زاہد بلوچ اور اسد کی جبری گمشدگی کے دس سال
ٹی بی پی اداریہ
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے چئرمین زاہد بلوچ اور جونئیر جوائنٹ سیکریٹری اسد بلوچ کی جبری گمشدگی کو دس سال پورے ہوچکے ہیں، انہیں اٹھارہ مارچ دو ہزار چودہ کو سیٹلائٹ ٹاون کوئٹہ میں بانک کریمہ بلوچ کے سامنے پاکستان فوج نے جبری گمشدہ کیا تھا، ایک دہائی گزر گیا لیکن وہ بازیاب نہ ہو پائے۔
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے زاہد بلوچ کی بازیابی کے لئے تادم مرگ بھوک ہڑتال کا راستہ اپنایا اور لطیف جوہر چھیالیس دن تک تادم مرگ احتجاج کرتے رہے، پہلی بار بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک نے احتجاجی کیمپ کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے جبری گمشدگیوں کو بلوچستان کا اہم مسئلہ گردانا، جس کے بعد جبری گمشدگیوں کے سنگین مسئلے کو پارلیمانی پارٹیوں نے اپنے سیاست کا حصہ بنایا لیکن حکومتوں کے متواتر یقین دہانیوں کے باجود یہ مسئلہ کبھی حل نہ ہوا۔
دس سال احتجاج میں گزر گئے لیکن جبری گمشدگی کا مسئلہ جوں کا توں موجود ہے اور بلوچستان میں ایسا دن نہیں گزرتا جب جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج نہ ہورہا ہو، سرگودھا یونیورسٹی کے طالب علم خدا داد گنج کے لئے بلوچ طلباء پنجاب میں سراپا احتجاج ہیں، پسنی میں کوسٹل ہائی وے بلاک کرکے عبدرزاق کے لواحقین اُن کی بازیابی کے لئے صدا دے رہے ہیں اور ضلع کیچ میں جبری گمشدگیوں کے خلاف ہوشاپ، تجابان اور آبسر میں احتجاجاً سی پیک شاہراہ اور سڑکیں بند کئے گئے ہیں۔
سیاسی جماعتیں و طلباء تنظیموں کے قائدین اور کارکنان کے جبری گمشدگیوں سے سیاسی تحریک کو کاونٹر کرنا ممکن نہیں ہے اور بلوچستان میں اگر جبری گمشدگیوں کا سلسلہ ختم نہ ہوا تو احتجاجی تحریکوں کا تسلسل اسی طرح جاری رہے گا۔