تنگہی جان، ایک حقیقی سرمچار کی کہانی – ہارون بلوچ

704

تنگہی جان، ایک حقیقی سرمچار کی کہانی

تحریر: ہارون بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

یقینا لکھنے کا عمل دنیا کے مشکل ترین عمل میں سے ایک ہے جہاں لکھاری کیلئے اپنے جذبات اور حقیقت پسندی کو پرکھنا اور سمجھنا اور اس کے مطابق لکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کسی نہ کسی طرح حقیقت پسندی پر جذبات حاوی ہو جاتے ہیں۔ لیکن یہاں میں کوئی چیز نہیں لکھ رہا اس لیے اگر جذبات لکھنے کے عمل میں بڑھ جائے تو ناجائز نہیں ہوگا۔ میں کسی بھی شخص کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا حامی نہیں ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کی خوبصورتی اس کی حقیقی شکل میں موجود ہوتی ہے جب کوئی اس کی حقیقت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے تو اصل میں وہ شخص کی شخصیت کا خاتمہ کر رہا ہوتا ہے۔ شاید یہ انصاف کرنا بھی آسان کام نہیں اور یہ مجھ جیسے ناسمجھ شخص کیلئے اور زیادہ مشکل ہوتا جاتا ہے کہ تنگہی جان جیسے زمین پر فدا اور قربان ہونے والے شخص کی شخصیت کے ساتھ انصاف کر سکوں اس لیے لکھنے کے عمل کو سادہ اور اس حد تک کرنا چاہتا ہوں کہ جذبات حاوی بھی نہ ہوں اور لکھنے کے ساتھ بھی انصاف کر سکوں۔
تنگہی جان ایک مکمل سرمچار تھا، لفظ سرمچار اپنے آپ میں ایک عظیم لقب ہے اور یہ عام انسان کیلئے نہیں ہے، حالیہ دنوں جب ریاست نے مغربی بلوچستان پر اپنی یلغار کی تھی تو انہوں نے آپریشن سرمچاروں کے نام پر کرکے اس لفظ سے اپنی خوف اور ڈر کا واضح ثبوت دیا تھا جبکہ بلوچ شاعری میں اس لفظ کو بہادری، زمین اور وطن پر قربان ہونے کے فلسفے اور اس مٹی کے قرض کے ادا کرنے کے طور پر یاد کیا جاتا ہے، سرمچار صرف اب ایک لفظ نہیں بلکہ ایک فلسفہ میں ہے جس طرح کمیونسٹ خود کو کامریڈ کہہ کر پکارتے تھے، جس طرح کرد فوجی خود کو پیش مرگہ کہہ کر پکارتے ہیں جس کا مطلب موت کا بہادری سے سامنے کرنا ہے اسی طرح جیسے آئریش گوریلا خود کو Fenians کے طور پر یاد کرتے تھے اس لیے جب کسی شخص کے سامنے لفظ سرمچار ہمیشہ کیلئے لگ جاتا ہے تو وہ بلوچ تاریخ میں ہمیشہ کیلئے امر اور عظیم بن جاتا ہے۔ ذاتی طور پر میرے لیے ایک مکمل سرمچار کی زندگی بلوچ قوم میں ان عظیم شخصیاتوں کا مجموع ہے جن کے اردگرد بلوچ لٹریچر، سیاست، معیشت، شاعری، زندگی، نفسیات، سوچ الغرض ہر شئے گھومتا ہے۔

سرمچاروں کے بغیر بلوچ کی زیست اور ہست مکمل طور پر غائب ہو جاتا ہے۔ چاہے وہ نصوری نصیر خان کے ساتھ کھڑے بلوچ سرمچار ہوں جنہوں نے اپنا وطن دشمنوں کے چنگل سے چھڑایا یا خیر بخش مری کے دور کے سرمچار ہوں جنہوں نے اس ناپاک اور بدتہذیب دشمن کیلئے بلوچستان میں زمین تنگ کر دیا ہے۔ اس سے قطعی یہ ملطب نہیں کہ صرف سرمچار ہی جدوجہد کے حقیقی وارث اور اس میں قوم اور دیگر شعبوں میں کردار ادا کرنے والوں کی کوئی حیثیت نہیں میری نظر میں سرمچار صرف بندو ق تھاما شخص نہیں ہوتا بلکہ اس تحریک سے جڑا ہر مخلص، ایماندار، کمٹٹڈ، مستقل مزاج جہدکار سرمچار ہے اور تنگہی جان انہی میں سے ایک مکمل سرمچار تھا جنہوں نے بچپن سے جوانی تک اپنی زندگی کے تمام وقت، خواہشات، سوچ تحریک کے حوالے کیے اور آخر تک اس سوچ اور فکر سے جڑے رہے اور شہادت نصیب کی۔ یقینا شہادت کسی بھی ایک انقلابی جہدکار کی آخری خواہش ہوتی ہے ایک انقلابی اس سے بڑھ کر کوئی خواہش نہیں رکھتا اور اس سے زائد خواہش رکھنے والے انقلابیوں کی فہرست میں مفاد پرست ہوتے ہیں جو کسی بھی وقت پلٹ سکتے ہیں۔ وہ اسی سوچ اور فکر کے ساتھ زندہ رہا، لڑا، جنگی فرنٹ سے لیکر ذاتی زندگی تک اپنا سب کچھ اسی نظریے پر لوٹا دیا اور بالاآخر شہادت کے عظیم رتبے پر آخری سانسوں تک زمین کیلئے لڑتے ہوئے شہادت نصیب کی۔

ہر وقت اپنے کام سے کام رکھنا والے، تنظیم کے پابندی کرنا، وقت پر ساتھیوں تک پہنچنا اور وقت پر تنظیمی سرگرمیوں کو سرانجام دینا، وقت پر اپنے کام کو مکمل کرنا اور تنظیم کو اس کے حوالے سے انفارم کرنا، جنگی صلاحیتوں کو بڑھانا تاکہ دشمن کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچا سکوں، تنظیمی سوچ اور فکر کے ساتھ کام کرنا، کسی بھی حالت میں، کسی بھی طرح کے مسائل میں تنظیمی فکر اور سوچ کے ساتھ معاملات کو سلجھانا، تنظٰمی ڈسپلن کا خیال رکھنا، کسی بھی ایسے عمل میں حصہ نہ لینا جس سے تنظیم اور ادارہ کی بدنامی اور تحریک کے خلاف سوچ پیدا ہونے کا خطرہ ہو، ہر وقت اپنی زمہ داریوں پر توجہ دینا، ساتھیوں کے زندگیوں کے حوالے سے انتہائی احساسیت رکھنا، ساتھیوں کے حوالے سے فکر مند ہونا، دوستوں کی سیکورٹٰی کو ہمیشہ اپنے لیے اہم سمجھنا، اپنی سیکورٹی کا خیال رکھنا اور کسی بھی ایسے عمل کا حصہ نہ بننا جس سے زات اور تنظیم کو کوئی نقصان پہنچیں، تنظیمی عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا، ادارے کے ہر پروگرام کو دل وجان کی طرح محبت کرنا اور اس سے جڑا رہنا اور اس میں اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کرنا، ہمیشہ تنظیم اور تحریکی معاملات میں احساسیت دیکھانا اور احساسیت رکھنا، تنظیم کے حوالے سے ہر مسائل پر تنظیمی پلیٹ فارمز تک رسائی کرنا اور وہاں اپنی باتیں رکھنا، راز داری کا مظاہرہ کرنا اور کسی بھی وقت، کسی بھی حالت میں، کسی بھی سختی اور مشکل وقت میں اپنا آپا نہ کھونا اور ہر وقت صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے وقت آنے پر سہی جگہ پر اپنی باتیں رکھنا، تنظیم اور جدوجہد کے ہر کام اور سرگرمی میں انتہائی زمہ داری کا مظاہرہ کرنا، تنظیم کے اندر کسی بھی طرح کی ذاتی خواہشات نہیں رکھنا اور جنگ اور تحریک میں انتہائی زمہ دار ہونے کے باوجود کسی بھی حالت میں اپنی تنظیمی زمہ داریوں کو بھول نہ جانا اور کسی بھی ذاتی کام اور سرگرمی میں حصہ نہ لینا اور ہر وقت اور ہر حالت میں تنظیمی پروگرام کے تحت اپنی سرگرمیوں کو سرانجام دینا اور ان میں حصہ لینا، تنظیمی پروگرام کے بغیر کسی بھی طرح کی سفر، کسی بھی طرح کی سرگرمی سے دور رہنا اور ہر وقت اور ہر حالت میں تنظیم کے مطابق اپنے فیصلے لینا اور تنظیمی زمہ داروں کے حساب سے زندگی گزارنا، جنگ میں شامل ہوتے ہی اپنی تمام زاتی خواہشات کا خاتمہ کرنا اور ہر وقت تنظیم کے بہتر سے بہتر سرگرمی میں اپنا حصہ شامل کرانے کی کوشش کرنا، جذبات اور جذباتیت سے دور رہ کر ہمیشہ تحریک میں حقیقیت پسندی پر مبنی فیصلہ لینا، تنظیمی بندوق ہاتھ میں لیکر تنظٰیمی سوگند کا ہمیشہ سے پاسدار رہنا، تنظیم اور تحریک کے خلاف کسی بھی سازش اور الزام تراشی سے دور رہنا اور اپنی ذہانت اور انرجی تنظیمی کمزوریوں اور کوتاہیوں کو دور کرنے میں صرف کرنا، اپنے ساتھیوں کے خلاف کسی بھی طرح کی الزام تراشی اور سازش سے دور رہنا اور ہمیشہ اپنے ساتھیوں پر بھروسہ اور انہیں پرامید رکھنا، تنظیم اور تحریک کے حوالے سے ہمیشہ مثبت رہنا اور دیگر ساتھیوں کو بھی ہمیشہ مثبت رکھنے میں کردار ادا کرنا، قیادت کے خلاف کسی بھی طرح کی سازش اور الزام تراشیوں سے دور رہنا، اختلافات سہی جگہ پر رکھنا اور اختلافات کو ذاتیات میں بدلنے کے بجائے اس کو انقلابی عمل کی طرح اصلاح کاری پر صرف کرنا، تحریک میں اپنی باؤنڈری میں رہتے ہوئے اپنی سرگرمیوں کو سرانجام دینا اور کسی بھی طرح تنظٰمی ڈسپلن کو پامال نہ کرنا اور ساتھیوں کو اس عمل سے روکنا اور انہیں تنظیمی ڈسپلن کا پابند رکھنا، بڑے بڑے خیالوں کے بجائے اپنی چھوٹی چھوٹی زمہ داریوں کو پورا کرنے میں اپنا وقت صرف کرنا اور اس کو بہتر سے بہتر بنانے میں اپنا وقت دینا، ہمیشہ وقت پر اپنی زمہ داریوں کو سرانجام دینا اور دیگر ساتھیوں کو وقت کا پابند بنانا، اپنا فوکس ہمیشہ دشمن کے حرکت اور حکمت عملیوں پر رکھنا اور کسی بھی حالت اور کسی بھی معاملے میں دشمن سے اپنا توجہ غیر ضروری معاملات میں نہ دینا، دوسروں کے بجائے خود پر سخت ہونا، ہمیشہ خودتنقیدی کے عمل سے گزرنا اور اپنے کام اور سرگرمیوں میں بہتری اور مضبوطی لانے پر توجہ دینا ہی ایک مکمل انقلابی اور سرمچار کی حقیقی مطلب ہوتا ہے اور جہاں تک میں نے تنگہی جان دیکھا ہے اُس میں میں نے ہمیشہ انہی خوبیوں کو پایا ہے۔ وہ کسی بھی وقت کسی بھی پروپیگنڈا کا حصہ نہیں رہتا، ایک سرمچار کی زندگی گزارتا، پانچ سال تک شہری گوریلا اور بعدازاں مکمل جنگی فرنٹ میں شامل ہوتے ہوئے انہوں نے ہیرونک، ہوشاب، بالگتر، بلیدہ اور ارد و گرد بی ایل ایف کے پلیٹ فارم سے کام کرتا رہا، علاقے میں عوام سے انتہائی بہترین تعلقات رکھتا تھا اور ہمیشہ دشمن کے خلاف چوکنا رہتا تھا۔ انہوں نے ان زمہ داریوں کو سرانجام دینے میں کافی مشکلات اور مسائل کا سامنا کیا لیکن انہوں نے کبھی کسی بھی مسئلے پر شکوہ نہیں کیا بلکہ جدوجہد کے اس سفر میں میں نے ہمیشہ انہیں مثبت پایا، کبھی وسائل کو بہانہ بناکر انہوں نے تنظٰیم پر الزامات نہیں لگائے ہمیشہ مثبت رہتا تھا۔ اپنے کام سے مطلب رکھتے ہوئے ہمیشہ اس کو مضبوط کرنے اور اس کو بہتر بنانے کیلئے سوچنے پر توجہ دیتا اور علاقے کے اندر تحریک کے حوالے سے ہمیشہ بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔میری نظر میں ایک سرمچار کی معنی یہی ہے اور اس طرح وہ تحریک اور جدوجہد کو انتہائی زیادہ فائدہ پہنچا سکتا ہے۔

تنہگی جان بیمار رہتا تھا، لیکن اس کو انہوں نے اپنے تنظیمی سرگرمیوں میں کبھی بھی جواز بنانے نہیں دیا، جنگ ہو یا شہری گوریلا، یا فدائی کے عمل میں حصہ لیتے ہوئے دشمن پر یلغار کرنا، یا فدائی کرنے کیلئے پانچ سال کے بڑے عرصے تک انتظار کے مراحل سے گزرنا ہو قاسم جان میں جنگی قوت سے سیاسی شعور تک میں نے ایک مکمل سرمچار دیکھا اور پایا ہے۔ کسی انقلابی رہنما نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ایک انقلابی کیلئے میں نہیں سمجھتا کہ کسی پی ایچ ڈی کی ڈگری چاہیے ہوتا ہے، جہاں تک میں نے تنہگی جان کو دیکھا ہے اس میں میں نے ایک سرمچار ہونے کی تمام خوبیاں دیکھی ہیں۔ سیاسی سرکلز میں جہاں سب ایم پل اولڈز ہوتے ہیں ہمیشہ نکتہ چینی کرنا، غلط بیانی کرنا، مایوس رہنا، مایوسی پھیلانا، تنظیمی عمل سے دور رہنا، غیر ڈسپلن رہنا، ہمیشہ جواز اور بہانہ بنانے کو ترجیح دینا، تحریک اور قیادت میں دراڈ پیدا کرنے کی کوشش کرنا، ہمیشہ منفی رہنا اور ایسے انگت غیر انقلابی، غیر سیاسی، بے علمی کے عمل دیکھے ہیں لیکن تنہگی جان کو کوئی بھی ڈگری حاصل نہیں تھا لیکن میں نے اُس سے ایک انقلابی ہونے اور رہنے کے کئی سبق سیکھے۔ عام طور پر ہم انقلاب میں بھی خواہش پرست رہتے ہیں، عہدوں کی خواہش، نام کی خواہش، لیڈری اور مشہور ہونے کی خواہش، ایسے انگت خواہشات ہمارے اندر رہتے ہیں جو ہم دیکھاتے نہیں ہیں لیکن ایک انقلابی ان سب سے دور رہتا ہے، تنگہی جان کی زندگی میں یہی دیکھنے کو مجھے ملے ہیں۔ وہ کوئی عہدہ اور نام نہیں چاہتا تھا بلکہ ہمیشہ تحریک اور تنظیم کی بہتری اور عوام کو تحریک سے جڑے رکھنے پر سوچتا اور ہمیشہ تحریک اور جنگ پر ہونے والے ڈسکیشنز کو غور سے سنتا رہتا، وہ بات کرنے کے بجائے سننے کو ترجیح دیتا، اور اپنے عمل سے ہی تعلق رکھتا، گوکہ اس کا یہ قطی مطلب یہ نہیں کہ وہ تحریک اور انفرادیت میں موجود کوتاہی اور کمزوریوں سے مکمل ناواقف رہتا بلکہ انہیں ہر چیز کی سمجھ اور احساس تھا لیکن اپنے کام پر زیادہ توجہ دینا بھی ایک عظٰیم جہدکار ہی کر سکتا ہے۔ گوکہ تحریک میں آج بھی کمزوریاں ہونگی، کل بھی تھے اور آگے بھی رہینگے، دنیا کی کوئی بھی تحریک کمزوریوں اور کوتاہیوں سے مبرا نہیں رہتا بلکہ ہر جگہ اور ہر وقت کمزوریاں اور مشکلات تحریک کے اندر ہوتے رہتے ہیں لیکن ایک انقلابی اپنے عمل پر توجہ دیتا ہے۔ عمل ہی کمزوریاں کا خاتمہ ہے، اگر تنظیم کے اندر غیر انقلابی لوگ موجود ہیں تو تنظیم کے اندر انقلابیوں کی بھی کمی نہیں ہوتی اس لیے زیادہ زور غیر انقلابیوں پر دینے کے بجائے تنظیم کے اندر موجود انقلابیوں کو مضبوط کرنا اور انہیں کام لینا تنظیم کی بنیاد کو مضبوط کرتا ہے جہاں سے تحریک کی بنیادیں مضبوط ہوتی ہیں۔ ہم ہمیشہ بھاگنے کے عمل کو ترجیح دیتے ہیں، جب بھی تنظٰم میں کوئی کمزوری سامنے آتی ہے ہم ہزار جواز بناکر اور ان کو بڑھا چڑھا کر تنظٰم چھوڑنے کیلئے راہیں ہموار کرتے ہیں لیکن ایک انقلابی کی پہچان سخت سے سخت حالات میں تنظیم کے اندر موجود کمزوریوں اور کوتاہیوں کو دور کرنے میں صرف ہونا چاہیے اس لیے حقیقی انقلابی اور حقیقی سرمچار بننا ایک مشکل کام ہے۔ اس جدوجہد سے ایسے ہزاروں لوگ جڑے ہونگے جو بعدازاں سرینڈ ہوئے یا جدوجہد سے کنارہ کشی اختیار کی یا جدوجہد کے اندر کنفرٹ زون کو ترجیح دیتے ہوئے ایک جانب اپنی ایگو کو بھی مطئمن کرتے ہیں جبکہ دوسری جانب ایسی سرگرمیوں کا حصہ بنتے ہیں جس سے مجموعی طور پر تحریک کا نقصان ہو جاتا ہے۔ انقلاب کے اندر درمیانی راستہ نہیں ہوتا یا آپ ایک مکمل انقلابی بن سکتے ہیں یا انقلاب سے دور رہتے ہیں نیم انقلابی لوگ تحریک اور تنظیم دونوں کیلئے خطرناک ہوتے ہیں کیونکہ وہ اپنے مقصد میں واضح نہیں ہوتے، سخت عمل کا حصہ نہیں بن سکتے اس لیے اس کے خلاف جواز تلاش کرتے ہیں جبکہ کفرٹ زون کیلئے راہیں ہموار کرتے ہیں اور سخت عمل کو تنقید کے نام پر متنازع بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ آج بلوچ تحریک کے اندر یہ نیم انقلابی لوگ ان لوگوں سے زیادہ خطرناک ہیں جو اس تحریک سے کوئی واستہ نہیں رکتھے کیونکہ ان کا تعلق کسی نہ کسی طرح تحریک اور تنظیم سے ہوتا ہے اور ان کا کوئی بھی عمل تحریک اور تنظیم پر اثرات ڈالتے ہیں۔ بلوچ قومی تحریک میں ان نیم انقلابیوں کا قلعہ قموع ہونا چاہیے قلع قمع ہونا چاہیے تاکہ یہ آگے جاکر تحریک کیلئے مزید مسائل کا سبب نہ بنیں۔

بلوچ قومی تحریک کو آج تنہگی جیسے جہدکاروں کی ضرورت ہے جو اپنے عمل اور مقصد میں مکمل طور پر واضح ہوں اور اس کو پانے کیلئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کیلئے تیار ہوں۔ آج بلوچ قومی تحریک انہی کی مرون منت اس مقام تک پہنچ چکی ہے اور بہتر سے بہتر ہوتی جا رہی ہے۔ یہ صرف ایک تنہگی کا قصہ نہیں بلکہ ان ہزاروں جہدکاروں کا قصہ ہے جن میں ہزاروں آج ریاست کے زندانوں میں مرمر کر جی رہے ہیں یا مار کر کسی ویرانے میں پھینک دیے گئے ہیں یا وہ ہزاروں شہید جنہوں نے اس دھرتی اور پاک وطن کی آجوئی کیلئے قربانی دی ہے اور دے رہے ہیں۔ آج بھی ان عظیم ثپوتوں کی کمی نہیں جنہیں منظم اور متحرک کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دشمن کے خلاف بلوچ قوم ایک فیصلہ کن لڑائی لڑ سکیں اور بلوچستان سے اس کا قلع قمع کیا جا سکے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