پاور پولیٹکلس، فدائین حملے ،گوادر زر پہازگ آپریشن اور نئی بلوچ سیاسی اپروچ ۔ ہارون بلوچ

1280

پاور پولیٹکلس، فدائین حملے ،گوادر زر پہازگ آپریشن اور نئی بلوچ سیاسی اپروچ

تحریر: ہارون بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ 

امریکی پولیٹکل سائنٹسٹ اور Offensive Realism کے بانی جان میرشمیر کا کہنا ہے کہ عالمی سیاسی سسٹم کے دو حصول ہیں یا آپ طاقت ور بن کر دشمن کو اس بات پر مجبور کر دیں کہ وہ آپ کی حقیقت یعنی طاقت کا احترام کریں یا آپ اپنے سے بڑے طاقت ور کے ہاتھوں ہمیشہ بلیک میل اور دباؤ میں آکر انہی کے فسلفے کی پیروری کرنے پر مجبور ہو جائیں یعنی دنیا میں سیاست کے دو حصول ہیں یا آپ طاقت بن کر اپنے نظریہ منوائیں یا کمزور بن کر طاقت ور کی غلامی کریں یا اس کے فلسفے پر چلیں۔ اسی سوچ کی وجہ سے دنیا میں ہر ریاست طاقت سے طاقت ور بننے کی جستجو میں ہے۔ اکثر یہ طاقت بننے کی سوچ خواہش سے بڑھ کر مجبوری بھی ہے کیونکہ کمزور کا وجود ہمیشہ خطرے میں ہوتا ہے اور دنیا میں طاقت ور ہی محفوظ رہ سکتا ہے آپ جتنا زیادہ طاقت ہونگے اتنا زیادہ محفوظ رہینگے۔ اس سوچ کے مطابق دیکھیں تو اس وقت پاکستان کے مقابلے میں بلوچ جنگی ساز و اسلحہ ، ہیومن پاور، اداراتی ساخت، فنانس اور بہت سے حوالوں سے کمزور ہے تو اس کا صاف مطلب ہے کہ جب تک ہم کمزور رہینگے تو ہم دشمن کے ہاتھوں دبنے پر مجبور ہوتے رہینگے مطلب جہاں وہ ہمیں دکیھلنا چاہتا ہے ہم ادھر مصروف ہوتے رہینگے اور دشمن بلوچستان میں اپنی جڑیں مضبوط کرتا جائے گا اس لیے ہمیں Offensive Realism کے نظریے کے تحت طاقت پر زور دینے کی کوشش کرنی چاہیے کہ ہم کس طرح ریاست کے مقابلے میں زیادہ سے زیادہ طاقت حاصل کر پائیں گے تاکہ ہم دشمن کے مقابلے میں ایک منظم جنگ کر سکیں۔ دنیا طاقت کی بات سنتی ہے اور سمجھتی ہے ، جان میرشمیر کی Offensive Realism تھیوری پورا اسی سوچ پر مبنی ہے جس کی مثال چین ہے جس کے پاس ہزاروں سالوں سے دنیا کی سب سے بڑی آبادی موجود رہی ہے لیکن طاقت نہ ہونے کی وجہ سے دنیا میں اس کی کوئی حیثیت نہیں رہی ہے بلکہ وہ ہمیشہ برطانیہ اور جاپان کے یلغار کا شکار رہی ہے لیکن جب سے چین دنیا کے سیاسی سسٹم میں ایک طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے آ رہی ہے دنیا بھر کے سیاسی اور جنگی معاملات اور افئیرز میں اس کا اثرو رسوخ بڑھتا جا رہا ہے بلکہ آج کاروبار سے لیکر جنگی تنازعات تک چین ایک بااچر فیلئر کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ امریکہ خود اسی Offensive Realism کی پیداور ہے جہاں وہ عرصہ دراز سے دنیا کے سیاسی اور جنگی معاملات سے الگ تلگ رہ رہا تھا جنگ عظیم اول اور بلخصوص جنگ عظیم دوئم کے بعد وہ دنیا بھر میں اپنی من مانیاں کر تا پھر رہا ہے۔
