اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل کے 55 ویں باقاعدہ اجلاس کے دوران، بلوچ نیشنل موومنٹ کے شعبہ امور خارجہ کے فوکل پرسن حکیم بلوچ نے بلوچستان میں پاکستان کی نسل کشی کی پالیسیوں سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی مداخلت کا مطالبہ کیا۔
انھوں نے کہا ہے اقوام متحدہ کی طرف سے بلوچستان کی تحریک آزادی کی فوری حمایت ضروری ہے۔
کونسل سے اپنے خطاب میں حکیم بلوچ نے پاکستان کے زیرتسلط بلوچستان کے عوام کو کئی دہائیوں پر محیط ظلم و ستم کا تذکرہ کیا۔ انھوں نے 1948 میں بلوچستان کے جبری الحاق کے بعد سے پاکستان کی منظم ناانصافیوں کی مذمت کی، جن میں سیاسی پسماندگی، معاشی استحصال اور ثقافتی جبر شامل ہیں۔
انھوں نے اقوام متحدہ پر زور دیا کہ وہ بلوچ عوام کی حق خودارادیت کی جائز امنگوں کو تسلیم کرے، یہ حق اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج ہے۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ بلوچ عوام نے پرامن طریقے سے آزادی کی جدوجہد کی ہے، جس کے پاداش میں انھیں پاکستانی ریاست کے تشدد، دھمکیوں اور جبر کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
‘بلوچ نیشنل موومنٹ، بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن-آزاد سمیت دیگر تنظیموں پر پابندی عائد کرکے بلوچ قوم کو سیاسی سرگرمیوں کے حق سے محروم کردیا گیا۔’
بی این ایم کے نمائندے نے جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل اور بلاجواز گرفتاریوں کو پاکستان کی طرف سے اختلاف رائے کو دبانے اور بلوچ مزاحمت کو کچلنے کے لیے استعمال کیے جانے والے روزمرہ کے حربے قرار دیا۔
انھوں نے عالمی برادری سے بلوچ عوام کی حق خود ارادیت کی جدوجہد کی حمایت کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے اقوام متحدہ پر زور دیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے مداخلت کرے کہ بلوچستان کے لوگ آزادانہ طور پر اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکیں۔
آخر میں، حکیم بلوچ نے اس نازک مسئلے کی طرف توجہ دلانے پر کونسل کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فوری کارروائی کی ضرورت پر زور دیا۔