گوادر تباہی کا ذمہ دار غلط ریاستی انفراسٹریکچرل پالیسی ہے ۔ بی وائی سی سروے رپورٹ
گوادر متاثرین کی مدد کے لیے “ھمسنتی مہم ” کا آغاز کا اعلان کل سے بلوچستان بھرمیں تین روزہ امدادی کیمپ کا انعقاد کیا جائے گا-
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے گوادر و گردنواح میں حالیہ بارشوں سے پئیدا ہونے والے تباہی پر تفصیلی رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا اس وقت گوادر میں سیلاب سے آنے والی تبائی ہمارے توقعات سے بہت زیادہ ہے اور یہ پورا ریجن اس سے شدید متاثر ہے۔ آج ہم اس پریس کانفرنس کے توسط سے گوادر میں سیلاب سے ہونے والے نقصانات، سیلاب کے اسباب، لوگوں کی حالات زندگی ، نام نہاد میگاپروجیکٹ اور ترقی کی حقیقت ، ریاست کی غفلت اور عدم توجہی اور امدادی کاموں پر تفصیل سے نظر ڈالے گے-
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے پریس کانفرنس میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی ٹیم گزشتہ پانچ دنوں سے گوادر میں موجود ہےاور سیلابی صورتحال و زمینی حقائق کا جائزہ لینے کے لیے گوادر اولڈ سٹی، پشکان شہر، ڈگارو، پسّاو، جیونی شہر ،پلیری ، پِرائے توک ، سربندر اور گرد و نواح کے علاقوں میں سروے کررہی تھی ہماری سروے رپورٹ کے مطابق اس وقت گوادر اولڈ سٹی کے ساتھ جیونی ، پشکان ،پلیری، سربندر، کُنٹانی، گنز ، کلانچ اور ان کے مضافاتی علاقے سیلاب سے شدید متاثر ہے ان تمام علاقوں میں سیلاب کے سبب معاشی نقصانات نے یہاں کے شہریوں کے کمر توڑ دی ہے اور زندگی تبائی کے دہانے پر کھڑی ہے۔
گوادر اولڈ سٹی سے لیکر جیونی اور سربندر تک سینکڑوں گھر متاثر ہوئے ہیں جس میں گھروں کے چت اور دیوار گرچکے ہیں جبکہ بلخصوص پلیری اس وقت سب سے زیادہ متاثر ہے جہاں تقریباً ہر گھر متاثر ہے-
جیونی، پشکان، پلیری اور مضافاتی علاقوں میں ہزاروں لوگ بغیر چھت کے کھلے آسمان تلے زندگی گزار رہے ہیں اس پورے ریجن کی ذرائع معاش ماہی گیری ہے جیونی اور سربندر میں ماہی گیر کمیونٹی کو معاشی حوالے سے بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے ہم نے جیونی میں درجنوں چھوٹے چھوٹے کشتیوں کو سمندر سے باہر ٹوٹ پوٹ کے حالت میں دیکھے ہیں جبکہ سربندر میں ماہی گیروں کےمطابق ماہی گیری کے جال سیلابی پانی میں بہہ چکے ہیں یہاں کے ماہی گیر کمیونٹی کے مطابق وہ سیلاب کے بعد معاشی حوالے سے صفر پر کھڑے ہیں ان کی معاشی ذرائعے مکمل تباہ ہوچکے ہیں جبکہ پشکان اور اس کے گرد و نواح کے وہ علاقے جن کے معاشی ذرائع ایگریکلچر اور مال مویشیوں سےوابستہ ہے وہ بھی معاشی حوالے سے شدید نقصانات کے زد میں ہے-
تاحال متعدد مضافاتی علاقوں میں سیلابی پانی گھروں اور گلیوں کے اندر موجود ہے جس سے ان علاقوں میں خوراک اور پینے کے پانی کی شدید قلت ہے اور متعدد علاقوں میں پانی کے قلت کے سبب لوگ سیلابی پانی کو پینے کے لیے استعمال کررہے ہیں جس سے متعدد بیماریوں کے جنم لینے کے خدشات ہیں ۔ جبکہ ان مضافاتی علاقوں میں کُنٹانی سمیت دیگر ایسے بھی علاقے ہیں جہاںسیلابی پانی کے سبب وہاں تک رسائی ممکن نہیں ہورہی ہے اور ہمیں خدشہ ہے کہ جن جن علاقوں میں رسائی ممکن نہیں ہورہی ہے وہاں بہت زیادہ نقصانات کا خدشات ہے ۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہم نے گوادر اور اس کے مضافاتی علاقوں میں سروے میں سیلاب آنے کے اسباب کو بھی زیر تحقیق میں رکھا جس سے ہم نے جو پرائمری انفارمیشن حاصل کیے ہیں اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ گوادر میں آنا والا سیلاب کسی بھی صورت قدرتی نہیں ہے بلکہ ناقص اور غلط انفراسٹریکچرل پالیسیوں کا نتیجہ ہے اور اس کے ساتھ ریاستی اداروں جیسا کہ محکمہ موسیمیات کی غفلت کا نتیجہ ہے جنہوں نے بارش کی پیشگی کی اطلاع یہاں کے شہریوں اور ماہی گیری کے صنعت سے وابستہ افراد کو نہیں دی تھی-
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہم نے انفراسٹریکچر کی جو حالت اپنی آنکھوں سے دیکھی اور یہاں کی شہریوں سے جو معلومات حاصل کیے ہیں اس ہم صرف اتنا کہے سکتے ہیں ریاست کے لیے گوادر کی شہری نہیں صرف گوادر کی سمندر اہمیت رکھتی ہے اور جو ترقی کے جھوٹے دعوے میڈیا میں کیے جاتے ہیں اس کا زمینی حقائق سے ایک فیصد بھی تعلق نہیں ہے ہماری سروے ڈیٹا کے مطابق ریاست نے گوادر کے لیے جو انفراسٹریکچر پالیسی اپنائی ہے گوادر کے شہریوں کے لیے نہیں ہے بلکہ وہ صرف گوادر پورٹ اور اس کے نام نہاد میگاپروجیکٹ سی پیک کے لیے ہے اور اسی انفراسٹریکچر پالیسی میں بیرونی لوگوں کو سہولیات دینے کے لیے مقامی لوگوں کے زندگیوں کو تباہ کیا گیا ہے۔
گوادر پورٹ، ایئرپورٹ اور پی سی ہوٹل کو سہولیات دینے کے لیے جان بوجھ کر اتنے اونچھے اونچھے سٹرکیں اور دیواریں تعمیر کیے گئے جس سے اولڈ سٹی گوادر سیلابی پانی میں ڈوبا ہے مقامی لوگ سیلابی پانی میں بے یار ومددگار پڑے ہیں جبکہ باہر سے آئے لوگ پی سی ہوٹل سے بارش اور موسم کا مزہ لے رہے ہیں ہم سمجھتے ہیں یہ قومی استحصال کی ایک شدید قسم ہے ۔ جبکہ سب سے اہم بات ہم نے گوادر سٹی سے لیکر جیونی اور سربندر تک کے تمام علاقوں میں سروے کیے ہیں اس سروے میں ہمیں نام نہاد ترقی کے آثار بھی نظر نہیں آئے ہیں بلکہ ہم نے نام نہاد میگاپروجیکٹ اور ترقی کے نتیجے میں پیداہونے والے معاشی اور سماجی تبائی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے-
یہاں کی واحد ذرائع معاش ماہی گیری ہے اور یہاں کے لوگ پاکستان بننے سے بہت قبل صدیوں سے اس ماہی گیری کے پیشے سے وابستہ ہے لیکن اس نام نہاد سی پیک نے ان کی ذرائع معاش کو تباہ کیا ہے جبکہ سماجی حوالے سے لوگوں کو نارمل زندگی کو ایک سیکورٹی زون میں تبدیل کیا گیا ہے اور لوگوں کو خوف زدہ رکھنے اور دبانے کے لیے ریاستی تشدد کا سامنا ہے جبکہ ایک گوادر یہاں ہے جو ہم اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہیں جس میں پینے کے پانی تک موجود نہیں ہے جبکہ دوسرا گوادر میڈیا میں ہے جو جس کو دبئی اور سنگاپور بنا کر پیش کیا جارہا ہے-
رپورٹ میں بتایا گیا گوادر کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ہمیں دبئی اور سنگارپور نہیں چاہیے ہمیں وہ گوادر چاہیے جس میں ہم دو وقت کی روٹی عزت اور احترام کے ساتھ کھاسکے اور سکون کی زندگی جی سکے جو صدیوں سے ہمارا میراث تھا لیکن دبئی اور سنگار پور بنانے کے چکر میں ہم سے وہ دو وقت کی روٹی چھینا اور آج ہمارے گھر کی چت بھی گئی اور ہم اس شہر کے مالک آ ج کھلے آسمان تلے زندگی گزار رہے ہیں ۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک جانب ناقص اور غلط انفراسٹریکچرل پالیسیوں اور ریاستی اداروں کی غفلت کے سبب آج گوادر اور اس کے مضافاتی علاقے تبائی کے دہانے پر کھڑے جبکہ دوسری جانب ریاست اور ریاستی اداروں کی جانب سے گوادر کے عوام کوبے یار و مدد گار چھوڑ کر صرف میڈیا میں جھوٹے دعوے کیے جارہے ہیں اور ریاستی کارکردگی صرف بیانات کی حدتک محدود ہے عملی صورت حال یہ ہے کہ گوادر میں لوگ ابھی تک بے یار و مددگار کھلے آسمان تلے زندگی گزار رہے ہیں-