اب یہاں یہ بات سامنے آئے گی کہ بلوچ طاقت کیسے حاصل کر پائے گی اوروہ کونسے ذرائع ہیں جو بلوچ قومی تحریک کو ریاست کے مقابلے میں ایک طاقت ورکی حیثیت سے شناخت دے سکیں گے۔ گوکہ کسی بھی ریاست یا تحریک یا تنظیم کی ترقی اور نشوونما کا تعلق کسی ایک فرنٹ سے نہیں ہو سکتا جیسے کہ آپ کے ایک مضبوط فوج کھڑا کرنا چاہتے ہیں لیکن مضبوط فوج کیلئے دو چیزیں اہم ہوتے ہیں ایک Wealth اور دوسرا Manpower۔ اب یہ دونوں کیسے حاصل ہوتے ہیں پھر اس میں آپ کے نظریات کا پرچار، پروپیگنڈا، سیلز کا مضبوطی سے ایکٹیو ہونا، تنظیم کے اندر ایک مضبوط ڈسپلن کا ہونا، قیادت کا بروقت سہی فیصلے لینا، اوپر سے نیچے تک تنظیم اور پارٹی کے تمام کیڈرز پر بھروسہ اور ان کی تربیت کا مرحلہ ، صلاحیتوں کو سامنے لانا اور ایسی بہت سی ضرورتیں ہیں جو ایک مضبوط تنظیم کاسبب بنتی ہیں اور پھر تنظیم اس طاقت کا استعمال کرکے ایک مضبوط فوج بنانے کیلئے Wealth and manpower کا بندوبست کر لیتا ہے۔ قومی تحریکوں کے حوالے سے ایک غلط تاثر یہ بھی ہے کہ یہ outsiders کی حمایت کے بغیر wealth جمع نہیں کر سکتے یا کامیاب نہیں ہوتے جبکہ حقیقت میں اسی زمین پر جب ریاست جس کا تعلق یہاں نہیں، جس سے عوام نفرت کرتی ہے، دشمن سمجھتی ہے، قبضہ گیر سمجھتی ہے وہ یہاں کروبوں کا wealth جمع کر سکتا ہےتو ایک گوریلا فوج کا تعلق اسی قوم، اسی زمین، اسی خاک سے ہے، یہاں کے لوگوں سے ہے، یہاں کے کاروبار سے ہے تو وہ گوریلا فوج کیسے اپنے ضرورتوں کے مطابق اور ریاست کے مقابلے میں wealth جمع نہیں کر سکتی اس کا بھی تعلق اسی سیاسی اور تنظیمی اپروچ سے ہے جس سے تم اپنی طاقت منوانا چاہتا ہو۔ بلوچ تحریک کے اندر اس سیاسی اپروچ کو منظم کرنے کی ضرورت ہے جو وہ طاقت بننا چاہتا ہے جس کا ذکر جان میرشمیر کرتے آ رہےہیں جس کے بغیر آپ کا وجود سیاسی دنیا میں کچھ بھی نہیں ہوتا۔ جان میرشمیر گوکہ نیشنلزم کو موجودہ دنیا میں سب سے مضبوط اور منظم نظریہ سمجھتے ہیں بلکہ موجودہ دنیا میں آخری طاقت نظریہ سمجھتے ہیں لیکن وہ سیاسی اپروچ میں نظریے کو اتنی اہمیت نہیں دیتے اورPower Politics پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ اس کی مثال آج اسلامک ممالک اور چین و روس جیسے معاملک کے درمیان نظریاتی نہیں بلکہ مضبوط سیاسی اور جیو پولیٹکل مفادات پر مبنی رشتہ ہے ۔
