وائٹ ہاؤس نے پیر کو کہا ہے کہ حماس کے عسکریت پسند گروپ کے تھرڈ ان کمانڈ مروان عیسیٰ گذشتہ ہفتے اسرائیلی حملے میں مارے گئے ہیں۔
اس سے قبل اسرائیل نے مروان عیسیٰ کو غزہ میں فضائی حملے میں نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا تھا لیکن ان کی موت کی تصدیق نہیں ہوئی تھی۔
امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیون نے صدر جو بائیڈن اور وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کے درمیان ہونے والی ایک ٹیلی فون کال کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’حماس کا نمبر تین کمانڈر مروان عیسیٰ گذشتہ ہفتے ایک اسرائیلی آپریشن میں مارا گیا۔‘
سلیون نے مزید کہا کہ اسرائیل نے ’حماس کی بٹالین کو بھی توڑ دیا ہے جن میں سینیئر کمانڈروں سمیت حماس کے ایک ہزار جنگجوؤں کو ختم کر دیا گیا ہے۔
جیک سلیون کے بقول: ’حماس کے باقی سرکردہ رہنما روپوش ہیں جو ممکنہ طور پر غزہ میں بچھائی گئیں سرنگوں کے نیٹ ورک کی گہرائی میں چھپے ہوئے ہیں اور ان کا بھی احتساب کیا جائے گا۔‘
اسرائیلی فوج نے 11 مارچ کو کہا تھا کہ نو اور 10 مارچ کو وسطی غزہ میں ایک زیر زمین کمپاؤنڈ پر کیے گئے فضائی حملے میں مروان عیسیٰ کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ وہ حماس کے سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملے کے منصوبہ سازوں میں سے ایک تھے۔
اسرائیل کے فوجی ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیئل ہاگری نے اس وقت کہا تھا کہ مروان عیسیٰ حماس کے مسلح ونگ عزالدین القسام بریگیڈ کے سربراہ محمد ضیف کے نائب تھے۔
تاہم ایڈمرل ڈینیئل نے کہا کہ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا اس کارروائی میں مروان عیسیٰ مارا گئے ہیں یا نہیں۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’ہم ابھی تک حملے کے نتائج کا جائزہ لے رہے ہیں اور حتمی تصدیق ابھی موصول ہونا باقی ہے۔‘
اسرائیلی براڈکاسٹنگ کارپوریشن کے مطابق اس حملے کے لیے اسرائیلی فضائیہ نے تقریباً 20 ٹن بموں کا استعمال کیا جس میں اینٹی بنکر بم بھی شامل تھے۔
العربیہ کے مطابق اگرچہ حماس کی جانب سے عزالدین القسام بریگیڈز کے ڈپٹی کمانڈر کی ہلاکت کے حوالے سے کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا گیا تاہم اسرائیل نے اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ بال حماس کے کورٹ میں ہے کہ وہ ان کی موت کی تصدیق کرتی ہے یا نہیں۔
برطانوی اخبار دا گارڈین کی رپورٹ کے مطابق حماس کے رہنماؤں کے درمیان مواصلاتی نظام، جو کہ انکرپٹڈ ایپلی کیشنز اور میسنجرز پر انحصار کرتے ہیں، عیسیٰ پر حملے کے بعد 72 گھنٹے سے زائد عرصے تک بند رہے جو کہ عام طور پر اس وقت ہوتا ہے جب بھی حماس کے سینیئر رہنماؤں کو قتل کیا جاتا ہے۔
دا گارڈین کی رپورٹ کے مطابق مروان عیسیٰ کو نشانہ بنانے والا حملہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اسرائیل کو تنظیم کے اندر اہم ذرائع سے انٹیلی جنس معلومات موصول ہو رہی ہیں۔
