ایک روتی ہوئی ماں ۔ فرید بلوچ

460

ایک روتی ہوئی ماں
‏‎تحریر: فرید بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

‏‎ماں دل کے آنسو رو رہی تھی کہ میرا بیٹا شعیب جان کہاں ہے، مگر وہ خوش مزاج بیٹا ہر روز کی طرح اپنے دوستوں کے ساتھ گھوم رہا تھا۔ اس کو وہ لوگ عزیز تھے جو بلوچستان کے کسی بھی کونے سے تھے وہ کبھی کسی میں فرق نہیں کرتا، اس کے دوستوں میں سے کوئی سروان تو کوئی جھالاوان یا مکران اور کوئی کوہِ سلیمان سے تھا ۔

‏‎کئی بار ماں نے اسےپکارا مگر اس نے ماں کو جواب نہیں دیا، “امّاں آج میرے دوست آۓ ہیں۔ میں ان کے ساتھ ہوں آتا ہوں جلدی۔” مگر وہ ان دوستوں کے ساتھ ہنسی مذاق میں لگ گیا۔ بالآخر ماں تھک کے سو گئی۔ صبح سویرے وہ روتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ جاگ گئی۔ بیٹے کے کمرے میں آئی اور اسے دیکھ کے دل کو تسلی دی کہ میری جان کا ٹکڑا موجود ہے۔

‏‎ماں انتظار میں تھی کہ کب اس کا لختِ جگر نیند سے اٹھے تو وہ اس کے ساتھ بیٹھے، اس سے بات کرے مگر خدا کو منظور نہیں تھا۔
‏‎شعیب، تمھیں پتا ہے ماں رو رہی ہے یاد ہے تم نے مجھے بتایا کہ جلدی جاتے ہیں گھر، امی پریشان ہوتی ہیں۔ جب وہ مجھے نہ دیکھیں۔ یار چلو امی کے پاس۔ ان سے بات کرتے ہیں مگر نکلتے ہیں۔
‏‎شعیب اٹھو! امی گھر میں ہیں۔ آج سارا خاندان آیا ہے تمھیں دیکھنے۔ یاد ہے وہ ہمارے دوست لاہور کے؟ وہ بھی آئے ہیں پروم کو دیکھنے۔ ان کو لے کے چلتے ہیں پکنک پر!
‏‎شعیب اٹھو! امی بہت رو رہی ہیں کہاں جا رہے ہو؟ شعیب اٹھو! امّی پریشان ہیں۔ کیوں سو رہے ہو؟
‏‎شعیب امّی نے کھانا نہیں کھایا ہے آپ کے انتظار میں ہیں۔ شعیب اٹھو یار جلدی کرو ہوٹل جانا ہے دوست آئے ہوئے ہیں چائے پیتے ہیں پر جلدی گھر آنا ہے امی پریشان ہوں گی۔

‏‎شعیب امی کو دیکھو امی کی تھکن دور ہو جائے گی۔ جواب دو شعیب امی گھر آئی ہیں۔ کیوں بات نہیں کرتے؟ امّی تمھارے جواب کے انتظار میں صبح سے بیٹھی ہوئی ہیں۔ کسی اور سے بات بھی نہیں کر رہی۔ بار بار تم سے بات کرنے کو بے چین ہیں۔

‏‎شعیب پتا ہے تمھاری پسندیدہ کتاب “بلوچ اور ان کا وطن اور بلوچستان کا مسئلہ” ابھی اسی صفحے پر ہے جہاں رات کو تم نے چھوڑا تھا کہ دوبارہ وہاں سے شروع کروں گا۔ وہی میز، وہی کرسی آج ترس رہے ہیں کہ کوئی آئے، وہاں بیٹھے اور مطالعہ کرے۔ امی لائٹ کو بند نہیں کر رہیں کہ ان کا شہزادہ گھر آئے گا اور اسی کرسی پہ بیٹھے اور مطالعہ کرے گا۔

‏‎آج وہ ماں تڑپ رہی ہے اپنے بیٹے سے بات کرنے کے لیے۔ وہ عاشق مزاج ایسی نیند میں سویا ہے گویا کوئی اس کو آواز ہی نہیں دے رہا۔ وہ سن رہا ہے ماں کی چیخ کو، وہ آواز بھی دے رہا ہے مگر ماں روتی روتی اس آواز کو پہچان نہیں پاتی۔

‏‎لوگ کہتے ہیں کہ خدا اپنے بندوں کو ستّر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے مگر وہی خدا جو ایک ماں کے درد کو محسوس نہیں کر پا رہا ہے۔
‏‎آج خدا نے بھی شکست کو تسلیم کیا اس کے پاس بھی اس درد کو کم کرنے کا مرہم نہیں ہے۔

