فلسطين اسرائيل تنازعہ اور اس کا حل ۔ امیر ساجدی

290

فلسطين اسرائيل تنازعہ اور اس کا حل
تحریر: امیر ساجدی
دی بلوچستان پوسٹ

7 اکتوبر کے ہونے والے مہلک حملہ نے نا صرف فلطسین کو ڈیموگرافی کے حوالے سے تبدیل کیا بلکہ فلسطينيوں کے زندگیوں پر گہری اثرات ڈال دی جو دنیا کی تاریخ میں ایک خطرناک اور ناقابل فراموش لمحہ سے جانا جاتا ہے۔ اس حملے کا سبب فلسطينوں کے سرزمین پر اسرائيل کی غیر آٸینی فوجی آپریشنز، مسجد الاقصی کی بے حرمتی اور فلسطينيوں کے نسل کشی کی وجہ تھی۔ فلسطينی باشندے اتنے مجبور ہوچکے تھے کہ وہ ایک ایسی مزاحمانہ حملے کرنے پر مجبور ہوٸے جس کی وجہ سے آج تک اسرائيلی فوجی آپریشنز فلسطين میں جاری ٶ ساری ہیں۔

7 اکتوبر 2023 کو کیا ہوا؟

سات اکتوبر کے سورج نکلنے سے پہلے اسرائيل پر ایک ایسا حملہ ہوا جسے ” ناٸن الیون” حملے سے اگر موازنہ کیا جاٸے تو شاہد غلط نہیں ہوگا. اسی صبح بیس منٹ کے اندر اندر کم از کم پانج ہزار راکٹ اسرائيل کے اندر داغے گٸے اور پیراشوٹ کے زریعے حملہ آور اسرائيلی فوج کے چوکیون اور کیمپون کے اندر جا گھسے اور حملہ آور ہوٸے. اس حملے کو “حماس” نے قبول کرتے ہوٸے “آپریشن الاقصہ فلڈ” کا نام دیا جو اسرائيل پر فلسطينيوں کا سب سے بڑا حملہ ہے. باڈر ایریا میں شہری آبادی ہونے کی وجہ سے زیادہ تر اسرائيلی شہری حماس کی حملوں کے زد میں آٸے اور “سیولین کییولٹیز” ہوٸے. اس حملے میں اسرائيلی فوجی سمیت 1400 سے زیادہ لوگ مارے گٸے اور 260 کے قریب لوگ ” ہوسٹیجز”، جن میں شہری سمیت اسرائيلی یرغمال کٸے گٸے فوجی بھی شامل تھے، حماس کے جنگجون نے اپنے ساتھ نامعلوم مقام پر منتقل کٸے. جن میں کچھ مختلف ڈیل کے تحت چھوڈ دٸے گٸے اور کچھ آج تک حماس کے قبضے میں ہیں.

