ایک سینئر مصری عہدیدار نے کہا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں جنگ بندی اور یرغمال بنائے گئے افراد کی رہائی سے متعلق معاہدے کے فریم ورک کی توثیق کر دی ہے اور اب یہ حماس پر منحصر ہے کہ وہ اس سے اتفاق کرے یا نہ کرے۔ دوسری طرف امریکی فوج کے C-130 کارگو طیاروں نے ہفتے کے روز غزہ میں فضا سے خوراک کے بنڈل گرائے ہیں۔ امریکی جہازوں سے پھینکے گئے 66 بنڈلوں میں کھانے کے 38 ہزار ڈبے شامل ہیں۔ غزہ کے جنوبی شہر رفح میں ہفتے کے روز اماراتی ہسپتال کے سامنے لگے پناہ گزین خیموں پر اسرائیل کے فضائی حملے میں گیارہ فلسطینی ہلاک اور پچاس زخمی ہو گئے۔ ان میں صحت کے عملے کے اراکین بھی شامل تھے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کے حملے کا نشانہ اسلامک جہاد کے عسکریت پسند تھے۔
شمالی غزہ میں بے گھر ہونے والے ہزاروں فلسطینیوں کی تکالیف میں اضافے پر عالمی تنقید میں اضافہ ہو رہا ہے، جو 7 اکتوبر کو حماس کے جنوبی اسرائیل پر حملہ میں بارہ سو اسرائیلی شہریوں کی ہلاکت سے شروع ہونے والے تنازعے کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ حماس کے اس حملے میں 250 کے قریب افراد کو یرغمال بھی بنا لیا گیا تھا۔
مصر کے ایک سینیئر اہلکار نے بتایا ہے کہ مصر اور قطر کو، جو جنگ بندی کی کوششوں میں ثالث کا کردار ادا کر رہے ہیں، اتوار کو قاہرہ میں شروع ہونے والے مذاکرات کے دوران حماس کی جانب سے جواب ملنے کی توقع ہے۔ اہلکار نے یہ معلومات اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتائی ہیں کیونکہ انہیں مذاکرات کے بارےبات کرنے کا اختیار نہیں تھا۔
مصر کے عہدیدار نے بتایا کہ اسرائیل نے جنگ بندی کی تجویز کو کم و بیش قبول کر لیا ہے۔ اس معاہدے کے تحت غزہ میں چھ ہفتوں کی جنگ بندی اور حماس کی تحویل میں اسرائیلی یرغمالوں کی رہائی شامل ہے جن میں وہ لوگ ہیں جن کی حالت خطرے میں بتائی جاتی ہے۔ ایسے یرغمالوں میں بیمار، زخمی، بزرگ اور خواتین شامل ہیں۔
دوسرئ طرف امریکی فوجی طیاروں نے ہفتے کے روز غزہ کی ساحلی پٹی کے علاقے میں خوراک کے ہزاروں پیکٹ پیراشوٹ سے باندھ کر فضا سے زمین پر گرانے کا سلسلہ شروع کیا ۔ اردن اور مصر کی فوجوں کے مطابق انہوں نے بھی خوراک کے پیکٹ گرانے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ تاہم امدادی گروپوں کا کہنا ہے کہ ایئر ڈراپس کا راستہ آخری حل کے طور پر اختیار کرنا چاہیے اور اس کے بجائے غزہ میں خوراک پہنچانے کے لئے دوسری بارڈرکراسنگز کھولنے اور کھلے راستے سے رکاوٹوں کو ہٹانے پر زور دینا چاہیے۔
حماس کے زیر انتظام غزہ کی وزارت صحت نے کہا ہے کہ ہفتے کو مزید دو لاشیں برآمد ہونے کے بعد جمعرات کو خوراک کی تقسیم کے امدادی ٹرکوں کے قریب بھگدڑ اور فائرنگ کے واقعے میں ہلاکتوں کی تعداد 118 ہوگئی ہے اور بتایا ہے کہ واقعے میں زخمی ہونے والوں کی تعداد 760 ہے۔