جہاں جہاں ممکن ہورہا ہے وہاں لوگ اپنی مدد آپ کے تحت وہاں سے پانی کو نکال رہے اور ایک دوسرے کو مدد کررہے ہیں جبکہ ریاستی نااہلی کا منہ بولا ثبوت یہ ہے کہ شہریوں نے زور زبردستی سے ریاستی اداروں سے جو پانی نکالنے کے لیے مشینیں لیے تھے ان کے پیٹرول بھی شہریوں نے اپنے جیب سے ڈالے تھے جبکہ گوادر شہر اس کے مضافات کے متعدد علاقوں میں آج بھی سیلابی پانی موجود ہے جو شہری بالٹیوں سے نکالنے کی کوشش کررہے ہیں، گوادر کو دبئی اور سنگار بنانے کی دعویٴ کرنے والی ریاست پانی نکالنے والی مشینیں فراہم کرنے میں بھی ناکام ہے ۔ سینکڑوں کے تعدد میں گھروں کے چت اور دیوارے گرنے کے بعد لوگ بے یار و مدد گار پڑے ہیں ، راشن ، پانی ، میڈیسن کی شدید قلت ہے لیکن اس زمینی حقائق کے برعکس ریاستی ادارے صرف میڈیا میں بڑے بڑے جھوٹے دعوے کررہے ہیں جو انتہائی شرم کا مقام ہے-
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے رپورٹ کے حوالے سے پریس پانفرنس کرتے ہوتے کہا ہم میڈیا کے توسط سے پوری دنیا پر یہ بھی واضح کرنا چاہتے ہیں کہ گوادر، جیونی ، پشکان، پلیری، گنز، کُنٹانی، سُربندر، کُلانچ اور دیگر علاقوں میں تاحال کوئی بھی ریاستی امداد نہیں پھنچا ہے صرف جھوٹے دعوے کیے جارہے ہیں جبکہ یہاں کے شہریوں کے مطابق ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ہمیں یقین ہے کہ گوادر کے نام پر ملنے والے امداد اسلام آباد پہنچ جائے گے اس سے قبل بھی متعدد دفعہ اس طرح ہوچکا ہے کہ گوادر کے نام پر ملنے والے بین القوامی امداد گوادر کے لوگوں تک نہیں پہنچے ہیں جبکہ ہمیں سروے کے دوران معلوم ہوا کہ دسمبر ۲۰۰۹ میں میں آنے سیلاب سے متعدد متاثرین کے گھر آج تک ٹوٹ پوٹ کا شکار ہے جن کے نام پر ملنے والے امداد کو ریاستی ادارے اور حکومتی نمائندگان ہڑپ کرچکے ہیں-
ہم پوری دنیا کواس اہم مسئلے پر متوجہ کرکے کہتے ہیں کہ اگر کوئی بھی شخص یا ادارہ گوادر کے لوگوں کو مدد کرنا چاہتا ہے تو وہ اپنے امداد کو ریاستی اداروں اور حکومتی نمائندگان کے حوالے کرنےکے بجائے براہراست گوادر کے شہریوں کے حوالہ کریں اگر آپ اپنی امداد کو ریاستی اداروں یا حکومتی نمائندگان کے حوالے کریں گے تو آپ اس پر مطمن ہوجائے کہ آپ کی امداد کسی بھی صورت گوادر کے شہریوں تک نہیں پہنچ سکتی ہے بلکہ وہ کرپشن کے نظر ہوجائے گے۔
انہوں نے کہا پاکستانی مین اسٹریم میڈیا نے ہمیشہ کی طرح اس دفعہ بھی بلوچستان میں کوئی بھی آفت یا مشکل آنے کی صورت میں اپنے دوغلہ پن کو برقرار رکھا ہے یہاں ایک طرف پورا گوادر ریجن تبائی کے دہانے پر کھڑا ہے تو دوسری طرف نام نہاد مین اسٹریم میڈیا اسلام آباد میں جاری تماشے کو کوریج دے رہا ہے اور گوادر کے حقیقی صورتحال میڈیا کے آنکھوں سے اوجھل ہےجو صحافتی اصول اور معیار پر داغ ہے ۔ ہم بین القوامی میڈیا سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ پاکستانی میڈیا کی بلوچستان کے حوالے سے بلیک آوٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے گوادر کے سیلاب اور حقیقی صورتحال کو دنیا کے سامنے لانے کے لیے اپنے نمائندگان کو فوری طور پر گوادر بھیجے۔
