تین عظیم ہستیاں زمین کے حوالے
تحریر: سنگت بولانی
دی بلوچستان پوسٹ
مجھے دکھ اس بات کی نہیں کہ سنگت شہاب ، سنگت ظاہر اور سنگت شعیب بولان کے پہاڑوں میں دشمن کے خلاف لڑتے شہید نہیں ہوئے بلکہ مجھے پریشانی اس بات کی ہوگی کہ ان کا قومی کردار اور نظریہ خدانخواستہ کہیں بلوچ ورنا بھول نہ جائیں۔
یہ حقیقت ہے کہ انسان کا رشتہ ایک دوسرے کے ساتھ جزبات کا ہوتا ہے۔ پورا بلوچستان اس سامراجی قتل سے کئ دنوں سے نہیں بلکہ ستر سے زائد سالوں سے چین کی نیند نہیں سو سکتا۔ لیکن کیا ہم دو دنوں میں سوشل میڈیا پر ماتم منا کر چین کی نیند سے سونے کا ارادہ کر لیں گے؟
نہیں نہیں، یہ ایک تلخ حقیقت ہے اور یہ حقیقت ہمیں ہضم کرنا ہوگا اور عزم کرنا ہوگا کہ سامراج کی چین کی نیندیں اپنی گنجائش کے مزاحمت سے حرام کرنے کی کوشش کریں گے۔
کیا آپ لوگوں نے محسوس نہیں کیا کہ پورے بلوچستان کے علاقوں سے کوئی نا کوئی جنازے میں موجود تھا؟
بلوچ قوم ! کیا آپ کو پتہ نہیں کے ان سنگتوں نے پورے بلوچستان کے ساتھ (جہاں جہاں جن جن لوگوں سے انکی آشنائی ہوئی ) اپنی خوش مزاجی اور خوش لسانی کی وجہ سے رشتے کیوں جوڑے؟
اگر نہیں پتہ تو بلوچ قوم کو بتاتا چلوں کہ وہ عظیم انقلابی تھے ھمیشہ غلامی سے چھٹکارہ پانے اور اپنے غلام قوم کی آجوئی کے بارے میں سوچتے اور عمل کر رہے ہوتے تھے۔
کاش شطرنج کا پہلی اور آخری بازی میں شہابو کو میں جیت پاتا اور یہی ثابت کرتا کہ تیرا دوست اب عقل مند ہے اور تُجھ سے بہت کچھ سیکھ چکا ہے لیکن کیا بتاؤں شہابو۔ جتنا خوبصورت اور گوڑاخ جیسا تھا اس سے بڑھ کر ایک عقل مند انسان تھا۔
انسان ویسے اس وقت عقل مند کہلاتا ہے جب وہ کسی سخت یا مشکل حالت میں فیصلہ کر پاتا ہے اور یہ خاصیت تینوں خوش مزاج گواڑخ جیسے پھولوں میں تھا۔
کیا آپ بھی میری طرح چھوٹے سوچ کے مالک ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ قوم صرف بندوق ہاتھ میں لئے یہ فدائ کرنے سے آزاد ھوتے ھیں ،تو اِسے میں اپنی شعور کی کمی سمجھوں تو بہتر اور مناسب ھوگا کیوں کہ ایک حقیقی انقلابی زمین تنگ ، یا اپنے انقلابی اعمال کی وجہ سے پکڑے جانے کا ڈر محسوس کرے تب اسے مجبوراً وہاں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔
غلامی بیماری کا نجات کئی طریقوں سے ہو سکتا ہے جنہیں میں شاید خود اپنی کم علمی کی وجہ سے بیان نہ کر پاؤں اتنا لکھ سکتا ہوں کہ، جو انقلابی عمل علاقے میں رہ کر کیئے جا سکتے ہوں شاید جنگی محاذ پر شاید کوئی نا کر پائے۔
یہ عظیم انقلابی سنگت بلوچ جوانوں کو پڑھانے،شعور پہنچانے کے لئے اور غلامی بیماری سے نجات کی خاطر کام کر رہے تھے جو آجوئی کی جنگوں کے دوران بہت اہم عمل کہلاتا ہے۔
یہ اعمال عام انسانوں کے بس کی باتیں نہیں جن میں شاہد انسانی جانوں کو خطرہ ہو مگر ہمارے جوان اور خوبصورت جوانوں نے کرکے دکھایا۔
کسی انقلابی یا مسلح تنظیم سے ان کا تعلق تھا یا نہیں میں اِس سے لا علم ہوں۔ لیکن وہ میری نظر میں عظیم، محنتی اور عقل مند سرمچار تھے، جن کے اعمال نے مجھ جیسے زوال بلوچ کو کچھ نہ کچھ لکھنے پر مجبور کیا ہے اور فخر ہے کہ ان جوانوں کی دیوان سے میں نے جنرل اسلم ، بانک کریمہ ، ریحان اسلم ،میر احمد اور کئ دوسرے قومی ،دلیر اور عظیم سرمچاروں کا نام پہلی دفعہ سنا ہے۔
میں نے ان جوان ،خوبصورت اور خوش لسان سنگتوں کے دیوان سے بہت کچھ سیکھا ہے جنھیں میں شاید ابھی بیان نہ کر سکوں یقین کریں میر احمد جسے میں بلوچستان کا قومی گلوکار کہتا ہوں اس کی آواز پہلی دفعہ میں نے سنگت شہابو کے مبائل سے سنی ہے سنگتوں کی بہت سی یادیں میرے دماغ میں گھوم رہی ہیں لیکن دکھ ہے کہ ساری باتیں لکھ نہیں پا رہا۔
آخر میں اتنا لکھتا چلوں کہ سنگتوں کا محنت ،پسینے اور خون ایک دن رنگ لائیں کے اور وہ ایک آزاد بلوچستان کے خواب کو مکمل ہوتے دیکھ کر آسمانوں میں خوشی کے مارے نور خان کی غزلوں پر رقص کرتے رہیں گے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