اگر ریاستی پالیسیاں ایسے بربریت پر مشتمل ہونگے تو اس کا ری ایکشن بھی اتنا ہی سخت ہوگا ۔ بابل ملک بلوچ

111

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (پجار) کے زیر اہتمام ڈگری کالج سریاب میں شمولیتی پروگرام سے سینئر وائس چیرمین بابل ملک بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کے ریاستی پالیسیاں زمینی حقائق سے یکسر مختلف ہے یہاں بلوچ خواتین کو بزرگوں کو نہیں بخشا جارہا ہے اگر ریاستی پالیسیاں ایسے بربریت پر مشتمل ہونگے تو اس کا ری ایکشن بھی اتنا ہی سخت ہوگا ہم روز اول سے کہہ رہے ہیں کے یہاں کے لوگوں کو ایک کالونی کے طرز پر دیکھنے کے بجائے آہینی شہری کی حیثیت سے دیکھا جائے ہمارا موقف امن ہے لیکن ڈالرز کے بدلے ہمارے زمین کو خیر ملکیوں پر ہونے پونے داموں بیجھ دیا اگر بلوچ وطن پہ بلوچ کے ملکیت کو بزور بندوق چیلنج کرکے ہمارے وسائل کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے یا لوٹا جاتا ہے تو ایسے میگا پراجیکٹس اور ایسے استعماری طاقتوں کے خلاف ہم خاموش نہیں رہینگے بلکے ان پراجیکٹوں کے خلاف بلوچ قوم کو صف بند کرینگے ۔

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سینئر نائب صدر جہانزیب بلوچ جونیئر نائب صدر میر واج یونٹ سیکرٹری عصمت بلوچ عدنان بلوچ فیصل بلوچ جاسم بلوچ علی نواز بلوچ کے بلوچستان یونیورسٹی سمیت بلوچستان کے تمام تعلیمی اداروں کے تبائی کے ذمہ دار یہی بندوق والے ہے جنہوں نے انہیں فوج چھاؤنیوں میں تبدیل کیا ہے ہر گزرتے روز کے ساتھ سیکورٹی فورسز کی مداخلت تعلیمی اداروں میں بڑھ رہی ہے یونیورسٹی میں کتاب کے اسٹال لگانے اور پڑھنے پر پابندی عائد کی گئی ہے ایسے پالسیوں سے ریاستی بدنیتی کا پتہ چلتا ہے طلباء ایسے حرکتوں سے مزید منظم ہورہے ہیں اور اپنے قومی ذمہداریاں سمجھ کر حکمت عملی سے آگے بڑھ رہے ہے ۔

مزید کہا کے تعلیمی اداروں میں تعینات اکثر کو اسٹبلشمنٹ کے سفارشات پہ لایا جارہا ہے جس سے نا صرف قابل پروفیسروں کی حق تلفی ہوررہی ہیں بلکے نا اہل افراد کو سفارش پہ تعینات کرکے تعلیمی اداروں کو مالی و انتظامی بحرانوں سے دو چار کرتے ہیں جس کی مثال بلوچستان یونیورسٹی ہے جہاں 6 ماہ سے پروفیسروں سمیت کسی ملازم کو تنخواہ تک نہیں ملی ہم تعلیمی اداروں میں موجود طلباء اساتذہ ملازم سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز سے گزارش کرتے ہیں کے ایسے ٹاوٹس کے حوالے سے ایک واضح اسٹینڈ لے اور انہیں تعلیمی اداروں سے باہر دھکیل دے۔