بلوچ قوم اور ان کے مسائل – ساحل بلوچ

470

بلوچ قوم اور ان کے مسائل

تحریر: ساحل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اگر ہم آج تک کی ہونے والی تحقیق کو دیکھیں تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہیکہ بلوچ سرزمین کی تہذیب گیارہ ہزار سال قدیم ہے۔ گیارہ ہزار سال قبل بلوچستان میں مہر گڑھ کے مقام پہ یہاں کے باشندوں نے اپنی پہلی بستی بسائی اور کہا جاتا ہیکہ وہاں دو ہزار سال قبل مسیح تک آباد رہے اور یہ خِطہ ہر دور میں آباد رہا ہے۔ البتہ فطرت کی قہر یا بیرونی حملہ آوروں کی وجہ سے مہر گڑھ کی بعض بستیاں مختصر مدت کے لئے ویران ہوئیں لیکن جوں ہی انہیں موقع ملا انہوں نے پھر سے اپنے آبائی علاقے کو آباد کیا اور یہ سلسلہ آج تک چلتا آرہا ہے۔ آج بھی اس علاقے کو فطرت کے ناڑی ندی کے طغیانی(سیلاب) کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جس سے بستیاں صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں۔ جس کی حالیہ دور میں مثالیں 2007 کی سیلاب اور 29/4/2023 کے طوفانی بارشیں ہیں جس کی وجہ سے سینکڑوں دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے لیکن جوں ہی بارشوں کا زور ٹوٹا وہاں کے مکینوں نے پھر سے انہی کھنڈرات پہ اپنے مسکن بنا لیے۔

نو ہزار (9000) سالہ تاریخ میں مہر گڑھ نے کئی بار فطرت کے قہر کا سامنا کیا اور شاید حملہ آوروں کے نشانے پر بھی رہا ان تمام کے باوجود ہمارے آباؤ اجداد نے اس خطے کو آباد رکھنے کی کوشش کی اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہیں۔

مہر گڑھ جو تہذیبوں کا سنگم کہلاتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے۔ بقول شاہ محمد مری جہاں دنیا کا قدیم ترین تمدن دریافت ہوا۔ دریافت ہونے والی اس تہذیب نے ثابت کیا کہ بلوچستان کرہ ارض کی قدیم ترین تہذیب کا گہوارہ ہے۔ جو یہاں 9000 سال قبل مسیح میں ابھری تھی۔

انگریز جس وقت بلوچستان کی طرف متوجہ ہوا تھا تو اس وقت بلوچ سماج ایک نیم قبائلی زرعی معشیت کی بالادستی میں تھا قبائل واضح خط کشیدہ سرحدوں میں محدود نہ تھے ہر وقت حرکت ہجرت یعنی (مائیگریشن) میں تھے اس وقت بھی بلوچستان مختلف اجناس کی پیداوار کرتا، خود استعمال کرتا بلکہ دور دراز ملکوں کو بھی بیجتا تھا سونمیانی کی بندرگاہ اس وقت اہم بندرگاہ تھی یہاں سے کپڑے اور کالین کی تجارت ہوتی اور رنگ اور چمڑا مسقط کو جاتا اُس وقت جو ہمارے پورٹ وہ یہ تھے گوادر پسنی اور ماڑا سونمیانی۔

جب سے انگریز نے بلوچ سرزمین پر قدم رکھا بلوچ سلطنت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا انگریز نے بڑے منصوبے کے تحت 1838 میں انگریز افسر لچ کو قلات میں خان محراب خان کے دربار میں بھیجا تاکہ جاسوسی کر سکے اور خان کے ساتھ معاہدہ کر سکے مگر خان نے معاہدہ کرنے سے انکار کر دیا خان کے انکار کرنے پر چار نومبر 1839 میں انگریز قلات پر حملہ آور ہوگئے انگریز سے مقابلہ کرتے ہوئے خان محراب خان شہید ہو گیا اور انگریز نے قلات پر قبضہ جما لیا۔ خان محراب خان کہ شہید ہونے کے بعد انگریز نے من پسند میر نصیر خان دؤم کو خان بنا دیا اور طرح طرح کے معاہدے کرنے لگا 1857 میں میر نصیر خان بھی وفات پا گئے اور خان خداداد خان کو خان بنا دیا گیا جس کی عمر صرف 16 سال تھی انگریز جو چاہتا وہ معاہدے خان خداداد خان سے کرواتا یہاں سے بلوچ حکومت بلوچ خانیت کا زوال ہونا شروع ہوا۔

