نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی ترجمان نے بلوچستان کے جامعات کی مالی بحرانوں پر تشویش کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان یونیورسٹی سمیت بیوٹمز کا بحران دراصل اس ریاست اور اسکی طرز حکمرانی کا بد ترین عکس ہے۔ سیاسی پارٹیاں، اشرافیہ اور بیوروکریسی کے پاس اپنے شاہانہ اخراجات، موج مستیوں، کرپشن اور لوٹ مار کے لئے بے تحاشا پیسے اور وسائل موجود ہیں جبکہ بلوچستان کے اعلی تعلیمی اداروں میں موجو د اساتذہ سمیت دیگر ملازمین کے لئے تنخواہیں اور پینشن دینے کے لئے کوئی رقم موجود نہیں ہے۔
ترجمان نے کہا کہ بلوچستان کے اعلیٰ تعلیمی ادارے مکمل تباہی کے دہانے پر لانے کی ایک بڑی وجہ حکومت کی جانب سے جامعات کے اعلی عہدوں پر قابل اور لائق پروفیسران کی بجائے غیر قانونی طور پر سفارشی، نا اہل اور کرپٹ لوگوں کو تعینات کیا جا تا ہے، بلوچستان یونیورسٹی میں ہمیشہ سے بلوچستان سے باہر نااہل لوگوں کو چانسلر اور صوبائی حکومت کی ایما پر تعینات کیا جاتا ہے، ایسے وائس چانسلر اور دیگر انتظامی پوسٹوں پر براجمان لوگ بلوچستان کے اعلی تعلیمی جامعات کو مال مفت دل بے رحم سمجھ کر بھرپور کرپشن، لوٹ کھسوٹ کرکے کرپٹ حکمرانوں کی خوشنودی کیلئے سفارشی کلچر کو پروان چڑھاتے آ رہے ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ ایک جانب ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے ان جامعات کے فنڈز میں پچاس فیصد سے زیادہ کٹوتی کیا جا رہا ہے، اور دوسری جانب نام نہاد آٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم کا محکمہ بھی صوبائی حکومت کے اختیار میں ہے، لیکن بلوچستان میں وفاق پرست اسٹیبلشمنٹ نواز پارٹیاں نام نہاد الیکشن کروا کر قومی اور سماجی طور پر کرپٹ لوگوں کو بلوچستان کے عوام پر مسط کیا جاتا آ رہا ہے جن کا کام تعلیم یا صحت جیسے شعبوں کی طرف متوجہ ہونے کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی ہے، اور بلوچ، پشتون قوم پرست پارلیمانی پارٹیاں ایسے لوگوں کی تعیناتیوں میں روز اول سے پیش پیش رہے ہیں۔
ترجمان نے آخر میں کہا کہ بلوچستان کے محکوم اقوام بالخصوص بلوچ و پشتون کو باہمی اشتراک سے ریاستی انجینئرڈ انتہا پسندی کے خلاف ملکر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے، اس کے بغیر اس بد عنوان حکمرانوں اور فرسودہ گلے سڑے نظام سے چھٹکارا حاصل کرنا اور کسی بھی طرح کی عوامی مزاحمت نہ ہونے کی صورت میں بلوچستان پر صرف ظلم، استحصال، لوٹ کھسوٹ، سیاسی و معاشی بحران اور ریاستی جبر کو روکنا نا ممکن ہوگا۔