‏‎وہ عاشق ایک ماں کو رخصت کر کے دوسری ماں کے پاس گیا اور ماں سے یہ کہہ کر روانہ ہوگیا کہ وہ کئی برسوں سے پکار رہی ہے، وہ ناراض ہو جائے گی ، اگر میں ان کے پاس نہ گیا وہ روتی رہیں گی ، ان کی آنکھیں نمناک رہیں گی ، آنسوؤں کا بہتا سمندر بن جائے گا ، وہ پہاڑوں کی فریاد مجھ سے کہاں برداشت ہوگی ، وہ پرندوں کے خوش الحان گیت گانا بند کریں گے ، مجھے تو ان سے بھی عشق ہے ، میں ان سب کا دلدادہ ہوں۔

‏‎رات کو میرے دوست بھی آئے تھے میں نے ان کو تسلی دی ، اور انہیں بھی یہ پیغام ان کے گوش گزار کردیا: کہ اے میرے پیارے دوستو! اس منزل کی طرف جاؤ جہاں ہم اکٹھے کام کرتے تھے ، جہاں ہمارا ہمارا جینا مرنا تھا ، مشکلات سے کبھی مت گھبرانا یہ زندگی کا حصہ ہیں، اپنی قوم اپنی زمیں کا خیال رکھنا ، اپنے دشمن کو نظر انداز نہیں کرنا ، میرے بعد اس سفر کو دوام بخشو ، اپنا فرض ادا کرنے کی میں بارہا تلقین کی بلکہ ان سے درخواست کی کہ وہ اپنا خیال رکھیں گے ۔
‏‎ وہ رات یاد ہے دوستو! جب ہم ساتھ تھے اس روشنی کو ہرگز تاریک نہیں ہونے دینا یہی روشنی اس منزل کی طرف جا رہی ہے سب احباب اس روشنی کا پیچھا کر رہے ہیں باقی دوستوں کا بھی ہاتھ تھام لینا انہیں اپنے ساتھ لے جانا ، ناتواں دوست کا کندھا و سہارا بننا۔
‏‎اور ہاں یار آپ لوگوں کے جانے کے بعد استاد سے میری ملاقات ہوئی وہ بے تحاشا خوش تھے آپ لوگوں کو دیکھ اہک ساتھ دیکھ کر وہ خوشی سے پھولے نہ سما رہے تھے اور آخر میں یہ بات کہہ کر میں آگے روانہ ہوگیا دوستو! سب اس جگہ چلے جانا اور اس کو اپنا مسکن بنانا جہاں ہماری محفلیں لگتی تھیں ، جہاں ہم گپیں ہانکتے تھے ، خوشیاں بانٹتے تھے اور ایک دوسرے کو پیار کو دیتے تھے۔

‏‎الوداع اے یارو ! الوداع۔۔۔۔۔۔۔
‏‎وہ عاشق مزاج نوجوان گھومتا گھومتا کہی خوابوں میں گم ہو گیا وہ ماں کو رخصت کرتے ہوئے دوسری ماں کے آغوش میں سو گیا ماں روتی روتی سوال کر رہی تھی کیا میرا پیار کم ہے ؟ کیا میں نے آپ سے محبت نہیں کی ہے ؟ وہ بار بار یہ سوالات دہرا رہی تھی مگر وہ اس ماں کی محبت میں گرفتار ہوچکا تھا اس سے بے پناہ محبت تھی ، وہ وادی ، وہ پہاڑ اور وہ چشمے اس سے باتیں کر رہے تھے وہ بے چین تھا کہ کب اس ماں کے آغوش میں سو جائے اس سے باتیں کرے۔

‏‎ آج وہ اس کے ساتھ ہے کئی دن ہوگئے ہیں وہ باتوں میں مشغول ہیں ماں اور بیٹے میں ایک شدید قسم کی محبت پیدا ہوگئی وہ تھکتے بھی نہیں تھے ، ایک دوسرے کو سن رہے تھے یہی وہ محبت تھی ان کو پہلی ماں سے کھینچ کر لائی تھی ۔ پروم کے پہاڑ درخت ندی گیت گا رہے ہیں اور جھوم رہے ہیں میرے ساتھ امی وہ اتنے خوش ہیں جب سے میں ان کے پاس آیا ہوں ہر کوئی میرے ساتھ ہے رات بھر ہماری بیٹھک ہوتی ہے ، وہ عاشق ان پہاڑوں میں رقص کرتے کرتے بولان تک مگن رہتا نہ تھکان ہوتی ، نہ پیاس لگتی اور نہ ہی بھوک اسے نڈھال کرتی وہ اپنی خوش مستیوں میں مصروف تھا اور پھر رقص کرتے کرتے پہاڑوں کی جانب چلا گیا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