کوئٹہ: جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج جاری

94

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی کیمپ آج 5377 ویں روز جاری رہا۔

آج ساحلی شہر پسنی سے سیاسی سماجی کارکنان سلمان علی بلوچ، سعید سلیمان بلوچ، یاسر بلوچ، راشد بلوچ ، ریحان بلوچ، گارڈن کراچی سے میر حمل بلوچ اور دیگر نے آکر اظہار یکجہتی کی ۔

تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ لفظ بلوچستان کے ہونٹوں پے آتے ہی جذبات احساسات تصورات خیالات ایک جنگی میدان کا منظر لیکر آتی ہیں۔جہاں ہر طرف آگ کے شعلوں میں انسان جلتے ہوئے نظر آتے ہیں جہاں بندوق ، بارود توپ اور لوگوں کی گرجدار آواز میں بلوچوں کی آہیں اور سسکیاں سنائی دیتی ہیں ان آہوں اور سسکیوں میں درد کے ساتھ ساتھ عزم اور پختہ جدوجہد کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے بلوچوں کے بکھرتی ہوئی لاشوں میں ماں کی ممتا بہن کی آنچل بلوچ کے جذبات خواہشات ارمان اور خواب بھی ریزہ ریزہ دکھائی دیتے ہیں جہاں امن کی علامت کی فاختہ بھی بلوچوں کے دکھ اور درد میں بارود کی برسات کو دیکھ کر خون کی آنسوؤں بہاتی ہوہی نظر آتی ہے۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں ایک جنگ چل رہی ہے اور جنگ ہی کی وجہ سے شہدا بلوچ کے لہو نے دھرتی کو سرمی کر رکھا ہے یہ جنگ امن خو خوشحالی انسانی برابری اور بلوچ کی تہذیب ثقافت اور بقا کی ہے۔ جنگ زدہ بلوچستان میں میڈیا کو حالات کے بارے میں صیح رپورٹ کرنے کی اجازت نہیں ہے اور لوگوں کو اجاگر یہ پابندی ہے مگر مخصوص مراعات یافتہ میڈیا صحافیوں کو ریاست کے مرتکب کردہ پالیسی کے مطابق گمراہ کن رپورٹیں شائع کر کے مراعات سے نوازنا روز کا معمول ہے بلوچستان میں انسانی ضمیر قلم اور الفاظ کے حرمت سکوں کے عوض بیچنے کا کاروبار روز کا معمول بن چکا ہے۔