مت روئیں، یہ جنگ ہے۔ مضبوط بنیں – روھان بلوچ

426

مت روئیں، یہ جنگ ہے۔ مضبوط بنیں

تحریر: روھان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کسی بھی مسئلے پر بات کرنے یا کچھ لکھنے سے پہلے اس مسلئے کی بنیاد اور جڑوں کو مطالعہ کرنا اور سمجھنا ضروری ہے خاص کر ایک نوآبادیاتی ڈھانچے میں اکثر مسائل کے ظاہری آثار کچھ اور ہوتے ہیں مگر درپردہ مسائل کا جڑ اور بنیاد نوآبادیاتی ڈھانچے سے جڑا ہوتا ہے مگر ظاہری طور پر مسائل کو ایسے پیش کیا جاتا ہے گویا ان کا قبضہ گیریت سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ بھی در حقیقت ظالم کا مظلوم کے دیکھنے، سوچنے اور پرکھنے کے انداز کو اپنے بیانیہ کے سانچے میں ڈالنے کوشش ہے تاکہ ہر مسئلہ ظالم اور مظلوم کے رشتے سے جڑے نہ رہے اور حاکم کی حتی الوسیع کوشش ہوگی کہ تمام مسائل کے پیدا کردہ ہوتے ہوئے بھی بری الذمہ رہے جیسے غلام سماج میں مسائل مذہب یعنی تقدیر و مقدر کے کھاتے میں دیکھے جاتے ہیں، کچھ مسائل قدرت و آفات کے کھاتے میں گنے جاتے ہیں، کچھ مسائل غلام سماج کے اپنے پسماندگی کے کھاتے میں ڈالے جاتے ہیں اور کبھی یہ بیانیہ بھی مضبوط تھا کہ بلوچ سماج میں ہر مسئلے کی بنیاد ان کے اپنے سردار ہیں وغیرہ وغیرہ۔

بلوچستان میں ایسا ہی ایک مسئلہ بظاہر روڈ ایکسڈنٹ کے نام پر جانا جاتا ہے مگر درحقیقت یہ ریاست کی ایک مخفی پالیسی ہے جس کیوجہ سے سالانہ ہمارے سینکڑوں لوگ اپنے فطری موت سے پہلے مارے جاتے ہیں اور ہم بھی ایسے اموات کو حادثہ کہہ کر چند دن کی آہ و زاری کے بعد دوسرے ایکسڈنٹ کے انتظار میں خاموش ہوجاتے ہیں۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر ہم نے کبھی بطور ایک کالونیل مسئلہ بات نہیں کی اورسرکار کے بیانیہ کے عین مطابق من و عن قبول کیا اور یوں ہر سال روڈ ایکسڈنٹ کے نام پر اپنے سینکڑوں پیاروں کے لاشیں خاموشی سے دفناتے ہیں۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کیوجہ سے شرح اموات دیگر تمام مسائل کے شرح اموات سے کئی گناہ زیادہ ہے حتی کہ روڑ حادثات کے اموات ایک جنگی حالت میں بھی سالانہ جنگ میں شرح اموات سے بھی کئی زیادہ ہے مگر انتہائی افسوس کیساتھ ہم نے بلکہ بلوچ سماج میں کسی بھی ادارہ، تنظیم یا فرد نے اس مسئلے کو ایک کالونیل مسئلہ سمجھ کر پیش نہیں کیا۔