جبکہ ہم اس پریس کانفرنس کے توسط سے بلوچ قوم سے اپیل کرتے ہیں کہ بحیثیت قوم ہمارے غم اور خوشی مشترکہ ہے اور بحیثیت قوم ہم ریاست اور ریاست کے کرپٹ اداروں کا انتظار کرنے کے بجائے ہمیں بطور بلوچ آگے بڑھ اپنی قوم کی مدد کرنی چاہیے ہم سمجھتے ہیں کہ ہم مشکل وقت میں قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرکے ایک ترقی یافتہ قوم بننے کی بنیاد رکھ سکتے ہیں کیونکہ دنیا کی تاریخ ہمیں یہی بتاتی قومیں دوسرے کے سہارے اور امداد پر ترقی نہیں کرسکتے ہیں بلکہ اپنی بازوں قوت پر یقین کرکے اپنی مدد آپ کے بنیاد پر قومیں آگے بڑھ سکتی ہے۔
انہوں نے کہا آج ہم اس فلسفہ ( دوسرے کے سہارے پر چلنے کے بجائے اپنے بازوں قوت پر یقین کرکے آگے بڑھنا) کو اپنا کر اس خطے سمیت پوری دنیا کے سامنے بلوچ قوم کو زندہ اور ترقی یافتہ اقوام کی فہرست میں شامل کرسکتے ہیں ۔ آج بلوچستان سمیت دنیا بھر میں رہنے بلوچ قوم کے افراد آگے بڑے اور گوادر سیلاب متاثرین کوریاست پاکستان کی رحم و کرم پر چھوڑنے کے بجائے اپنی مدد آپ کے تحت مدد کریں اوران کے زندگیوں کو بحال کریں ۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی گوادر میں ناقص انفرا اسٹرکچر کے سبب آنے والے سیلاب میں بلوچ عوام کی مدد کے لیے “ھمسنتی مہم ” کا آغاز کرتی ہے جس میں کل سے بلوچستان بھرمیں تین روزہ امدادی کیمپ کا انعقاد کیا جائےگا ا ٓپ سب سے درخواست ہے کہ ” ھمسنتی مہم ” میں ادویات، خیمے، کمبل، پانی نکالنی والی مشین ، راشن اور بچوں کے خوراک کے لیے بھر پور مدد کریں-
جبکہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے گوادر شہر میں ایک مرکزی امدادی اور رابطہ کیمپ قائم کیاجائے گا جس کے ذریعے بلوچ یکجہتی کمیٹی گوادر شہر تمام مضافاتی علاقوں میں میڈکل کیمپ اور امدادی سرگرمیوں کو جاری رکھے گا اس کے علاوہ یہ چیزیں محض ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے ہے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی بحالی سب سے بڑا کٹھن مرحلہ ہے۔ اگر ھمسنتی مہم ” کو پزیرائی ملتی ہے توسیلاب متاثرین کے مکمل بحالی کے لیے بھی مہم کو جاری رکھا جائے گا۔
بی وائی سی نے عوام سے درخواست کی ہے کہ وہ بڑھ چڑھ کر اس امدادی کاروان میں اپنا حصہ شامل کریں جبکہ دنیا بھر میں جہاں جہاں بلوچ مقیم ہے ہم ان سے درخواست کرتے ہیں کہ ہر ایک فرد اپنی حیثیت کے مطابق گوادر سیلاب متاثرین کی زندگیوں کے بحالی میں اپنا کردار ادا کریں۔
آخر میں ہم بلوچستان سمیت دنیا بھر سے مدد کرنے والے افراد سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس چیز کا خاص خیال رکھے کہ اس وقت سیلاب متاثرین کو سب سے زیادہ کن چیزوں کی ضرورت ہے ان چیزوں کو متاثرین تک پہنچائے ۔ جبکہ گوادر سمیت بلوچستان بھر میں بی وائی سی کی ٹیم اور نمائندہ موجود ہے اور کل سے مرکزی کیمپ گوادر شہر میں بحال ہوگا اور کوئی بھی شخص کسی بھی قسم کی معلومات حاصل کرنے اور اپنے امداد کو سہی جگہ تک پہنچانے کے لیے بی وائی سی کی آفیشل رابطہ نمبر، 0333-0367645 اور آفیشل ای میل ایڈریس اور سوشل میڈیا کے مرکزی اکاوٴنٹ کے ذریعے رابطہ کرسکتے ہیں۔