بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے نومنتخب چیئرمین جیئند بلوچ و دیگر رہنماؤں نے کوئٹہ میں پریس کانفرنس کی۔
رہنماؤں نے پریس کانفرنس میں کہا کہ اکیسویں صدی کا آغاز عالمی سرمایہ داری معیشت کی زوال کا صدی ثابت ہوا جس سے دنیا بھر میں سیاسی عدم استحکام اور سماجی خلفشار نے جنم لیا۔ عالمی سرمائے کے ٹھیکیدار ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی 2007/8 میں مالیاتی کریش نے یورپ سے لیکر افریقہ تا مڈل ایسٹ تک ریاستوں کے پرخچے بکھیر دیئے۔ آکوپائی وال اسٹریٹ موومنٹ سے لیکر 2011 کی عرب اسپرنگ کی تحریکیں آج بھی اتار چڑھاؤ کے ساتھ اپنا وجود رکھتی ہیں جو موضوعی عنصر کی عدم موجودگی کی بناء پر کسی انقلابی منطقی انجام تک پہنچنے سے گریزاں ہیں۔ لاطینی امریکہ اور یورپ بھی مسلسل انقلاب اور ردانقلاب کی کشمکش میں ہیں۔ جنوبی ایشیاء میں بحران کے اثرات براہ راست پڑ چکے ہیں۔ معاشی پستی کی شکار پسماندہ ریاستیں پہلے سے غیرمستحکم کیفیت میں تھیں، عالمی بحران نے تضادات میں نئے اضافے کیئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج کی سرمایہ دارانہ دنیا جو لوٹ مار کی آپسی مقابلہ بازیوں کے اصولوں پر قائم ہے، اس نظام کے اندر متضاد مفادات پر مبنی آپسی چپقلشوں کا سر اٹھانا ایک ناگزیر عمل ہے۔ اور یہ حقیقت ہر گزرتے لمحے کے ساتھ خود کو زیادہ واضح کررہی ہے۔ آج عالمی دنیا کے منظرعامہ پر جنگوں میں تیزی اضافہ اسی تسلسل کی ہی پیداوار ہے ۔
“جہاں ایک طرف یوکرین کے اندر امریکہ اور نیٹو یوکرین عوام سے زیادہ روس کے ساتھ یہ جنگ لڑرہی ہے، تو دوسری طرف عام یوکرینی عوام کی زندگیوں کو جنگی اکھاڑا بنا کر ان کے زندگی کے ہر لمحے کو زند و مرگ کے مابین مسلسل جدوجہد میں تبدیل کردیا ہے۔ جہاں امریکہ اور نیٹو فورسز نے عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں اپنے مرکزی سامراجی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے باقاعدہ طور پر روس کو اس کی دہلیز پر جنگوں میں گھسیٹ کر خطے میں نیٹو کا امریکہ اور برطانوی لیڈرشپ میں دوبارہ منظم کرکے ناصرف امریکی فوجی اور سیاسی اثر کو مسلسل بڑھا کر روس جیسی ابھرتی سیاسی اور معاشی قوتوں کا راستہ روک کر انہیں کمزور کرنے اور کا راستہ روکنے کی کوششوں میں ہے۔”
“دوسری جانب امریکہ کی طرف سے یہی پالیسی چائنہ جیسی معاشی اور سیاسی قوتوں کے خلاف استعمال کررہے ہیں۔ جہاں امریکی فوجی قوتیں یوکرین اور جورجیا میں روس کو ایک مسلسل نا تھمنے والی جنگ کا حصہ بنا چکے ہیں، وہی امریکہ چائنا کے برخلاف تائیوان میں بھی یکساں پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ تو دوسری جانب امریکہ خطے میں ابھرتی ہوئی جنگوں کے سبب عدم تحفظ کے ماحول اور یوکرین جنگ سے پیدا ہونے والے انرجی کے بحران نے یورپی یونین کے ممالک کو مجبور کر چکا ہے کہ وہ خطے میں اپنے اثر و رسوخ کو برقرار رکھنے کے لیے امریکہ کی ” تین نیٹو فارمولہ” کا حصہ بنیں۔ جو یورپین نیٹو کی صورت میں روس کے خلاف مورچہ زن دیکھائی دے رہا ہے۔ دوسری طرف انڈو پیسیفک ریجن میں چائنہ کے برخلاف اسٹریلیا، برطانیہ اور امریکہ کی سربراہی میں AUKUS کا قیام لایا گیا جو ” پیسیفک نیٹو” کے طور پر چائنہ کے خلاف کار فرما ہے۔ یکساں قسم کی فوجی صف بندیوں اور اتحاد کی پالیسی پر امریکہ اپنے دیگر عرب اتحادی ممالک اور اسرائیل کے ساتھ مشرق وسطیٰ میں ایران کے بڑھتے اثرورسوخ کو ختم کرنے اور امریکی اجارہ داری کو برقرار رکھنے کے لیے کار فرما ہے۔ غزہ اور لبنان میں اسرائیل اور دوسری جانب حزب اللہ اور حماس کی سربراہی میں ایک نا تھمنے والی جنگ کا آغاز ہو یا امریکی اور یمنی ملیشیا کے درمیان بحیرہ احمر میں مسلسل فوجی کشیدگی اور حالیہ دنوں میں امریکہ کی طرف سے شام اور عراق میں 80 کے قریب اہداف کو باقاعدہ طور پر فضائی بمباری کا نشانہ بنانا اسی تسلسل کی ہی کڑی ہے۔ امریکہ عالمی سرمایہ داری کے واحد چمپئین کے دعویٰ کو نیٹو طرز کے فوجی الائنسز اور دنیا کے محکوم اقوام کو ایک نئی عالمی جنگ کی طرف دھکیلنے پر پُرامید اور عمل پیرا دیکھائی دے رہی ہے ۔”
انہوں نے کہا کہ جہاں ایک طرف سامراجی قوتیں محکوم دنیا پر قبضہ گیریت کے لیے فوجی طور پر محکوم اقوام کی سرزمین پر ایک دوسرے کے خلاف فوجی طور پر صف بندی ہے، عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں معاشی عدم استحکام بھی تیزی سے بڑھتا ہوا دیکھائی دیتا ہے، افراط زر، مہنگائی، بے روزگاری اور زندگی کی بنیادی سہولیات سے ایک ارب کی قریب دنیا کی آبادی آج غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے۔ جبکہ عالمی طاقتیں ان سنجیدہ مسائل کو حل کرنے کے بجائے جنگی تنازعات کو تیز تر کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہوکر مزید محکوم اقوام کی زندگیوں کو جہنم بنانے کے لیے کمر بستہ ہے۔
“جہاں ایک طرف سامراجی بحرانات کے سبب سرمایہ دارانہ نظام کی اصل وحشت اور کمینگی کو تمام تر دنیا کے سامنے عیاں کیا ہے تو دوسری جانب ان بحرانات میں اضافے نے محکوم اقوام اور طبقات کا مزاحمتی صف بندیوں کا حصہ بن کر اس انسان کش نظام کے خلاف جدوجہد ایک ناگزیر عمل ہے، اور دنیا کی تمام جمہوری قوتیں اس امر کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے فلسطین سے لیکر لبنان تک اور لبنان سے لیکر کردستان ہو یا بلوچستان مسلسل عوامی تحریکات کے ذریعے ان جنگی ہولناکیوں کے خلاف اپنے غصہ کا اظہار کررہی ہے۔ اور ان اقوام کے لیے موت کا پیغام لانے والی قوتوں کے خلاف باعزت برابر، پُرامن اور مزاحمت کا پروگرام لیے ہوئے برسرِ جدوجہد ہے۔”
انہوں نے کہا کہ پاکستان اسوقت معاشی و سیاسی عدم استحکامت کی شکنجوں میں بری طرح پھنس چکی ہے جہاں اہم ریاستی اداروں عدلیہ، ملٹری، پارلیمان وغیرہ انتظامی امور میں آسیب کا منظر پیش کررہی ہیں جس کی بالواسطہ اثرات بلوچستان پر بھی پڑ رہی ہیں نیز اس ادارہ جاتی بحران نے استعماری قوت کیلئے مزید سفاکیت کی راہیں ہموار کیں، جس میں لاپتہ افراد کے کیسز میں شدت کے ساتھ اضافے، مسخ شدہ لاشیں ریاستی بوکھلاہٹ کی ترجمانی کرتی ہیں، اس کے برعکس ریاستی مظالم پر عوامی تحریکوں کا ابھار نیک شگن ہے، مگر افسوس کہ موضوعی بحران کی وجہ سے جس نوعیت کے فوائد عوامی تحریک دے سکتی تھی وہ نہ دے سکی، اس عالم میں یہ ضروری ہوگئی ہے کہ پاکستان و دیگر ممالک میں موجود مظلوم اقوام متحد ہوکر سامراجی و استعماری قوتوں کو شکست دے کر انسانی سماج کی تشکیل و قوموں کی حقِ خود ارادیت کو یقینی بنائیں، بلوچ قوم کو جس طرح جبری طور پر اس نئے ریاستی ڈھانچے میں گھسیٹا گیا، اسی طرح ڈنڈے کے زور پر حاکم قوم کی کلچر ادب زبان و تعلیم و تہذیب کو مسلط کرنے کیلئے غیر انسانی مشق کی جارہی ہے جسکے خلاف بلوچ کا فطری ردعمل مسلسل جاری ہے۔
