کوہِ سلیمان اور ایک خواب ۔ دوست بُزدار

368

کوہِ سلیمان اور ایک خواب
تحریر: دوست بُزدار
دی بلوچستان پوسٹ 

بلوچستان کو پاکستان سے ملانے والا کوہ سلیمان جس میں اکٽر پاکستان کے جھنڈے لہراتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے اور زہن شہیدوں کی یادوں میں کھو جاتا ہے۔ وہ اُستاد جس نے اپنے لختِ جگر کو وطن کی خاطر قربان کیا ،حضرت بی بی لُمہ یاسمن کی وہ لمحہ یاد آتا ہے کہ وہ اپنے جگر کے ٹکڑے ریحان جان کے مقدس ماتھے کو چوم کر شہید ہونے کےلیے رُخصت کرتے ہیں اور آگے سے سرزمین کے عاشق ہنستے ہوئے فرماتے ہیں کہ رخصت اف اوارُن۔

شہیدوں کا وہ راہشون (شہید بالاچ)جو اکٽر اسی کوہ سلیمان کا دورہ کیا کرتے تھے اِن کے وہ الفاظ بھی یاد آتے ہیں کہ بلوچ ہار ماننے والوں میں سے نہیں ہیں۔

کوہ سلیمان وہی علاقہ ہے جہاں شہید فیض جان جیسے شیر پیدا ہوا کرتے تھے ، پوری قبیلہ میں وہ پچیس سالہ نوجوان نے وطن کو پڑھ، لکھ کر اُسی کی خاطر جان قربان کیا ۔قربان جاو اُن ماؤں پر جو ریحان جان اور فیض جان جیسے بہادر بیٹے جنم دیتے ہیں۔

جب یادوں میں گُل اس انسان کو کوئی جگاتا ہے تو کئی ہفتوں تک اسی سوچ میں مایوس ہوکر رہتا ہے کہ کوہ سلیمان کے دوسرے مائیں کیوں شہید مُرشد فیض جان جیسے بیٹے نہیں جنم دیتے؟ وہ کونسی رُکاوٹیں ہیں جو کوہ سلیمان کے لوگوں کو اُن کی قومیت بُزدار بتاتی ہے اور اُن کو کتابوں سے دور رکھتی ہیں؟ وہ کون ہے جو کوہ سلیمان کے بہادر نوجوانوں کو بُولان جانے سے روکتی ہیں؟ وہ کون ہے ؟وہ کون ہے؟ میں اُسے زندہ جلا ڈالوں گا جو کوہ سُلیمان کے نوجوانوں کو اسلمی جہد میں فرض پورا کرنے سے روکتی ہیں ؟؟جب اس رنج و الم میں ،میں گھر سے باہر نکلا تو اچانک مکران کا ایک نہایت نیک نوجوان کا میرے سامنے سے گُزرا ہوا اور اُس کے ہاتھ میں ایک مہرگہوش نامی کتاب کو میں نے دیکھتے ہی آواز کیا تو وہ رُک گیا ۔۔دُعا سلام کیا اور کہیں ساتھ بیٹھے تو میں نے یہ سارہ ماجرہ بیان کیا جس پر وہ بھی کسی سوچ میں گُل تھا اور میں اُس کا مُنہ دیکھ رہا تھا۔

اچانک سے وہ غائب ہوگیا اور اُس کی سانسوں کا آواز مجھے سُنائی دے رہا تھا میں ڈر گیا کہ یہ ضرور کوئی جن وغیرہ تھا ۔۔لیکن آواز آئی کہ میں کوئی جن نہیں ہوں میں مادر بلوچستان کا ایک شہید ہوں اور آپ کو اس حالت میں دیکھ کر سہا نہیں گیا تو میں آیا ۔۔اور آپ کے سوالوں کا جواب علم اور کتاب ہے جوکہ صرف کوہ سلیمان کے نوجوانوں کی اتحاد اور مسلسل محنت سے ممکن ہوسکتا ہے۔۔۔وہ دوبارہ ظاہر ہوا اور میرے پشت پر جب ہاتھ پھیرا تو میں نیند سے بیدار ہوا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