حماس نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے اپنی شرائط مذاکرات کاروں اور امریکہ کو پیش کی ہیں۔ ان شرائط میں اسرائیلی یرغمالوں کی رہائی کے بدلے فلسطینی قیدیوں کی رہائی کی تجویز بھی شامل ہے۔
خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق حماس کا کہنا ہے کہ پہلے مرحلے میں اسرائیلی عورتیں، بچے، بوڑھے اور بیمار یرغمالی رہا کیے جائیں گے جن کے بدلے 700 سے ایک ہزار فلسطینی قیدی رہا کروائے جائیں گے۔
حماس نے معاہدے کی نئی تجاویز میں مستقل جنگ بندی کی شرط بھی رکھی ہے۔
گروپ کا کہنا ہے کہ دونوں جانب سے قیدیوں کی مکمل طور پر رہائی دوسرے مرحلے میں کی جانی چاہیے۔
حماس کے مطالبات میں مستقل جنگ بندی، اسرائیل کا غزہ کی پٹی سے انخلا، پناہ گزینوں کی اپنے گھروں کو واپسی اور غزہ میں امداد کا بلا روک ٹوک داخلہ شامل ہے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے لیے مصر اور قطر مصالحت کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تاہم اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کے آفس کا کہنا ہے کہ حماس کی نئی شرائط غیر حقیقی مطالبات پر مبنی ہیں۔
غزہ میں آبادی کو قحط کا سامنا ہے اور انسانی بحران بدتر ہوتا جا رہا ہے۔
حماس کا الزام ہے کہ جنگ بندی کے مذاکرات گزشتہ چند ہفتوں سے اس لیے ناکام ہو رہے ہیں کیوں کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم اس کے مطالبات ماننے سے انکار کر رہے ہیں۔
گزشتہ ماہ حماس کو غزہ میں جنگ بندی معاہدے کا ابتدائی متن دیا گیا تھا جس میں چالیس دن کے لیے عسکری کارروائیاں روکنے اور ایک یرغمالی کے بدلے دس فلسطینی قیدی رہا کرنے کی تجویز تھی۔
اسرئیل نے اس ابتدائی متن کو مسترد کر دیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ حماس کے خاتمے تک جنگ جاری رکھے گا۔
حماس کا اصرار ہے کہ کسی بھی معاہدے کی صورت میں جنگ ختم ہونا چاہیے۔
حماس کی جانب سے گزشتہ برس سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملے میں 1200 افراد کی ہلاکت کے بعد سے اسرائیل نے غزہ میں عسکری آپریشن جاری رکھا ہوا ہے جس میں اب تک 31 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
جنگ کو شروع ہوئے چھٹا مہینہ ہے اور اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ غزہ میں تقریباً چھ لاکھ کے قریب افراد قحط کا شکار ہو سکتے ہیں۔ جب کہ عالمی طور پر اسرائیل پر غزہ میں انسانی امداد کی بحالی کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