جبری گمشدگیوں کے سنگین معاملے کو پروپیگنڈے سے نہیں جھٹلایا جاسکتا – سمی دین بلوچ

214

جبری لاپتہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی و وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی رہنماء سمی دین بلوچ نے کہا ہے کہ جبری گمشدگیوں کے سنگین معاملے کو پروپیگنڈے سے نہیں جھٹلا سکتے ہیں، ریاست اپنی پالیسیوں اور قانون سازیوں پر غور کرکے حالات کو سدھارنے کی کوشش کرے۔

انہوں نے کہاکہ جس طرح بلوچ لاپتہ افراد کو منظر عام پر لانے کے لئے تحریک زور پکڑ رہی ہے اور اس انسانی مسئلے کو عالمی پزیرائی مل رہی ہے تو دوسری طرف ریاست پاکستان اس حقیقی مسائل سے سرگردان کبھی اپنے نمائندوں کے ذریعے اس مسائل کو جسٹفی کرنے کی کوشش کرتا ہے کبھی اپنی پوری ریاستی مشنیری کے ذریعے اس مسائل کو متنازعہ اور جھٹلانے کی کوشش کرتا ہے ۔

انہوں کہاکہ وہ یہ پروپیگنڈہ کررہے ہیں بلوچ گمشدہ جبری لاپتہ نہیں بلکہ پہاڑوں میں موجود ریاست پاکستان اور اسکے فوج کے خلاف لڑ رہے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ جن لوگوں کو لاپتہ کیا جاتا ہے ان میں سے کسی کو ویرانوں میں اٹھا نہیں جاتا بلکہ گھروں، بازاروں، دفتروں اور تعلیمی اداروں سے لوگوں، اہلخانہ کے سامنے اٹھائے جاتے ہیں، ہر جبری گمشدہ افراد کے گواہ موجود ہیں، اور کچھ کیسز میں سی سی ٹی وی فوٹیج کے شواہد موجود ہیں۔ دوسری بات بہت سے جبری گمشدہ افراد رہا کیے جاتے ہیں جو زیادہ تر ذہنی اور جسمانی طور پر معذوری کی صورت میں واپس آتے ہیں ۔

انہوں نے کہاکہ ان میں سے کئی لواحقین کی تحریکیں چلی ہیں وہ (جبری لاپتہ افراد) واپس آنے کے بعد گواہی بھی دیتے ہیں کہ وہ ریاست کہ خفیہ اداروں کے اذیت خانوں میں قید تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر تمام مسنگ پرسنز مسلح تنظمیوں میں لڑ رہے ہیں تو پھر جو معذور حالت میں واپس آتے ہیں تو پھر ریاست اور میڈیا ان سے یہ کیوں نہیں پوچھتے کہ وہ کہاں اور کس کے پاس تھے اور انہیں کیوں گرفتار نہیں کرتے؟ کیا اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ پہاڑوں سے نہیں بلکہ ریاست کے اذیت گاہوں سے واپس آتے ہیں۔

سمی دین نے کہا کہ بلوچستان میں ہر دوسرا شخص جبری گمشدگیوں سے متاثر ہوچکا ہے چاہے وہ دس سالہ بچہ ہو یا بزرگ، طالب علم ہو یا مزدور و کسان یا کاروباری شخص کوئی بھی ان جبری گمشدگیوں کے شر سے محفوظ نہیں، ان گمشدہ افراد میں کچھ تاحال غائب اور کچھ نیم مردہ حالات میں بازیاب ہوکر واپس آئے ہیں اور جو واپس آتے ہیں ان میں سے کچھ لوگ اپنے روز مرہ کی زندگی میں ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کچھ اس خوف و صدمے سے جان جھڑانے کے لئے بیرونی ملک چلے جاتے ہیں جبکہ کچھ لوگ اس غیر انسانی مسئلہ کے بعد مسلح تنظیموں میں شمولیت کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایسے دو واقعات سامنے آئے ہیں جہان ماضی میں جبری گمشدہ کیئے گئے افراد مسلح تنظیم کی رکن بن گئے ان دو واقعات کو لے کر ریاستی مشینری پروپیگنڈے کی کوشش کررہی ہے کہ یہ مسنگ نہیں تھے، اس عمل کی وضاحت ضروری ہے کہ ان دو واقعات میں دو بلوچوں کو اغواء کرکے غیر انسانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا جب وہ اغوا ہوئے تو انکے لواحقین نے احتجاج کا راستہ اختیار کیا جب وہ بازیاب ہوئے تو انکی رہائی کی خبریں میڈیا میں تاریخ کے ساتھ موجود ہیں۔

“وہ اس غیر انسانی عمل و نفرت کو کو لے کر کب مسلح تنظیم میں شامل ہوکر فدائی بن گئے اس کا علم نہیں۔ بجائے اسکے کہ اپنی پوری سورس مسنگ پرسنز کے معاملے کو متازعہ کرنے، اس سنگیں مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرکے اسکی تدارک کی کوشش کی جائے اور اس مسئلہ کے وجود کو جھٹلانے کی بجائے اس بات پر سوچیں کہ لوگوں کو ماورائے عدالت جبری گمشدہ کیا جائے، انکو انسانیت سوز اذیتوں سے گذارا جائے تو اس پر کیا ردعمل آئے گا؟

سمی دین بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کے زمینی حقائق سے نابلد میڈیا آئی ایس پی آر کے موقف کو لے کر یک طرفہ بیانیہ مرتب کرنے میں مصروف ہونے کے بجائے ان باتوں پر توجہ دے کہ آخر کونسی وجوہات کی بنا پر بلوچستان میں انسرجنسی بڑھتی جارہی ہے کیوں لوگوں کی نفرتوں میں اضافہ ہورہا ہے کیوں لوگ بندوق اٹھا رہے ہیں اور کس کے لئے مزاکرات کے دروازے کھلے ہیں، کس سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب ہم پرامن طریقے سے آپکی دہلیز پر آئیں تو آپ نے ہم پر تشدد کرکے ہمیں جیلوں میں بند کردیا۔ اس رویہ سے آپ خود ثابت کررہے ہیں کہ جس کے ہاتھ میں بندوق ہوگی آپ اس سے بات کرنا چاہتے ہیں کیونکہ پرامن طریقے سے آپ بات کرنا نہیں چاپتے پھر آپکی ناکام پالیسیوں کی وجہ سے جب آپ پر حملے ہوتے ہیں تو آپکو وہاں لاپتہ افراد یاد آجاتے ہیں کیا آپ نہیں سمجھتے کہ یہ حالات آپ کی پالیسیوں کی وجہ سے ہیں لوگوں میں نفرت پیدا کرنے والا ریاست ہے ریاست ہوش کے ناخن لیں اور لاپتہ افراد کے مسائل جھوٹے پروپیگنڈے سے جھٹلا نہیں سکتا ہے، ریاست پروپیگنڈے کے بجائے قانون سازی کے ذریعے ان معملات کو حل کرے۔