اسرائیلی فوج کے مرکزی ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیئل ہگاری نے کہا کہ جمعرات کو امدادی خوراک پہنچانے کا انتظام اسرائیل نے کیا تھا اور یہ دعویٰ کہ ہم نے جان بوجھ کر قافلے پر حملہ کیا اور لوگوں کو جان بوجھ کر نقصان پہنچایا، بے بنیاد ہے”۔
دوسری طرف یورپی یونین کی سفارتی شعبے نے کہا ہے کہ جمعرات کو فلسطیینوں کے لئے خوراک پہنچانے والے امدادی قافلے کے ارد گرد افراتفری میں ہلاک یا زخمی ہونے والے سینکڑوں فلسطینیوں میں سے زیادہ تر اسرائیلی فوج کی فائرنگ کا نشانہ بنے اور زور دیا ہے کہ واقعے کی بین الاقوامی تحقیقات کروانے کی ضرورت ہے۔ یورپی یونین کے سفارتی شعبے نے کہا کہ بحران کی ذمہ داری “اسرائیلی فوج کی طرف سے عائد پابندیوں اور پرتشدد انتہا پسندوں کی طرف سے انسانی امداد کی فراہمی میں رکاوٹوں پر عائد ہوتی ہے۔”
شمالی غزہ کے رہنے والوں کا کہنا ہے کہ وہ ملبے اور کچرے سے خوراک تلاش کر رہے ہیں، تاکہ اپنے بچوں کو ایک وقت پیٹ بھر کھانا فراہم کر سکیں۔ بہت سے فلسطینی خاندانوں نے روٹی بنانے کے لیے جانوروں اور پرندوں کی فیڈ کو اناج میں ملانا شروع کر دیا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ غزہ میں ہسپتال کے ریکارڈ کے مطابق کم از کم 10 بچے بھوک سے ہلاک ہو چکے ہیں۔
حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کا کہنا ہے کہ غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد تیس ہزار تین سو دس ہو چکی ہے۔ غزہ کی وزارت صحت اپنے اعدادو شمار میں سویلین اور جنگجو ہلاکتوں میں کوئی تخصیص نہیں کرتی، لیکن اس کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں دو تہائی کے قریب عورتیں اور بچے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق میں غزہ میں ہونے والی ہلاکتوں میں نو ہزار خواتین شامل ہیں۔
غزہ کے انتہائی جنوبی شہر رفح میں ، جہاں پٹی کی نصف سے زیادہ آبادی موجود ہے، ہفتے کے روز اماراتی ہسپتال کے سامنے لگے پناہ گزین خیموں پر اسرائیل کے فضائی حملے میں گیارہ فلسطینی ہلاک اور پچاس زخمی ہو گئے، جن میں غزہ کی وزارت صحت کے عملے کے اراکین بھی شامل تھے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کے حملے کا نشانہ اسلامک جہاد کے عسکریت پسند تھے۔
اسرائیل کی فضائی، سمندری اور زمینی کارروائی میں اب تک شمالی غزہ کا بیشتر علاقہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔۔ اسرائیلی فوج نے شمالی غزہ کے مکینوں کو جنوبی غزہ کی طرف نکلنے کی ہدایت کی تھی، لیکن خیال ہے کہ شمالی غزہ میں اب بھی تین لاکھ کے قریب فلسطینی شہری موجود ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق غزہ کے شمالی علاقے میں دو سال سے کم عمرکا ہر چھ میں سے ایک بچہ خوراک کی زبردست کمی کا شکار ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کارل سکاو نے اس ہفتے بتایا ہے کہ یہ دنیا میں کسی بھی جگہ بچوں میں خوراک کی کمی کی بد ترین سطح ہے۔ اور اگر اس صورتحال کو تبدیل نہ کیا گیا تو شمالی غزہ کے رہنے والوں کو بد ترین قحط کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ورلڈ فوڈ پروگرام کو خوراک کی فراہمی بند کرنے پر مجبور اس لئے ہونا پڑا کہ بھوک کے مارے افراد نے خوراک کے ٹرکوں پر قبضہ کر کے جو ہاتھ لگے، اسے چھیننا شروع کر دیا تھا ۔
