ایک ایسے موقع پر جب عالمی ادارے نے غزہ کی پٹی میں بھوک سے ہلاکتوں کا انتباہ کیا ہے، قبرص سے پہلا بحری جہاز 200 ٹن امدادی سامان کے ساتھ منگل کو اپنے سفر پر روانہ ہوا۔
اس سے قبل مصر اور غزہ کے درمیان واحد زمینی گزرگاہ رفح سے کچھ ٹرک امدادی سامان کے ساتھ غزہ داخل ہوتے رہے ہیں، لیکن 23 لاکھ فلسطینیوں کے لیے امداد انتہائی ناکافی رہی ہے اور اقوام متحدہ نے انتباہ کیا ہے کہ اگر امداد کی ترسیل میں بہتری نہ آئی تو غزہ کی ایک چوتھائی آبادی بھوک سے مر سکتی ہے۔
غزہ میں زمینی راستے سے امداد کی ترسیل میں جنگ کی صورت حال سمیت سیکیورٹی سے منسلک کئی رکاوٹیں حائل ہیں جن کے پیش نظر متبادل راستوں پر غور کیا جا رہا ہے۔
غزہ میں خوراک اور انسانی ہمدردی کی سنگین صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے امریکہ نے امدادی بھیجنے کے لیے ایک نیا بحری راستہ کھولنے کی کوششیں شروع کی تھیں تاکہ زیادہ مقدار میں امداد پہنچانا ممکن ہو سکے۔ جس کے لیے غزہ کے ساحل پر عارضی بندرگاہ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا گیا، جسے امریکہ مکمل کرے گا۔
عارضی بندرگاہ میں سامان پہنچنے کے بعد اسرائیلی فوجی اس کا معائنہ کریں گے اور یہ یقینی بنانے کے بعد کہ اس میں حماس کے جنگجوؤں کے لیے ہتھیار موجود نہیں ہیں، امدادی سامان ٹرکوں کے ذریعے ضرورت مند فلسطینیوں تک پہنچا دیا جائے گا۔ امداد کی تقسیم کا کام اقوام متحدہ اور NGOs کریں گی۔
اس پروگرام کے تحت امداد کی پہلی کھیپ قبرص کی ایک بندرگاہ لارناکا سے روانہ کی گئی ہے۔ قبرص سے غزہ تک کا 200 میل (320 کلومیٹر) کا سمندری سفر 15 گھنٹوں کا ہے، لیکن یہ ہسپانوی امدادی جہاز ’اوپن آرمز ‘کو سامان کے وزن اور اپنی ساخت کی وجہ سے منزل مقصود پر پہنچنے میں دو دن لگ سکتے ہیں۔
بھیجے جانے والے سامان میں آٹا، چاول، پاستا اور پروٹین پر مشتمل خوراک شامل ہے، جس کے لیے زیادہ تر فنڈز متحدہ عرب امارات نے فراہم کیے ہیں اور اسے فلسطینیوں تک بھیجنے کا بندوبست امریکہ میں قائم ایک امدادی گروپ ورلڈ سینٹرل کچن ( ڈبلیو سی کے) نے کیا ہے۔
ورلڈ سینٹرل کچن نے کہا ہے کہ وہ امداد کی وصولی کے لیے غزہ کے ساحل پر ایک پلیٹ فارم بنا رہا ہے، جو امداد ی سامان اتارنے کے لیے عارضی بندرگاہ کے علاوہ ایک اور انفرا اسٹرکچر ہو گا۔
ورلڈ سینٹرل کچن نے ایک عہدے دار جوآن کیمیلو جمنیز نے رائٹرز کو بتایا کہ ایک اور امدای جہاز چند روز میں غزہ روانہ ہو گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ امداد کی تقسیم کے لیے ہماری ایک ٹیم پہلے سے وہاں موجود ہے۔
امریکی فوج نے کہا ہے کہ اس کا ایک بحری جہاز جنرل فرینک ایس بیسن بھی امدادی سامان کے ساتھ غزہ کی طرف بڑھ رہا ہے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ غزہ میں خوراک کی قلت اور بھوک کا ذمہ دار نہیں ہے کیونکہ وہ علاقے کی جنوبی سرحد پر دو کراسنگ کے ذریعے امداد لانے کی اجازت دے رہا ہے۔ جب کہ امدادی ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ کئی زمینی رکاوٹوں کے باعث اتنا امدادی سامان لانا ممکن نہیں ہے جو ضروریات پوری کر سکے۔
حال ہی میں امریکہ اور اردن نے غزہ میں طیاروں کے ذریعے خوراک اور امداد کے پیکٹ گرانے کا سلسلہ شروع کیا ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ فضا سے امداد گرانا ایک غیر مؤثر طریقہ ہے اور اس سے ایک بڑی آبادی کی ضروریات پوری کرنا ممکن نہیں ہے۔