کے حوالے سے غلط بیانی اور منفی پروپیگننڈے سے گریز کرنا چاہیے اور لاپتہ افراد کی بازیابی کو یقینی بنانے اور جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو ملکی قوانین کے تحت حل کرانے کے حوالے سے فوری عملی اقدامات اٹھا کر بلوچستان میں لاپتہ افراد کے حوالے سے جو بےچینی پائی جاتی ہے اسے ختم کرے اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ لاپتہ افراد کے مسئلے کے حل میں ہی ملکی سلامتی ہے

انہوں نے کہا کہ ایک شخص کی جبری گمشدگی کی وجہ سے اسکا خاندان ذہنی کرب و اذیت سمیت بہت سے مشکلات کا شکار ہوتا ہے اور بلوچستان میں لوگ کئی کئی سالوں سے لاپتہ ہے انکے خاندان کو یہ بھی پتہ نہیں کہ وہ زندہ بھی ہے یا اس دنیا میں نہیں ہے جو لاپتہ افراد کے خاندانوں کے لیے ایک بہت بڑی اذیت ہے اس لیے ہم صوبائی حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو انسانی ہمدردی کے بنیاد پر دیکھتے ہوئے لاپتہ افراد کی بازیابی کو یقینی بنائے جبری گمشدگیوں اور لاپتہ افراد کو فیک انکاونٹر میں قتل کرنے کے سلسلے کی روک تھام اور جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو ملکی قوانین کے تحت حل کرانے میں اپنا کردار ادا کرے

انہوں نے کہا کہ اگر صوبائی حکومت نے لاپتہ افراد کے مسئلے کے حوالے سے سنجیدیگی کا مظاہرہ نہیں کیا تو تنظیمی سطح پر عید کے بعد احتجاجی شڈول کے پہلے مرحلے میں صوبائی اسمبلی کے ہر اجلاس کے دن صوبائی اسمبلی کے سامنے احتجاجی کیمپ لگایا جائے گا اور بھرپور احتجاج ریکارڈ کرایا جائے گا عید کے بعد تنظیمی سطح پر ہونے والے احتجاجی شڈول کے حوالے سے بلوچستان کے تمام سیاسی پارٹیوں اور طلباء تنظیموں سے ملاقاتیں بھی کی جائے گی اور احتجاجی شڈول کے حوالے سے بلوچستان کے سیاسی پارٹیوں، طلباء تنظیموں اور سول سوسائٹی کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کوئٹہ میں آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد بھی کیا جائے گا تاکہ تنظیمی سطح پر عید کے بعد ہونے والے احتجاجی شڈول کو بلوچستان کے تمام نمائندہ پارٹیوں اور تنظیموں کی حمایت حاصل ہوں