بہت عرصے لوٹ کھسوٹ کرنے کی بعد یورپ میں ایک عالمی جنگ شروع ہو گئی جسے (World War Two )کا نام دیا گیا ورلڈ وار ٹو شروع ہونے کے بعد حکومت برطانیہ کمزور ہوگئی اور برطانیہ نے اپنی گرفت کمزور پا کر مقبوضہ علاقوں کو آزادی دینا شروع کر دی غلام قومیں دھڑا دھڑ آزاد ہوتی جا رہی تھی اس خطے میں ریاست نیپال اور قلات وہ دو واحد ریاستیں تھیں جو کبھی بھی برطانیہ سلطنت کا حصہ نہیں تھی بلکہ برطانیہ کے ساتھ ان کے تعلقات معاہدوں پر قائم تھے کلات کو جغرافیہ میل وقوع اور معدنیات کی کثرت کی وجہ سے بفر اسٹیٹ کی حیثیت حاصل تھی قلاات اور نیپال دو ایسی ریاستیں تھیں جن کا سفیر رکھنے کی اجازت دی اور جن کے تعلقات بین الاقوامی سطح پر دیگر ممالک کے ساتھ بھی تھے قلات کے چیف سیکریٹری اور وائسرائے ہند کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات کے نتیجے میں 4 اگست 1947 کو ایک تاریخی گول میں کانفرنس کا اہتمام ہوا جس میں وائسرا ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن ، خان قلات ، لارڈ ازمے ، قائد اعظم محمد علی جناح ، لیاقت علی ، وزیراعظم قلات نوابزادہ اسلم نے شرکت کی اور اس اہم ترین نقطے پر اتفاق ہوا 11 اگست 1947 کو ریاست قلات کی خود مختیاری حیثیت بحال ہو جائے گی جو اسے 1838 میں حاصل تھی ہندوستان کی انگریزی حکومت نے 11 اگست 1947 کو آل انڈیا ریڈیو سے انگریزی حکومت نے 11 اگست کو قلات بلوچستان کی آزادی کا اعلان کیا 14 اگست کو پاکستان کی اور 15 اگست کو ہندوستان کی آزادی کا اعلان کیا گیا۔

جب بلوچستان ایک آزاد ملک تھا تو برطانیہ اور دیگر مغربی طاقتوں کو یہ ادراک تھا کہ سوشلزم دنیا کے محکوموں کے لیے امید کی کرن ثابت ہورہی ہے اور اس حوالے سے بلوچستان جغرافیائی حوالے سے اہمیت اختیار کرچکا تھا اور اگر سویت یونین یہاں قدم جمانے میں کامیاب ہوجاتا تو مغرب کے لیے لمحہ فکریہ بن جاتا، یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ دنیا یک طاقتی سانچے میں ڈھل جاتا۔ لہذا برطانیہ کو سوشلزم کے خطرات کے پیش نظر اس خطے میں ایک مضبوط چوکیدار کی ضرورت تھی، جو اسے ہندوستان توڑنے کی صورت میں پاکستان کے نام سے مل چکا تھا۔ اسی لیے بلوچستان کی آزادی کی راہ میں خلل ڈالنے کے لیے حکومت برطانیہ کی جانب سے بھی پاکستان پر دباؤ تھاکہ ریاست قلات کو آزاد ملک تسلیم نہ کیاجائے (حالانکہ 4 اگست 1947ء کو ہی جناح اور اس کے ساتھیوں نے بلوچستان کی آزاد حیثیت تسلیم کرلی تھی) جس کے بعد پاکستانی حکمرانوں نے اپنے انگریز آقاؤں کی بات مان کر سرداروں سے مراسم بنائے جہاں انہیں مختلف حیلوں بہانوں سے پاکستان میں شمولیت کی ترغیب دیناشروع کیا۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے 17 مارچ 1948ء کو جناح جام غلام قادر (جام لسبیلہ) دارالعمراء کا رکن نواب بائی خان گچکی اور نواب خاران میر حبیب اللہ نوشیروانی کو جانسا دینے میں کامیاب ہوگیا جس کے بعد انہوں نے پاکستان کے ساتھ رہنے کی رضا مندی ظاہر کردی۔دنیا کا کوئی قانون اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتا کہ کسی ملک کے کسی حصے کو اس ملک کے قانون و آئین اور جمہوری اداروں کے برخلاف ہڑپ لیا جائے۔ لیکن پاکستان نے برطانوی سپہ سالار اور جناح جیسے مکار کی چالبازیوں سے اس غیر آئینی اقدام کو عملی جامہ پہنایا۔ پاکستان کے اس غیر آئینی اقدام کے خلاف ریاست قلات نے احتجاج اور مراسلے لکھے لیکن پنجابی سرکار اپنے انگریز آقاؤں کی آشیرباد کے نشے میں کسی آئینی اقدام کو خاطر میں لانے والے نہیں تھے۔