اسرائيلی ردعمل اور مغربی پروپیگنڈے

حملے کی اگلے دن اسرائيل نے آفیشلی “Operation Iron Swords” لانچ کیا اور حماس کو جڑ سے اکھاڈنے کا عزم کیا. اسرائيل نے فلسطين کے عام آبادی پر بمباری شروع کردی جس کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں بچے، بچیان، بزرگ مرد اور جواتین ان حملوں کے زد میں آٸے اور جان کی بازی ہار گٸے۔ اسرائيل کا دعوی ہے کہ حماس کے جنگجو ہسپتالوں، یونيورسٹيوں، اور اسکولوں میں چھپے ہوٸے ہیں تو اسی شک کی بنا پر اسرائيل نے وہاں ان جیسے اداروں پر حملہ کرنا شروع کردیا۔ اور اسرائيل کا ماننا ہے کہ فلسطين میں حماس کے جتنے انڈر گراؤنڈ سرنگ ہیں وہاں انہوں نے اسرائيلی یرغمال کٸے گٸے لوگوں کو چھپا رکھا ہے ہالانکہ اسرائيل نے اس سرنگ میں دریا کی پانی بھی پنپ کیا تاکہ ان کے اندر چھپے حماس کے جنگجو باہر نکل آٸیں مگر اسرائيل اپنے ان مقاصد میں بلکل ناکام ہوا اور اس کا کوٸی رزلٹ نہیں نکلا. اسرائيلی جارحیت آج تک وہاں جاری ہے اور فلسطين میں مرنے والوں کی تعداد 32 ہزار سے تجاویز کر چکی ہے جن میں سے پینتالیس فیصد بچے اور بچیان شامل ہیں.
مغربی ممالک، خاص طورپر امریکہ، نے ناصرف اسرائيلی ان جارحیت کو جسٹیفاٸی کی ہے اور اسرائيلی عمل کو “ایکٹ آف سیلف ڈفینس” کا نام دیا گیا ہے بلکہ امریکہ نے بلیٸنز کی جدید ہتهيار اسرائيل کو دیا ہے جو آج فلسطين میں سرعام استعمال ہورہے ہیں. امریکہ ایک طرف فلسطين میں انسانی حقوق کی تحفظ کی بات کرتا ہے تو دوسری طرف اسرائيل کو آرمز دیتا ہے. یہ ایک اعلی قسم کی پروپیگنڈا اور لوگوں کو بے وقوف بنانے کے سوا اور کچھ نہیں. اگرچہ اسرائيل کو آج مغربی مدد حاصل ہے مگر پھر بھی وہ کافی حد تک حماس کو شکست دینے میں ناکام ہوچکا ہے. آج تک وہ اپنے یرغمال کٸے گٸے لوگوں کو حماس سے آذاد نہ کر سکا اور دوسری طرف ان یرغمال کٸے گٸے لوگون کی خاندانوں نے کافی حد تک اسرائيل کو پریشراٸز کیا ہے کہ وہ ان کے لوگون کو صحیح سلامت کسی بھی طرح حماس کے قید سے نکالے. فی الحال تو اسرائيل مکمل طورپر اپنے مقصد میں ناکامی کا شکار ہے اور سرعام فلسطينيوں کی نسل کشی کررہا ہے اور دنیا تماشائی بن کر نظارہ دیکھ رہا ہے.

یہ مسلہ کیسے حل ہوسکتا ہے؟

میں کافی چیزون کو تجزیہ کرتا ہوں اور ان پر اپنی راٸے دینے کی کوشش کرتا ہوں. ویسے تو فلسطينيوں کا اپنا ایک تاریخ، زمین، تہذیب اور غیرمعمولی شناخت ہے. فلسطينيوں نے اپنی شناخت بچانے میں اپنے جان کا نزرانہ پیش کی ہیں اور ہمیشہ اسرائيل جیسے نوآبادکار کو اپنی سرزمين پر چیلنج کی ہے. جہان تک اس مسلہ کی حل کرنے کا سوال ہے، اس میں ایک چیز واضح ہے کہ فلسطين کے لوگوں میں پہلے سے آزادی کی خواب تھی اور اب وہ اسرائيل کے ہاتھوں اپنے سب کچھ کھو چکے ہیں اب اُن کے دل میں آزادی کی خواب نہیں بلکہ جنون ہے جسے کبھی چیلنج نہیں کیا جا سکتا.

اب فلسطين میں حالات بگڑ رہے ہیں اور اسرائيلی فوجی آپریشنز تیز ہورہے ہیں. ہالانکہ رمضان کے مہینے میں بھی اسرائيلی فوج کافی مقامات پر شیلنگ کررہے ہیں جہاں لوگوں کی مرنے کا خدشہ ہے. اسی طرح اس مسلہ کو ایک ہی حل ہے وہ ہے فلسطين کی مکمل آزادی. زیادہ تر تجزیہ نگار یہ کہتے ہیں کہ “Two state solution” ہی وہ حل ہے جو آنے والے وقت میں ان جیسے واقعات کا سبب نہیں بنے گا. اب یہ فیصلہ اسرائيل کے ہاتھ میں ہے اگر اسرائيل سکون چاہتا ہے تو اُسے جتنے فلسطينی قیدی ہیں وہ بازیاب کرنے ہونگے اور ” ٹو اسٹیٹ سلوشن” کو قبول کرنا ہوگا اگر ایسا نہ ہوا تو آنے والے وقت میں اسرائيل پر کچھ ایسے حملے ہونگے جو اسرائيل نے شاہد کبھی سوچھا ہی نہیں ہے. فلسطينيوں کا مزاحمت ان کے آخری سر اور آخری گولی تک جاری رہے گا.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