میں سمجھتا ہوں کہ چند دن کی فریاد، آہ و زاری یا ایک مختضر آرٹیکل لکھنا ہرگز کافی نہیں بلکہ اس پر اداراتی و تنظیمی طور پر کام کرنے ضرورت ہیں۔ کیوبا کے جنگی حالت میں ڈاکٹر چی گویرا اور اس کے جنگجو عام عوام کے لئے سایہ، چھت اور گھر کا بندوست کرسکتے ہیں، ویتنام کے جنگی حالت میں ہوچی منھ کے سپاہی عام عوام کو معیشت، روڈ، ہسپتال و دیگر سہولیات دے سکتے ہیں، چیرمین ماؤزے تنگ کے سپاہی عام عوام کے لئے کاشتکاری کرسکتے ہیں پھر ہمارے ہاں عوام کے روزمرہ مسائل و اموات پر بات کیوں نہیں ہوسکتی۔ میں جانتا ہوں کہ ہمارے تنظیم اور ادارے اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ اپنے عام عوام کو وہ سہولیات دے سکے جو چین، ویتنام یا کیوبا کے سپاہیوں نے دیئے تھے مگر کم از کم اتنا تو کر سکتے ہیں کہ اس روڈ ایکسیڈنٹ کے مسئلے کو ایک کالونیل مسلئے کے طور پر پیش کریں، حادثاتی موت کے نام پر ریاست کے بیانیہ کو کاونٹر سکتے ہیں تاکہ ہر واقعہ کے بعد چند جزباتی الفاظ کے ساتھ چند تصاویر شیئر کرکے دوسرے واقعہ تک خاموشی سے نہ بیٹھے بلکہ اس پر خاموشی تھوڑ دیں، بات کریں، کام کریں تاکہ ظالم کے مخفی پالسی عام عوام کے سامنے آشکار ہو اور یہ اموات قدرتی حادثات کے کھاتے میں شمار ہونے کے بجائے ریاست کے ظلم و جبر کی پالیسی کے کھاتے میں گنے جائیں۔ جیسے پالو فرائرے سے کسی نے پوچھا تھا کہ جب عام عوام نا خواندہ ہوں تو آپ اس کو ظالم کے ظلم و جبر یعنی ظالم و مظلوم کے بیچ رشتے کو کیسے سمجھا سکتے ہیں تو پالو فرائرے نے جواب دیا کہ ظالم کے ظلم و جبر کے ہر پہلو کو عوام کے سامنے ایسے آشکار کریں کہ مظلوم کے دل میں ظالم کے لئے نفرت انتہا کے حد تک پیدا ہوسکے۔

حالیہ دنوں کوئٹہ ٹو کراچی شاہراہ وندر کے مقام پر جو واقعہ ہوا جس نے ہر دل کو ہلا دیا، ہر طرف سوگ کا سماں تھا، ہر آنکھ اشکبار تھی، چند ایسے نوجوان اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھےجنکی زندگیاں ایک جنگی ماحول میں حد سے بڑھ کر قیمتی تھیں، جن کو اپنی قوم اور آنے والی نسلوں کیلئے بہت کچھ کرنا تھا مگر اپنے فطری موت سے پہلے وہ موت کے آغوش میں ہمیشہ کیلئے خاموش ہوئے۔ یہ بات عین فطری اور اٹل ہے کہ جس سے ہمارا قربت زیادہ ہوں ان کے جانے پر ہم زیادہ افسردہ ہوتے ہیں، زیادہ زنجش ہوتی ہے اور جزبات پر بے قابو ہونا بھی فطرت کا حصہ ہے مگر ایک غلام سماج میں، ایک جنگی ماحول میں انسانی فطرت و عادات بہ نسبت ایک آزاد سماج کے کچھ مختلف ہوتے ہیں جیسے یہ ظالم ہی ہے کہ جس نے ہمارے نوجوانوں کو طبعی موت سے پہلے ہم سے چھین لیا۔ جنگی ماحول میں فطری جزبات، دکھ درد اور سوگ سے ظلم و جبر کی ماحول کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا بلکہ جنگ میں بے رحم اور سخت دل بننا پڑتا ہے جیسے فرانز فینن کا قول مشہور ہے کہ تشدد کا علاج اس سے بڑھ کر انتہائی تشدد ہی ہے۔ مارچ 1990 میں جب نسابین (Nusaybin) میں 13 کردش گوریلا ترکش فوج کے ہاتھوں ایک غار میں مارے گئے، لاشیں فوج کے تحویل میں تھیں اور ورثاء کیلئے اپنے پیاروں کو پہچاننا اور لاشیں فوج کے تحویل سے لینا مشکل تھا، بالآخر ایک بیس سالا گوریلا کاموران (Kamuran) کی شناخت ہوگئی اور بمشکل ورثاء لاش لینے میں کامیاب ہوئے۔ جوں ہی کاموران کے والد اس کے لاش کیساتھ آیا تو ہر طرف سوگ کا سماں چھا گیا، لوگ چیخ و پکار اور آہ و زاری سے لاش کو کندھا دے رہے تھے، سب زار و قطار سے رو رہے تھے تو بیچ میں کاموران کے ایک جنگی مزاج سے سرشار نوجوان رشتہ دار نے سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا “مت روئیں، یہ جنگ ہے۔ مضبوط بنیں” (“Don’t Cry, This is War. Be Strong”)۔