جمعرات کو ہونے والے واقعے میں لوگ شمالی غزہ میں خوراک پہنچانے والے تیس ٹرکوں کی جانب بھاگ رہے تھے۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوجیوں کی ہجوم کی جانب فائرنگ سے ہلاکتیں ہوئیں۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کے فوجیوں نے ہجوم کی جانب وارننگ شاٹس فائر کئے تھے اور زیادہ تر جانی نقصان ہجوم کے پاوں تلے روندے جانے سے ہوا۔ لیکن غزہ کے ہسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹروں اور اقوام متحدہ کی ایک ٹیم کا ، جس نے ہسپتال کا دورہ کیا، کہنا ہے کہ زیادہ تر افراد فائرنگ سے زخمی ہوئے۔
احمد عبد الکریم ، جن کے پاوں میں گولی لگی، کہتے ہیں کہ وہ دو دن سے امدادی ٹرک کا انتظار کر رہے تھے۔
“ہر شخص نے ان ٹرکوں پر حملہ کر دیا ، اتنے لوگ تھے کہ مجھے آٹے کا کوئی تھیلہ نہ مل سکا ۔”
رضوان عبدل حئی، چار بچوں کے باپ ہیں۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے بدھ کے روز یہ افواہ سنی کہ ایک امدادی قافلہ اس طرف آرہا ہے۔ وہ اپنے پانچ ساتھیوں کے ساتھ گدھا گاڑی لے کر وہاں پہنچے، مگر وہاں “لوگوں کا ایک سمندر” تھا۔
“ٹینکوں سے ہم پر فائرنگ شروع ہو گئی، میں جونہی واپس بھاگا، مجھے ٹینک سے ہونے والی شیلنگ اور فائرنگ کی آوازیں سنائی دیں۔ میں نے لوگوں کو چلاتے ہوئے سنا۔ میں نے لوگوں کو زمین پر گرتے ہوئے دیکھا۔ کئی بے حس و حرکت زمین پر گرے ہوئے تھے” ۔ رضوان کہتے ہیں کہ کئی لوگوں کی پشت میں گولیاں لگیں۔
سعود ابو حسین ایک بیوہ اور پانچ بچوں کی ماں ہیں۔ انہوں نے بتایاکہ جبلیہ کیمپ کے ایک سکول میں ان کے ساتھ پناہ گزین پانچ ہزار افراد کو چار ہفتوں سے کوئی خوراک کی امداد نہیں ملی۔ چند لوگ مچھلی پکڑنے سمندر پر گئے تھے، جن میں سے تین اسرائیلی کشتیوں سے کی جانے والی فائرنگ سے مارے گئے۔ اسرائیلی فوج نے اس بارے میں فوری طور پر کسی سوال کا جواب نہیں دیا۔
بتیس سالہ منصور حامد ایک سابق امدادی کارکن ہیں۔ ان کے پچاس رشتہ دار ان کے ساتھ غزہ شہر میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے اہل خانہ درختوں کے پتے اور جانوروں کی خوراک استعمال کر رہے ہیں۔ ان کے بقول، “اب یہ عام سی بات بن گئی ہے کہ کوئی بچہ ملبے کے نیچے سے کھانے کی کوئی خراب ہوئی چیز تلاش کر کے لے آئے”۔
غزہ میں خوراک کے اتنے سنگین بحران کو تسلیم کرتے ہوئے ، امریکی صدر جو بائیڈن نے گزشتہ روز کہا تھا کہ امریکہ غزہ میں خوراک کی فراہمی کے دوسرے طریقوں پر غور کر رہا ہے، جس میں “ممکنہ طور پر سمندری راستہ بھی شامل” ہے۔
دوسری طرف اسرائیل نے ہفتے کے روز کہا ہے کہ جمعے کے روز اس کے تین فوجی ہلاک اور چودہ اس وقت زخمی ہو گئے، جب انہوں نے غلطی سی جنوبی غزہ کے علاقے خان یونس میں ایک عمارت میں نصب دھماکہ خیز مواد کو اڑا دیا۔