بلوچ قومی تحریک اور بلخصوص جنگی فرنٹ میں Offensive approach تحریک کیلئے نیک شگون ہے کیونکہ کوئی بھی فوج یا گوریلا فورس اس وقت تک مضبوط فوج میں تبدیل نہیں ہوتی جب تک وہ Offensive Approach کے ساتھ اپنی جنگی اور سیاسی جدوجہد کو آگے بڑھائیں۔ مثال کے طور پر بلوچستان میں حالیہ کچھ سالوں سے فدائین کے حملے ہیں۔ اب یہاں فدائین سے زیادہ اس سوچ اور اپروچ پر بات کرنے کی ضرورت ہے کہ اس سے کونسے سیاسی نتائج کس حد تک برآمد ہو رہے ہیں اور Realistic approach کے ساتھ اس کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کہ آیا یہ آپریشن اپنے “سیاسی مقاصد” حاصل کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں یا نہیں۔ یہ کوئی جذباتی باتیں نہیں ہوتی چاہے وہ مخالفت کی صورت میں ہو یا حمایت کی بلکہ یہ تھوریٹکل بحث و مباحثے کے تقاضے کرتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی یہاں مثال امریکہ کا ناگا ساکی اور ہیروشیما پر ایٹمی دھماکے ہیں۔ امریکہ آج تک ان دھماکوں کے حوالے سے نہGuilt میں ہے اور جاپان کے ساتھ انتہائی مضبوط تعلقات کے باوجود آج تک انہوں نے جاپان سے ایٹمی دھماکوں کے حوالے سے معافی بھی نہیں مانگی اس کی بنیادی وجہ یہ ہےکہ امریکہ اور اس کے تجزیہ نگار آج بھی سمجھتے ہیں کہ جنگ عظیم دوئم کے خاتمے کیلئے یہ حملے ضروری تھے۔ اگر امریکہ ہیروشیما او رناگاساکی پر حملہ نہیں کرتا تو جاپان اپنی آخری سپاہی تک لڑنے اور مرنے کیلئے تیار تھا ۔ ناگاساکی اور ہیروشیما پر حملوں سے پہلے امریکہ نے جاپان کے صرف ایک گاؤں پر قبضے کرنے کیلئے دو مہینے سے زیادہ وقت اور تقریبا 25 ہزار سے زائد سپاہی ہاتھ سے دوبیٹھے تھے ۔ اگر Offensive Realism نظریے کے مطابق دیکھیں تو وہ سہی وقت پر سہی حملہ کرنے میں کامیاب ہوا اس لیے آج وہ دنیا بھر میں ہیومن رائٹس کا چیمپین بناپھرتا ہے۔ جیسے کہ ہم فدائین کے حملوں کے حوالے سے ان سیاسی مقاصد کے حوالوں سے بات کر رہے تھے۔ کسی بھی گوریلا آپریشن کے تین بنیادی مقاصد ہوتے ہیں جس میں سب سے پہلا مقصد دشمن کو فزیکل اور نفسیاتی طور پر نقصان سے دوچار کرنا، اس کے تحریک کے حوالے سے سیاسی مقاصد حاصل کرنا اور دنیائی سیاسی و جنگی حالات کے مطابق ان کے ضرورتوں پر پورا اترنا۔
اگر پہلے مقاصد پر بات کی جائے تو اس حوالے سے دشمن کے خلاف کسی بھی گوریلا آپریشن کیلئے یا عام طور پر کسی فوجی کانوائے پر حملہ کرنے کیلئے بھی درجنوں گوریلاز کی زندگی خطرے میں رہتی ہے اور دشمن کی کسی بھی ہوشیاری پر نقصان سے دوچار ہو سکتے ہیں جبکہ کسی بڑے آپریشن یعنی دشمن کے اکثر و بیشتر بڑے ٹارگٹ شہروں میں مکمل سیکورٹی کے حصار میں ہوتے ہیں، یہاں فدائین حملوں کے علاوہ آپ کو کسی بھی آپریشن کو انجام دینے کیلئے سینکڑوں لوگوں کی ضرورت ہوگی جہاں سینکڑوں گوریلا کی زندگی جا سکتی ہے کیونکہ دشمن کو اگر نفسیاتی اور فزیکلی بڑے نقصانات سے دوچار کرنا چاہتے ہو تو اس کے سیف زونز پر حملے کرنے ہوتے ہیں۔ Safe Zones جس طرح گوریلا کیلئے ضروری ہوتے ہیں اس لیے کسی بھی فوجی افسر، کمانڈ یا انٹلی جنس افسر کو بھی کاؤنٹر انسرجنسی کیلئے علاقائی بنیادوں پر Safe zones کی ضرورت ہوتی ہے جہاں سے وہ علاقے کا سروے، عام عوام کی نفسیات، گوریلا ساتھیوں کے چال چلن اور تمام حالات کا بہتر سے بہتر تجزیہ کرکے کاونٹر انرجنسی کے پالیساں مرتب دے سکتا ہے اس کیلئے ضروری ہے کہ دشمن کو بلوچستان کے اندر safe zone مہیا نہ ہو اور پالیساں اسلام آباد سے تیار کرنے پڑیں۔ کیونکہ جب دشمن کو خود بلوچستان کے اہم شہروں میں Safe zone حاصل نہیں ہونگے یعنی وہ نفسیاتی طور پر ریلیکس نہیں ہوتا اور کسی بھی وقت حملے کی زد میں آنے کی خوف اس کے ذہن میں رہتا ہے جس سے وہ بہتر پالیسیاں ترتیب نہیں دے سکتا ۔ جب دشمن بلوچستان کے علاقوں اور شہروں میں اپنے لیے Safe zone حاصل نہیں کر پاتا تو اس کا دارومدار و انحصار علاقائی مخبر، کرپٹ اور گند کردار اور پیسوں کے لالچ خوروں پر ہوگا جو تحریک کیلئے سہی ہے کیونکہ ایک مخبر، کرپٹ اور پیسوں کی فوجاری یا جنگ میں کسی سے زاتی دشمنوں کیلئے ہتھیار اٹھانے والا کوئی بھی شخص تحریک اور جنگ کے خلاف counter insurgency کے کوئی منظم پالیسی تیار نہیں کر سکتا اور علاقے میں نفسیاتی اور سیاسی جیت گوریلا کو حاصل ہوگا جبکہ دوسرا فائدہ دشمن کے سرمایہ ہے جو دیہی علاقوں میں نہیں ہوتا اور اس پر کافی سیکورٹی بھی ہوتا ہے۔ اب ایسے کسی بڑے سرمایہ کو نقصان پہچانے کیلئے ایسے گوریلا آپریشن ضروری ہوتے ہیں جہاں آپ کی Human losses کم اور دشمن کے نقصانات زیادہ ہوتے ہیں۔ فدائین یا خودکش حملے صرف گوریلافورسز نہیں بلکہ جدید دنیا میں ریاستیں حتی کہ بھی اس آپشن پرضرورت کے وقت کام کرتے ہیں۔ استاد اسلم جیسے اہم ٹارگٹ کو حاصل کرنے کیلئے ریاست نے خود بھی ایسے کارنامے انجام دیے ہیں، حالیہ یوکرین جنگ میں دشمن کی پیش قدمی کو روکنے کیلئے اورجنگی ضرورتوں پر ایسے کئی آپریشن ہوئے ہیں جس میں فوجیوں نے بطور خودکش حملہ دشمن کو نقصان پہنچایا۔ اگر پہلے آپشن کی بات کی جائے تو میرے خیال سے اس میں کوئی دورائے نہیں ہو سکتا کہ خود کش حملے یا فدائین حملے کسی بھی بڑے جنگ میں اہم اور ضروری ہوتے ہیں اور ان کا استعمال شدت سے کرنا چاہیے ہوتا ہے تاکہ دشمن کو ان کے safe zones کے اندر زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جا سکیں۔ جبکہ اس کے نفسیاتی اثرات دشمن پر قاری ضرب کی حیثیت رکھتے ہیں، ایسے حملوں سے دشمن کا کوئی بھی افسر یا اہلکار بلوچستان میں سکون کی نیند نہیں سو سکتا اور ہر وقت وہ اپنے مرنے کے خوف سے ڈرا رہتا ہے یا کسی بھی حملے کی امید لگائے رہتا ہے اور اس طرح دشمن نفسیاتی طور پر بھی مفلوج ہوتا ہے۔
