نو سالوں سے جبری لاپتہ ظہیر بلوچ کی والدہ ماجدہ اپنے بیٹے کی راہ تکتے تکتے اس جہاں سے کوچ کرگئیں۔
خیال رہے کہ 13 اپریل 2015 کو پاکستانی فورسز نے ظہیر احمد کو بلوچستان کے صنعتی شہر حب چوکی سے اس وقت بس سے اتار کر لاپتہ کردیا جب وہ پنجگور سے کراچی جارہے تھے۔
بلوچستان میں کئی لاپتہ افراد کی والدین اپنے بچوں کی راہ تکتے اس دنیا سے چل بسے ہیں جبکہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے مظاہروں کے دوران ایسے مناظر دیکھے گئے ہیں کہ لاپتہ افراد کے والدین بے ہوش ہوئے ہیں –
بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے شکار بننے والے دو دہائیوں سے لاپتہ سیاسی کارکنوں کی والدین سمیت لواحقین غم اور پریشانی سے مختلف مسائل کے شکار ہیں –
لاپتہ افراد کی لواحقین اپنے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے حکومت سے یہی مطالبہ کرتے آرہے ہیں کہ اگر انکے پیاروں نے کوئی جرم کیا ہے تو عدالت میں انہیں پیش کرکے سزائیں دی جائے لیکن اس طرح سالوں سے انہیں لاپتہ کرکے پورے خاندان کو اذیت میں ڈال دیا جاتا ہے –
بلوچستان میں قوم پرست جماعتیں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں پاکستانی فورسز کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور لوگوں کو جبری لاپتہ کرنے کا ذمہ دار ٹہراتے ہیں –