مسلح جدوجہد کرنے والوں کا اپنا نظریہ ہے۔ نہ انہیں ہم سے و نہ ہمیں ان سے اختلاف کا حق ہے – سردار اختر مینگل

546

عسکریت پسندوں کا اپنا نظریہ ہے۔ نہ ان کو یہ حق پہنچتا ہے کہ ہمارے نظریے سے اختلاف رکھیں نہ ہمیں ان سے اختلاف رکھنے کا حق ہے۔ پہلے آپ متاثرین میں سے کسی کا مدعا تو سنیں، اس کی فریاد سنیں۔ میں حقیقتاً پاکستان پارلیمنٹ، عدلیہ، سیاسی جماعتوں سے مایوس ہوچکا ہوں.

ان خیالات کا اظہار سردار اختر جان مینگل نے لاہور میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ کانفرنس میں قوم پرست جماعتوں سے مذاکرات کے موضوع پر ایک سیشن کا انعقاد کیا گیا۔

سردار اختر مینگل نے سیشن سے خطار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے آج الفاظ اور جملوں کا چناؤ احتیاط سے کرنا پڑے گا کیونکہ اس ملک میں نہ مارشل لاء ہے اور نہ ہی ننگی آمریت ہے، مگر سبز ہلالی پرچم میں لپٹی ہوئی آئین کے اوراق میں باپردہ آمریت و باپردہ ماشل لاء تو ہے۔

انہوں نے کہا کہ ‘ڈائیلاگ ود نیشنلسٹ پارٹی’ کا موضوع بہت پرانا ہے۔ ہر دور حکومت میں اس پر بحث بھی کی جاتی ہے اور نتیجہ بھی صفر بٹہ صفر نکلتا ہے۔ بات چیت کی اہمیت و افادیت کو کوئی سمجھتا نہیں ہے۔ 75 سال ہوگئے ہیں لیکن ابھی تک یہ طے نہیں پایا گیا کہ کس سے بات کرنی ہے اور بات کرنے والے کون ہونگے۔ جب بات قوم پرست یا نیشنلسٹس کی آتی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلوچ نیشلسٹ یا بلوچستان سے تعلق رکھنے والے قوم پرست، لیکن اگر دیکھا جائے آج پاکستان کی تمام کی تمام سیاسی جماعتیں قوم پرست ہیں، پاکستان مسلم لیگ ن کے حوالے سے اگر کوئی کہتا ہے کہ وہ وفاقی پارٹی ہے تو میں اس سے اتفاق نہیں کرسکتا کہ ‘پنجابی جھاگ’ کا نعرہ لگانے والی پنجاب کی قوم پرست پارٹی پاکستان مسلم لیگ ن ہے۔

انہوں نے کہا کہ مقامی وسائل کی بات کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت آصف زرداری بھی، جب برا وقت آتا ہے تو لوکل ڈومیسائل، مقامی و غیر مقامی کی بات کرتے ہیں۔ وہ بھی سندھ کی نیشنلسٹ پارٹی ہے۔ علی امین گنڈا پور کا دو روز قبل جو بیان آیا، کیا اس سے ہم اخذ نہیں کرسکتے کہ پی ٹی آئی خیبرپختونخواہ کی ایک قوم پرست پارٹی بن گئی ہے جو اپنے حقوق اور بجلی و دیگر کی مد میں اپنی رئیلٹی ناانصافیوں پر اسلام آباد پر یلغار کی بات کرتے ہیں۔  قوم پرستوں کی یہی تو نشانیاں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان قوم پرستوں سے بات ہوسکتی ہے اور ہوئی بھی ہے جبکہ امکان ہے آنے والے دنوں میں بات چیت ہوگی۔

سردار مینگل نے کہا کہ ڈائیلاگ سے پہلے یہ طے کہ کریں جس بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنی وہ بلی کون ہے؛ بلوچ بلی ہے یا اسٹیبلشمنٹ اور اس بلی کا مالک کون ہے۔ جو بلی ہر ڈیڑھ سال یا پانچ سال بعد اپنے خونخوار پنجوں سے ہمیں اور ہمارے بچوں کو نوچتے آرہی ہے یہاں تک ہمارے بچوں کو اختیار نہیں دیا جاتا کہ وہ آپ کے دارالخلافہ اسلام آباد میں ایک پرامن احتجاج کریں۔ ہم سجھتے تھے اسلام آباد تمام صوبوں اور تمام قومیتوں کا دارالخلافہ ہے ہمیں یہ پتہ نہیں تھا کہ پنڈی، جی ایچ کیو کی ایکسٹینشن اسلام آباد تک آگئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ مسنگ پرسنز کے مطالبے پر عوامی منتخب حکومت کا وزیراعظم عوامی اجتماع میں یہ بات کہتے ہوئے نہیں تھکتا کہ ہم بااختیار لوگوں سے بات کرکے آپ کو جواب دینگے۔ بااختیار کون ہے، کیا وہ کسی بین الاقوامی قوت سے بات کرکے ہمیں جواب دینگے، نہیں۔

سردار اختر مینگل نے کہا کہ اب بلوچستان میں مایوسی اس حد تک پھیل چکی ہے، اب آپ بات کرینگے کس سے، ایک وہ قوم پرست جو پاکستان کے آئین میں رہ کر سیاست کررہے ہیں، ان کیلئے تو آپ کوئی جگہ ہی نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ دوسرے وہ ہیں جو مایوسی کی اس انتہا تک ابھی پہنچنے والے ہیں، میرے جیسے لوگ، میں حقیقتاً پاکستان پارلیمنٹ، عدلیہ، سیاسی جماعتوں سے مایوس ہوچکا ہوں اور یہ ناامیدی بلاوجہ نہیں ہے اس ناامیدی تک ہمیں پہنچانے والے وہی ہیں؛ چاہے انہیں اسٹیبلشمنٹ کا نام دیا جائے یا چاہے یہاں کی سیاسی جماعتیں یا عدلیہ کا نام دیں۔

انہوں نے کہا کہ کچھ وہ لوگ ہیں جو بلکل پاکستان کے آئین کو ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ وہ عسکریت پسندی کا سہارا لیکر اپنی جدوجہد کررہے ہیں، وہ صحیح یا غلط ہے یہ ان کا نظریہ ہے۔ نہ ان کو یہ حق پہنچتا ہے کہ ہمارے نظریے سے اختلاف رکھیں نہ ہمیں ان سے اختلاف رکھنے کا حق ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بات چیت کیلئے کچھ راہ ہموار کرنی ہوگی، اعتماد بحال کرنے کیلئے اقدامات اٹھانے چاہیے۔ پہلے آپ متاثرین میں سے کسی کا مدعا تو سنیں، اس کی فریاد سنیں۔ آپ کی نچلی عدالت سے لیکر سپریم کورٹ تک درخواست کنندہ کو سنیں کہ وہ بیان کرسکے کہ میرے ساتھ یہ زیادتی ہوئی ہے۔ ہمارے قبائلی سسٹم میں بھی جب جرگے ہوتے ہیں تو اس میں فریقین اپنے مدعے بیان کرتے ہیں کہ زیادتی میرے ساتھ ہوئی ہے اور اس کا ذمہ دار یہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں تو ابھی تک یہ حق ہی نہیں کہ اپنا مدعا بیان کر سکیں، بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے اگر کوئی بلوچستان کا مسئلہ حل کرنا چاہتا ہے وہ سیاسی ہاتھوں سے ہوگا اور نہ ہی ریاست کی بندو ق سے حل ہوگا اور نہ ہی ریاست کی توپوں سے حل ہوگا۔