دوسرا گوریلا مقصد فدائین حملوں کے سیاسی مقاصد ہوتے ہیں۔ اگر بلوچ سماج کا بغور جائزہ لیا جائے اور کسی بھی فدائی حملے کے سیاسی مقاصد کے حوالوں سے بات کی جائے تو سب سے پہلے یہ سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ کسی بھی قومی تحریک کے سیاسی مقاصد ہوتے کیا ہیں۔ میری ناقص رائے کے مطابق کسی بھی تحریک کیلئے سب سے اہم یہ ہوتا ہے کہ عوام تحریک پر زیادہ سے زیادہ بھروسہ کریں بلکہ اس پر ایمان لائیں اور کوئی بھی قوم اس وقت کسی بھی تحریک پر ایمان لائے گا جب انہیں اس بات کا احساس ہوگا کہ اس تحریک سے جڑے قیادت، نوجوان اور ساتھی اس قوم سے بے انتہا مخلص اور اس کی آزادی کیلئے سب کچھ قربان کرنے کیلئے تیار ہوتے ہیں اور یہ اعتماد تحریک پر فدائین حملوں سے بہتر پیدا نہیں ہو سکتا جب قوم ان نوجوانوں کو دیکھ رہی ہے کہ عشق وطن اور قوم کے آزاد مستقبل کیلئے شاری،سمیہ، سلمان حمل، ریان، کچکول، زیبر، سربلند، بلال، عطا، شوکت حکیم، میرین جمالدینی جیسے انگت نوجوان اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہےہیں۔ ان قربانیوں سے قوم کا اس جدوجہد پر ایمان کی حد تک بھروسہ قائم ہو رہی ہے اور قائم ہوگی کیونکہ کوئی بھی قوم اس وقت اپنے گوریلا اور جنگجوؤں سے محبت کی انتہا کو جائے گا جب گوریلا قوم کیلئے اپنا سب کچھ دے گا۔ جبکہ گزشتہ چار سالوں سے ہم نے اس حقیقت کو دیکھا بھی ہے جہاں بلوچ قوم فدائین سے اپنی والہانہ محبت اور اس تحریک سے بے انتہا محبت دیکھا رہی ہے کیونکہ قوم دل کی اتھا گہرایوں تک یہ بات سمجھ چکی ہے کہ بلوچ گوریلا قوم کے اصل وارث ہیں اور اپنا سب کچھ اس وطن پر قربان کر رہے ہیں۔ فدائین کے وارثوں کو بلوچ سماج میں انتہائی عزت و احترام سے دیکھا جاتا ہے اور ان کی قربانیوں پر ان پر ناز کیا جاتا ہے۔ یہ کسی بھی تحریک کیلئے ضروری ہوتے ہیں کہ قوم کا تحریک پر ایمان کی حد تک یقین قائم ہو کیونکہ جنگ سے کسی بھی قوم کو شدید نقصانات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور یہ نقصانات قوم اس وقت برداشت کر لے گی جب وہ گوریلا فورس اور جہدکاروں سے ایسی قربانیاں دیکھی گی۔ اگر سیاسی مقاصد کے حوالے سے دیکھا جائے تو کوئی بھی فدائی حملہ اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب رہتا ہے۔ جبکہ اس کے علاوہ گوریلا فورس کے اپنے صفحوں کے اندر ساتھیوں کی اس طرح کی قربانیوں دیکھ کر دیگر جنگجو اور گوریلا مزید شدت اور جذبے کے ساتھ لڑنا شروع کرتے ہیں۔ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ جنگ میں مورال کا بہت اہم کردار ہوتا ہے جب تک گوریلا ساتھیوں کا مورال بڑا نہیں رہتا وہ دشمن پر قاری ضرب لگانے سےہمیشہ خطرہ محسوس کرتے رہتے ہیں تو جنگ میں گوریلا فورس کے مورال کو ہائی رکھنا ہمیشہ ضروری ہوتا ہے اور فدائین حملے اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے سب سے اہم ہوتے ہیں۔ اس لیے ان حملوں کیلئے گوریلا صحفوں میں مزید شدت سے سوچ پیدا کرنا چاہیے ہوتا ہے تاکہ ہر گوریلا فدائین بن کر دشمن پر ٹوٹ پڑھیں اور کسی بھی گوریلا کارروائی کیلئے بھی اسی جذبے کے ساتھ لڑیں جو ایک فدائین لڑ رہا ہوتا ہے۔