رہنماؤں نے کہا کہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن وہ تنظیم ہے جو نوجوانوں کو اکیڈمک تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے ساتھ قومی و انقلابی شعور عطاء کرنے کی جتن 1967 سے کرتی آرہی ہے۔ گوکہ آج دنیا بھر کی طرح بلوچ سماج میں بھی غیریقینی کی کیفیت پائی جاتی ہے بلکہ محکومی کی طویل تاریخ نے سماج کو بری طرح تاراج کردیا ہے، نوجوان اجتماعی کاز سے کنارہ کش ہوکر انفرادیت پسندی کی مہلک رحجانات کے شکار ہوچکے ہیں۔ مگر اس سب کے باوجود بی ایس او کے نوجوان مقدس تنظیم کی اٹھائی ہوئی تحریک کو لیکر گامزن ہیں تا وقتیکہ فتح کی منزل تک پہنچا نہ جائے۔ اسی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے بی ایس او کا تئیسواں قومی کونسل سیشن 2 تا 3 مارچ کو سابقہ چیرمین چنگیز بلوچ کی زیرصدارت شال میں منعقد ہوا جسکی تقریب حلف برداری 4 مارچ کو کوئٹہ پریس کلب میں منعقد ہوئی۔
“بی ایس او کے تئسویں قومی کونسل سیشن میں عالمگیر معاشی و سیاسی حالات، بین الاقوامی صف بندیاں، جنوبی ایشاء کے بدلتے حالات اور مادر وطن بلوچستان پر اسکے اثرات، ماحولیاتی تبدیلی، اور دیگر اہم امور پر تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ بالخصوص تحریکوں کے تناظر پر طویل سائنسی مباحثے کیئے گئے۔ یہاں کی تعلیم اور تعلیمی اداروں کی کیفیت کا تناظر پیش کیا گیا۔ طلبہ سیاست اور طلباء کے مسائل پر سیر حاصل گفت و شنید کی گئی۔ جنکے پیش نظر مستقبل کی حکمت عملی و اہداف متعین کیئے گئے۔ اس سلسلے میں پہلی ترجیحات میں نوجوانوں کی تنظیمِ نو، تعلیمی اداروں میں متشدد ماحول و ملیٹرائزیشن کا خاتمہ، طلبہ یونین کی بحالی، علمی شعوری و سیاسی فضاء کا قیام، اور سسٹر آرگنائزیشن کے درمیان باہم اتفاق و اتحاد کی پالیسیاں ترتیب دی گئیں۔
انہوں نے کہا کہ قومی کونسل سیشن کے آخری ایجنڈے میں سابقہ مرکزی باڑی کو تحلیل کرکے الیکشن کمیشن تشکیل دیا گیا جسکے مطابق چیرمین چنگیز بلوچ کمیشن کے سربراہ چنے گئے تنظیم کے نئے کابینہ کیلئے مرکزی کابینہ اور مرکزی کمیٹی کے پوزیشن پر کونسلران نے اپنے درخواستِ نامزدگی جمع کیئے۔ جسکے مطابق چیئرمین جیئند بلوچ، سینئر وائس چیئرمین شیر باز بلوچ، جونیئر وائس چیئرمین نصیر بلوچ، سیکریٹری جنرل حسیب بلوچ، سینئر جوائنٹ سیکریٹری آصف نور بلوچ، جونیئر جوائنٹ سیکرٹری سدھیر بلوچ اور سیکریٹری اطلاعات سہیل بلوچ بلا مقابلہ منتخب ہوئے۔ اور مرکزی کمیٹی کے آٹھ پوزیشنز پر آٹھ کونسلران نے ہی درخواستِ نامزدگی جمع کیئے جس کے مطابق وھید انجم، عثمان بلوچ، رُخسار بلوچ، سراج بلوچ، ظہور بلوچ، ندیم بلوچ، فرید بلوچ، اور بلال بلوچ بلا مقابلہ منتخب ہوئے۔