اس دوران خان احمدیار خان اس غیر قانونی اقدام کے خلاف آواز بلند کرنے کراچی میں موجود تھے اس کے باوجود بھی پاکستانی فوج کے چیف آف آرمی سٹاف جرنل سر ڈوگلس گریسی کے اشاروں پہ ہی پاکستانی فوج یلغار کرتا ہوا پہلے پہل ساحلی علاقوں سے پنجگور تک دھاوا بول دیا ازبعد ریاست قلات کے مرکزی شہر قلات پہ بھی27 مارچ 1948ء کو عسکری طاقت کے بل بوتے پہ قبضہ کرلیا۔اور یوں برطانیہ اپنے اس گھناؤنے عمل کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوجاتا ہے جہاں ان کے مفادات کا تحفظ کرنے انہیں پاکستانی دلال مضبوط شکل میں میسر آجاتے ہیں۔ اس حوالے سے پروفیسر فاروق بلوچ اپنی کتاب بلوچ اور ان کا وطن“ میں رقم طراز ہے کہ مارچ1948ء میں پاکستان نے مختلف حیلوں، بہانوں، لالچ اور جبراً ہر طرح سے آخر کار بلوچستان پر اپنا قبضہ مکمل کرلیا۔

تحریر چونکہ بلوچ اور ان کے مسائل سے جُڑا ہوا ہے اگر بلوچوں کے مسائل کی بات کی جائے تو بلوچوں کے مسائل ایک چھوٹے سے تحریر میں لکھنے سے تو قاصر رہے۔ ان مسائل کو اگر لکھا جائے تب شاید کئی کتابیں چھپ جائیں لیکن مسائل پھر بھی نا مکمل ہی رہیں گے۔

جب سے ریاست بلوچستان پر جبراً قابض ہوا تب سے بلوچ قوم کئی سنگین مسائل کا سامنا کررہا ہے جو کہ تاحال بلوچستان میں جاری ہے کیوں نا کرے البتہ غلامی میں کئی مسائل کا سامنا کرنا ہی ہوتا ہے۔ آج کے دور میں بلوچستان کا ہر ایک گھر متاثر ہے۔ بلوچستان میں سب سے اول شناخت و بقا کا مسلہ ہے جس سے تمام تر مسائل جُڑے ہوئے ہیں، شناخت و بقاء کو لیکر بلوچ قوم سنگین نسل کُشی، لاپتہ اسیران، سائل ئے وسائل کی لوٹ کھسوٹ سمیت قومی سرزمین ہر طرح سے غلامی کی زنجیروں میں جھکڑا ہوا ہے۔ ان تمام مسلوں میں سے ایک ایسا مسلہ ہے جس سے ہر گھر زخمی ہے ہر فیملی اذیت سے دو چار ہے جو کہ لاپتہ لوگوں کا ہے۔ اس مسئلے کو ہمارے ہاں (مِسنگ پرسنز) کے نام سے جانتے ہیں۔لفظ مِسنگ پرسن انگریزی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی گمشدہ شخص یا ایک شخص کا لاپتہ ہونا ہے، جس کے بارے میں کسی کو علم نہ ہو۔ جب ایک شخص لاپتہ ہوتا ہے یا گمشدہ ہوتا ہے تو اس کے گھر والے رشتے دار قریبی دوست بہت پریشان ہوجاتے ہیں، اس کی تلاش کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ جب تک اس گمشدہ شخص کی تلاش نہیں ہوتی یا اُس کا پتہ نہیں چلتا، یہ سب لوگ انتہائی پریشانی کے عالم میں اپنا وقت گزارتے ہیں جوکہ لاپتہ انسان کے ساتھ ساتھ پوری فیملی کیلئے کسی اذیت سے کم نہیں۔