اس کے تیسرے اہم مقاصد عالمی ہوتے ہیں جو کوئی بھی تحریک عالمی اور علاقائی سطح پر خود کو منوانا چاہتا ہے۔ عالمی سطح پر بات کرنے کیلئے پھر ہمیں Offensive Realism کی طرف جانا چاہیے یعنی عالمی طاقتوں کیلئے کیا معنی رکھتے ہیں۔ اگر ہیومن رائٹس کے حوالے سےدیکھا جائے تو آج عالمی طاقتیں اسرائیل جیسے فوج کے خلاف کیوں کر کھڑے ہیں جو فلسطین میں سرے عام جنگی جرائم میں ملوث ہیں بلکہ صرف کھڑے نہیں بلکہ فلسطین کے خلاف لڑنے کیلئے اسرائیل کو ہتھیار اور جنگی اسلحہ و پیسے مہیا کر رہے ہیں۔ یعنی طاقتوں کیلئے اہم ان کے مفاد ہوتے ہیں اور اگر بلوچ اور عالمی مفادات کو یکجا کرکے دیکھا جائے تو چین اس وقت یورپی طاقتوں اور بلخصوص امریکہ کیلئے سردرد ہے جبکہ پاکستان افغانستان، ہندوستان سمیت اپنے تمام ہمساہوں کیلئے کسی بھی ایک ناسور سے کم نہیں ہے تو یہ وقت پاکستان کے خلاف ایک بڑے جنگ کیلئے سب سے سازگار ترین وقت ہے۔ جبکہ اس کے علاوہ پاکستان اس وقت مالی طور پر کنگال ہے کسی بھی فوج کیلئے بڑی لڑائی لڑنے کیلئے بڑا wealth چاہیے ہوتا ہے اور خاص کر بلوچستان جیسے انتہائی وسیع جغرافیے میں لڑنےکیلئے پاکستان کو کربوں ڈالر چاہیے ہوتا ہے جو اس وقت وہ ریاست کو چلانے کیلئے آئی ایم ایف اور سعود ی و چین کے ہاتھوں یرغمال ہے جبکہ دوسری جانب ریاست کی اپنی سوسائٹی بھی مکمل طور پر collapse کرنے کے مقام پر ہے جہاں فوج کے خلاف پاکستان بھر میں شدید نفرت پایا جاتا ہے ، سیاسی استحقام نہیں جبکہ بارڈرز پر clashes جاری ہیں۔ ایسے حالات کسی بھی قومی تحریک کیلئے سازگار ترین حالات ہوتے ہیں کہ وہ قابض کے اس کمزور پوزیشن کا فائدہ اٹھائیں جس طرح قابض نے بلوچ قوم کی کمزور پوزیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے 1947 میں حملہ کرکے بلوچستان پر قبضہ کیا تھا۔ ایسے حملے ریاست کے سرمایہ کو مزید نقصان پہنچا سکتے ہیں جبکہ سرمایہ کاری کے عمل کو روکنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو فدائین کے حملے ہر حوالوں سے بہتر حکمت عملی اور موجودہ تحریک کی سب سے اہم ضرورتیں ہیں جنہیں مزید منظم کرنے کی ضرورت ہے۔