شاید یہ نوآبادیاتی ڈھانچہ کے ہی اثرات ہیں کہ ہم صرف جنگ میں مارے جانے والے بندوق بردار سپاہوں کی گنتی کو یاد رکھتے ہیں مگر اس نوآبادیاتی نظام میں ریاست کے مخفی پالیسوں سے مارے جانے والوں کی بات تک نہیں کرتے جو ہمارے روز کا معمول بن چکے ہیں، جو جنگ میں مارے جانے والوں سے کئی گناہ زیادہ ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب کراچی ایکسچینچ پر چار فدائیں کے شہادت کی خبر آئی تو بڑے پڑھے لکھے بھی چیخ اٹھے کہ جی چار فدائین کا ایک ساتھ شہادت درست فیصلہ نہیں، چار جوانوں کا ایک ساتھ جانا بڑا سانحہ ہے۔ جی ہم بھی مانتے ہیں کہ بڑا تکلیف دہ عمل ہے مگر آج کے جنگی حالات کا تقاضہ بھی ہے۔ مگر دوسری طرف ذہنیت یا تضاد دیکھئے کہ روڈ ایکسڈنٹ کے نام پر کبھی تیس اور کبھی پینتالیس لوگ منٹوں میں ایک ساتھ لقمہ اجل بن جاتے ہیں مگر اس پر نہ کوئی بحث مباحثہ ہوتی ہے نہ کوئی بڑا سانحہ کہا جاتا ہے۔

یاد رہے کہ ہم اسی ریاستی ڈھانچے کے زیر تسلط ہیں جس میں بنگالی اکثریت میں ہوتے ہوئے بھی اقلیت کے ہاتھوں نسل کشی کے شکار تھے۔ اسی بنگال میں جب 1970 کو سائکلون طوفان آیا تھا جسے “بھولا سائکلون” بھی کہا جاتا ہے جو بیسویں صدی کے خطرناک ترین وہلاکت خیز سائکلون تھا جس میں قریباً 500000 بنگالی تڑپتے تڑپتے موت کے شکار بنے، کئی دنوں تک لوگ بے بس بے سہارا پانی میں تڑپتے مدد کے منتظر رہے مگر ظالم و مظلوم کے رشتے کو برقرار رکھتے ہوئے حکمران طبقے نے جانے کی زحمت بھی نہیں کی حتی کہ طوفان سے بچ نکلنے والے لوگ بھوک سے مرنے لگے مگر وہاں خشک علاقوں کے گداموں میں پڑے گندم طوفان زدہ علاقوں تک لے جانے کیلئے کوئی فضائی سروس بھی نہیں دی گئی اور بالاآخر ہلاکتوں کی تعداد صرف تین دن میں لاکھوں تک جا پہنچی۔ بنگالیوں نے بہت جلد یہ محسوس کی کہ اس غیرفطری ریاستی ڈھانچے میں اپنے شناخت کے ساتھ زندگی و بقاء مشکل ہے، انہوں نے قومی ریاست کے تشکیل کے لئے اپنے راستے کا تعین کیا اور اپنے منزل کو جا پہنچے۔ اس غیر فطری ریاست میں آج ہم بنگالیوں سے بھی بدتر حالات سے دوچار ہیں۔ اب یہ ہمارے تنظیموں، اداروں، انٹلیکچول اور دانشوروں پر منحصر ہے کہ ہم اپنی منزل، قومی ریاست کی تشکیل تک جتنے دیر کریں گے اتنی ہی زیادہ قربانیاں دینا پڑے گی، اتنی ہی زیادہ لاشیں اٹھانا پڑے گی، اتنی ہی زیادہ صعوبتیں سہنا پڑے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