بلوچ لاپتہ اسیران کی لسٹ میں ایسے بھی نام شامل ہیں جن کو لاپتہ ہوئے 20 سال سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے لیکن تاحال وہ بازیاب نہیں ہوئے ہیں، ہر بلوچ مِسنگ پرسن کا اپنا درد ہے کس کی بات کی جائے ہر بلوچ مِسنگ پرسن اپنے آپ میں ایک کہانی ہے۔ جس انسانیت سوز اذیت کا سامنا بلوچ مِسنگ پرسنز کر رہے ہیں، اُن کے گھر والے، لواحقین بھی اُسی درد میں مبتلا ہیں اُنہیں رات کو نیند آتی ہے نہ دن کو چین آتا ہے۔ ہر لمحہ، ہر دن بس اپنے پیاروں کی بازیابی کے انتظار میں گزار دیتے ہیں۔ کچھ مسنگ پرسنز کے لواحقین کئی سالوں سے سڑکوں پر دربدر اپنی پیاروں کی بازیابی کیلئے احتجاج کررہے ہیں۔ کبھی اسلام آباد، کبھی کوئٹہ تو کبھی کراچی، ان میں سے کسی کا باپ لاپتہ ہے تو کسی کا بیٹا، کسی کا بھائی لاپتہ ہے تو کسی کا بہن، سارا دن، ساری رات بس اپنے دل میں اپنے پیاروں کی بازیابی کی یاد میں گذار دیتے ہیں، کئی بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین اپنے ہوش کھو بیھٹے ہیں، کئی پاگل ہو چکے ہیں اور کئی اسی انتظار میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں۔ وائس فار بلوچ مِسنگ پرسن کے مطابق پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے 40 ہزار سے زائد بلوچ فرزندوں کو اغوا کیا ہے، اور 4 ہزار کے قریب بلوچ فرزندوں کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئی ہیں، انکا لسٹ وائس فار بلوچ مِسنگ پرسنز کے پاس موجود ہے لیکن میں سمجھتا ہوں بلوچ لاپتہ افراد کی صحیح تعداد اس سے بھی کئی زیادہ ہے۔ کیونکہ پاکستانی فورسز نے بلوچستان کے کئی ایسے علاقوں میں آپریشن کیئے ہیں جہاں مواصلاتی نظام نہ ہونے کی وجہ سے آج تک وہ کاروائی میڈیا میں رپورٹ نہیں ہوئے ہیں اور کئی خاندانوں کے خاندان پاکستانی فوجی کیمپوں میں انسانیت سوز اذیت کا سامنا کر رہے ہیں۔

(2007) یعنی 16 سال پہلے کوہلو سے ایک سکول ٹیچر زرینہ مری کو اسکے شیر خوار بچے سمیت اٹھایا گیا۔ اس کے بعد زرینہ مری کے لواحقین میں سے کچھ لوگ شروع میں احتجاجی کیمپ آئے ، بعد میں تنظیم عدالت میں یہ کیس لے جانے کے لیے لواحقین سے رابطہ کرنے کی بہت کوشش کی تو ان سے رابطہ نہیں ہوسکا۔ زرینہ مری کے بارے میں پاکستان کے معروف صحافی حامد میر نے اپنے ایک بیان میں کہا “کہ ‏زرینہ مری کے لواحقین خوفزدہ ہیں اس لئے آپکے پاس دوبارہ نہیں آئے، دو ہزار سات میں اسکول ٹیچر زرینہ مری کو کوہلو سے اٹھایا گیا تو اسکا دودھ پیتا بچہ مراد بھی اسکے ساتھ تھا پھر یہ بچہ اس سے چھین لیا گیا۔ اور زرینہ مری کو کراچی کے ایک حراستی مرکز میں رکھا گیا لیکن کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا” 16 سال بولنے اور لکھنے میں تو بہت آسان ہے مگر 16 سال کے تحویل مدت میں ان کے لواحقین پر کیا بیت رہی ہے۔ وہ درد ان کے لواحقین ہی سمجھ سکتے ہیں۔اسی طرح ڈاکٹر دین محمد بلوچ ہیں۔ جن سے مجھ سمیت ہزاروں لوگ اس کے کردار سے واقف ہیں دین محمد بلوچ ایک سیاسی لیڈر ہے اور وہ اُسے جدوجہد کی پاداش میں یہ سب کچھ سہنا پڑ رہا ہے۔