جبکہ بلوچ تحریک اور سماج میں ہمیشہ ایک سوچ موجود رہی ہے جو تحریک کی ریڈیکلائزیشن کے خلاف رہی ہے جن کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ تحریک کو بطور ایک Pressure groupکے استعمال کیا جائے اور دشمن کو دباؤ میں رکھیں لیکن کسی بھی تحریک کی کامیابی کیلئے تحریک کی ہر گزرتے دن اور مہینے کے ساتھ مزید ریڈکلائزیشن ضروری ہے کیونکہ اسی سوچ کے ساتھ ہی گوریلا جنگ conventional war کی طرف جا سکتی ہے۔ کوئی بھی گوریلا فورس ہمیشہ گوریلا فورس نہیں رہتا بلکہ اس کے 3 Stages ہوتے ہیں جس میں پہلا Stage گوریلا حملے ہوتے ہیں جبکہ دوسرا مرحلہ دیہی اور ریاست کے کمزور رٹ پر قائم علاقوں پر قبضے اور اپنی حکومت بنانا جبکہ آخری مرحلہ Conventional war ہوتا ہے جہاں آپ بطور فوج اپنے دشمن کے خلاف لڑتے ہیں جس طرح ویتنام نے امریکہ کے خلاف ، الجزریا نے فرانس، نارتھ کوریا نے جاپان اور امریکہ کے خلاف لڑا۔ آپ کوئی بھی گوریلا ہمیشہ کیلئے گوریلا رکھ نہیں سکتے بلکہ اگر ضرورت اور وقت پر آپ نے اس کو آگے لے جانے کی کوشش نہیں کی اور اس کو ایک ہی مقام پر رکھنے کے سوچ کے پابند رہے تو تحریک منجمد ہو جائے گی ۔ Conventional War کسی بھی گوریلا فوج کا آخری اور آئیڈل مرحلہ ہوتا ہے جہاں دشمن اور آپ کی فوج کے درمیان کامیابی اور ناکامی کا فیصلہ کن مرحلہ آتا ہے۔ گوریلا فوج کو کنونشل جنگ کیلئے تیار کرنے، اس کیلئے ہیومن رسورسز پیدا کرنا اور conventional war کی تیاریاں کرنا کسی بھی قیادت کیلئے ضروری ہوتا ہے۔ بلوچ قومی تحریک میں فدائین حملے ایک نئی سیاسی اپروچ کی نشانی ہیں جو کنونشل وار کی طر ف جانے کیلئے پہلے قدم ہیں جب یہ مضبوط ہوتے جائیں گے، ہیومن رسورس بڑھتا جائے گا پھر کنونشل وار کی بھاری بھی آئے گی اور اس کیلئے تیاری بھی منظم رہے گی ۔ لیکن اگر تحریک کے اندر ریڈکلائزیشن کے سوچ کو جمود کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کے نقصانات ہونگے، لوگ تھک ہار جائیں گے، جذبات کمزور پڑ جائیں گے۔ Protected war کے تین مرحلے ہوتے ہیں اور ان کیلئے اکثر و بیشتر دس سے بیس سال کا عرصہ ہوتا ہے۔ بلوچ 20 سال سے پہلے اسٹیج پر لڑ رہی ہے جو Protected war کے بھی برخلاف ہے بلکہ اس کا عرصہ 10 سے 20 سال کا ہوتا ہے اس لیے بلوچ قومی تحریک اب ریڈکلائزیشن کے عمل کو مزید منظم کریں اور اس سوچ کو صرف جنگی فرنٹ نہیں بلکہ ادب سے سماج تک ہر شعبے میں فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ مچھ اور حالیہ دنوں گوادر میں جو کامیاب فدائی حملے ہوئے یہ ایک نئی سیاسی اور جنگی اپروچ کا شاخسانہ ہے جس کا مقصد بلوچ گوریلا جنگ اور قومی تحریک کو اگلے مرحلے میں داخل کرنا ہے جس کا آخری stage کنونشل وار ہے۔ تحریک سے جڑے جہدکاروں کو اس سوچ کو فروغ دینے اور اس کو تمام تنظیموں کے صحفوں میں جگہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ہم دشمن کا بہتر سے بہتر طریقے سے مقابلہ کر سکیں۔