اسرائیلی انٹیلی جنس کے ایک سابق اہلکار اور علاقائی تجزیہ کار ایوی میلمڈ نے گارڈین کو بتایا کہ آپریشن کو انجام دینے میں اسرائیل کی کامیابی کے لیے عیسیٰ کے صحیح مقام اور وہاں اس کی موجودگی کے وقت کے بارے میں پیشگی معلومات درکار ہوں گی جیسے آئی ڈی ایف نے یقینی بنایا ہوگا۔
مزید برآں اسرائیل کو اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ اسرائیلی یرغمالیوں کو اس کے قریب انسانی ڈھال کے طور پر استعمال نہ کیا جائے، میلامڈ کے مطابق، ممکنہ طور پر ایک انسانی مخبر نے یہ تمام تفصیلات فراہم کی ہوں گی۔
مروان عیسیٰ کو القسام بریگیڈز کے کمانڈر محمد ضیف اور غزہ میں تحریک کے سربراہ یحییٰ السنوار کے بعد اسرائیل کو انتہائی مطلوب افراد میں تیسرا سب سے اہم کمانڈر سمجھا جاتا تھا۔
اس سے قبل گذشتہ سال سات اکتوبر کی کارروائی کے بعد یورپی ممالک نے مروان عیسیٰ سمیت حماس کے دو کمانڈروں کو یورپی یونین کی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا تھا۔
یورپی یونین نے کہا کہ حماس کے عسکری ونگ کے کمانڈر جنرل محمد ضیف اور ان کے نائب مروان عیسیٰ کو اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق دونوں کمانڈرز کے یورپی یونین کے رکن ممالک میں فنڈز اور دیگر مالیاتی اثاثوں کو منجمد کر دیا گیا جبکہ یورپی یونین کے آپریٹرز کو انہیں فنڈز اور اقتصادی وسائل فراہم کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
مروان عیسیٰ کون ہیں؟
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق مروان عیسیٰ، جسے ‘شیڈو مین’ کے نام سے جانا جاتا تھا، حماس کے تین سرکردہ رہنماوں میں شاید سب سے کم جانے جاتے تھے لیکن وہ حالیہ برسوں میں حماس کے کئی اہم فیصلوں میں شامل رہے تھے۔
محمد ضیف کی طرح مروان عیسیٰ کا چہرہ بھی عوام کے لیے انجان تھا جب تک کہ وہ 2011 میں قیدیوں کے تبادلے کے دوران لی گئی ایک گروپ تصویر میں نظر نیہیں آئے۔
2009 سے 2011 تک جرمن انٹیلی جنس ایجنسی (بی این ڈی) کے ثالث گیرہارڈ کونراڈ ان چند لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے قیدیوں کے تبادلے پر بات چیت کرتے ہوئے مروان عیسیٰ سے ملاقات کی۔
کونراڈ نے الجزیرہ ٹیلی ویژن کو بتایا: ’وہ بہت محتاط اور تجزیہ کار کمانڈر تھے، یہ ان کے بارے میں میرا پہلا تاثر تھا۔‘
بی بی سی کے مطابق مروان عیسیٰ محمد ضیف کا دائیاں بازو تصور کیے جاتے تھے۔
وہ تل ابیب کو سب سے زیادہ مطلوب افراد میں شامل تھے جو اسرائیل کی جانب سے 2006 میں انہیں قتل کرنے کی کوشش کے دوران زخمی ہو گئے تھے۔
حماس کے ساتھ ان کی سرگرمیوں کی وجہ سے اسرائیلی فورسز نے انہیں پہلے انتفاضہ کے دوران پانچ سال تک حراست میں رکھا۔
فلسطینی اتھارٹی نے انہیں 1997 میں گرفتار کیا تھا تاہم 2000 میں دوسری انتفاضہ کے اقتدار میں آنے کے بعد انہیں رہا کر دیا گیا تھا۔
اسرائیلی جنگی طیاروں نے 2014 اور 2021 میں غزہ پر حملوں کے دوران ان کے گھر کو بھی تباہ کیا تھا جس میں ان کے بھائی مارے گئے تھے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ انہوں نے سات اکتوبر کی کارروائی سمیت اسرائیل میں دراندازی کی منصوبہ بندی کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