ڈاکٹر دین محمد بلوچ کو 28 جون 2009 کو خضدار کے علاقے اورناچ سے رات کے نصف میں سادہ کپڑوں میں ملبوس خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں نے لوگوں کے سامنے تشدد کا نشانہ بنا کر اپنے ساتھ لے گئے اور آج اُن کی گمشدگی کو چودہ سال سے زائد مکمل ہونے کو ہے۔ تاحال اُن کی خاندان کو اُس کے حوالے سے کوئی خبر نہیں ہے۔ اہل خانہ نے پاکستانی عین مطابق سب سے پہلے FIR درج کروائی تھی۔ پھر ڈاکٹر دین کی بہادر بچیوں نے اپنے والد کی بازیابی کے خاطر انصاف کے تمام دروازوں کو کھٹکھٹانا شروع کیا، تاکہ کوئی بااختیار انہیں انکے والد کے بارے میں کچھ بتا کر تسلی دے سکے۔ ڈاکٹر دین محمد کی ایک بہادر بیٹی جو سمی دین بلوچ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ جب سمی دین کے والد لاپتہ ہوئے تھے تو اس وقت وہ ایک کم عمر بچی تھی مگر آج وہ پورے پاکستان کو برملا چیلنج کر رہی ہیں۔

اسی طرح لاپتہ لوگوں میں کئی ڈاکٹرز، اساتذہ کرام، انجینئر، سیاسی و سماجی کارکُن و بلوچ طلباء رہنما ذاکر مجید و چئیرمیں زاہد بلوچ جیسے جوان بھی شام ہیں۔

بلوچستان وہ زمین ہے کہ جو سمندر پار لوگوں کو اپنی کشش کی وجہ سے کھینچتی ہے لیکن اس سرزمین کے اپنے باشندے لاپتہ ہوجاتے ہیں۔ یونانی،فارسی،عرب اور انگریزوں نے دن رات ایک کر کے اس زمین کو اپنے قبضے میں لینا اور قبضہ برقرار رکھنا چاہا، لیکن ہر بار اُن کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ آج پاکستان کے حکمران بھی انہی پالیسیوں پر کاربند ہوکر بلوچستان کو ایک مفتوحہ علاقے کی حیثیت سے لوٹ رہے ہیں ۔اس زمین کے باشندوں کے لئے پاکستان ریاست کا قانون ہی الگ ہے ۔بلوچ نے ہمیشہ اپنے حقوق کا دفاع کیا ہے ، حقوق لوٹنے والوں کے خلاف بلوچ کی مزاحمت کی تاریخ تحویل ہے اور آج بھی یہ مزاحمتی جنگ جاری ہے ۔ حق حاصل کرنے کی اس جدوجہد میں اب تک ہزاروں لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں اور کئی ہزار سے زائد لاپتہ ہیں۔ اب ان تمام مسائل کا بلوچ نوجوانو کو ایک علمی و سیاسی بنیادوں میں انکا حل نکالنا ہے جیسے کے تحریر میں کہا گیا ہیکہ بلوچ کے تمام مسائل انکی شناخت و بقاء سے جُڑے ہوئے ہیں تو یہ ہم سب کی ذمےداری ہیکہ ہم اپنے شناخت و بقاء کیلئے جدوجہد کریں اور اپنے خوبصورت منزل کی طرف گامزن رہیں کیونکہ اب مزید بلوچ قوم میں خاموش رہنے کی وسعت و طاقت نہیں رہی جس طرح بابائے بلوچ قوم نواب خیر بخش مری کہتے ہیں کہ جتنا دیر سے اس ظلم کے خلاف اُٹھیں گے اُتنا زیادہ قربانیاں دینی ہونگیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