8 مارچ اور بلوچستان میں بے بس خواتین۔ زین گل بلوچ

200

8 مارچ اور بلوچستان میں بے بس خواتین۔
تحریر: زہن گل بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

ہر سال دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن 8 مارچ کو منایا جاتا ہے یہ 1908 میں اس وقت شروع ہوا، جب نیویارک میں سوشلسٹ خواتین اور ٹیکسٹائل ورکرز نے کم گھنٹے، زیادہ تنخواہ اور ووٹ ڈالنے کے مواقع کا مطالبہ اور جبری مشقت او تشدد کے خلاف مارچ کیا، پولیس کی جانب سے خواتین پر لاٹھی چارج اور کئی کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا، اگلے سال پھر 8 مارچ کو خواتین نے مظاہرہ کیا تو پھر سے پولیس نے ان پہ لاٹھی چارج کی جن میں کئی خواتین زخمی ہوئے، مطالبات صرف اتنی تھی کہ خواتین پہ جبری مشقت ، تشدد ، معاشرے میں برابری اور بحثیت خواتین کو انسان سمجھا جائے،
جبکہ 1910 خواتین کی عالمی کانفرنس 17 ممالک سے ایک سو سے زائد خواتین نے شرکت کی اور کانفرنس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ 8 مارچ کو ہر سال خواتین کے عالمی دن کے طور پہ منائی جائے گئ، جبکہ 1975 میں عالمی اقوام متحدہ کے زیر اہتمام عالمی سطح پر منائی گئی اور1977 میں باقاعدہ اس کی منظوری دی گئی اور تمام ممالک کو اس بات پر پابند کیا گیا کہ ہر سال 8 مارچ کو خواتین کے دن پر منائیں
1908 کے بعد نیویارک میں خواتین کو انصاف تو ملی لیکن اسلام آباد بلوچ خواتین کو انصاف فراہم کرئے گی جن پہ لاٹھی چارج اور بدترین تشدد کیا گیا،
حیات بلوچ کی ماں کو کون انصاف فراہم کرئے گا جن کے سامنے اس کے لخت جگر کو قتل کیا یا بالاچ کی ماں کو کون انصاف فراہم کرئے گا جس کے بیٹے کو عدالت پیش ہونے کے باوجود قتل کیا اور اس پہ الزامات بھی لگائے
یا بارکھان میں سردار عبد الرحمن کھیتران کے ہاتھوں قتل (امرا بی بی) کو کون انصاف ملے گی جن کو بےدردی سے قتل اور گمنام دفن کیا گیا نہ دعا نہ فاتحہ۔ جہاں معاشرہ شرم کے ساتھ ڈوب مرا
اگر ہم اپنی نظر دوڑائیں تو ہمیں بلوچستان کے ہر گلی میں عبد الرحمان کھیتران جیسے قاتل اور امرا بی بی جیسی بی بس خواتین ملیں گی،
أن خواتین کو انصاف کون فراہم کرئے گا جن کو غیرت کے نام پہ قتل کیا گیا یا ان کو زندہ زمین کے اندر گھاڑ دیا گیا، زمانہ جاہلیت میں بھی بیٹی کو زندہ درگور کیا جاتا اور آج بھی غیرت کے نام پر قتل کیا جا رہا ہے، زمانہ تو بدل گیا جاہلیت وہی کے وہی، بلوچستان میں غیرت کے نام پر قتل کا مسئلہ گزشتہ کئی دہائیوں سے چلا آ رہا ہے
2008ء میں بلوچستان جعفرآباد میں غیرت کے نام پر پانچ بلوچ خواتین کو بےدردی سے قتل کیا گیا تو واقعہ پاکستان کی سینیٹ میں اُٹھایا گیا تو اسرار اللہ زہری، جو کہ ایک وزیر تھا اور ابھی بھی ہوگئے ، اسرارِ زہری نے قتل کا دفاع کیا اور انہیں ”ہماری صدیوں پرانی روایت“ کہا اور ان کی حمایت کرنے کی قسم بھی کھائی۔ ایسی درندگی اور وحشیت پہ نہ پارلیمنٹ نے مذمت کی نہ عدلیہ نے جو دونوں کے منہ پہ زوردار طمانچہ ہے
2022 اور 2023 میں سو سے زائد خواتین کو غیرت کے نام پہ قتل کی گی۔
اب سمجھ نہیں آتی کہ ہم آنے والے نسلوں کو بانڑی کی بہادری کے قصے سنائیں یا اسلام آباد میں غیروں کے ہاتھوں بلوچ ماؤں پہ ہونی والی تشدد، یا اپنے ہی بھائیوں کے ہاتھوں غیرت کے نام پہ قتل۔
خوش بخت تھی عرب کی بیٹیاں
جو ایک بار مرتی تھیں
یہاں تو آج بھی ایک ایک سانس کے بدلے ہزار بار زندہ درگور ھونا پڑتی ھے عورت کو
جہاں روایتوں کو زندہ رکھنے کے لیے
لوگوں کو مرنا پڑتا ھے
اے میری بے بس اور مجبور مائیں
کیوں جنم دیا مجھے
اے مائیں


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